"IMC" (space) message & send to 7575

Dark horse

چند ہفتے قبل بھارت کی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ ایس کے دلت نے ایک برطانوی اخبار میں لکھا:عمران خان dark horseکی ماندغیر متوقع نتائج پیدا کرسکتاہے۔اب جبکہ انتخابی مہم اپنے آخری مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔اس موقع پر مجھے بوڑھے مگر باخبر دلت کی بات درست ہوتی نظر آرہی ہے۔عمران خان نے ایک ہی دن میں پانچ پانچ جلسے کرکے بے کیف انتخابی مہم میں روح پھونک دی ہے۔تحریک انصاف کے جلسوں میں عمران خان کی پرجوش تقریروں، عوام کی بھرپور شرکت اور سیاسی گرمیوں میں گہری دلچسپی اس امر کا اظہار ہے کہ شہریوںکی کثیر تعداد نے عمران خان کو دل سے لیڈر قبول کرلیا ہے۔ جس تیزی سے تحریک انصاف کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور جس مہارت سے عمران خان نے قومی سیاست کو نوازشریف بمقابلہ عمران خان میں بدلا وہ حیرت انگیز ہے۔ 1988 ء کے عام انتخابات کے مابعد ملک میں دوجماعتی سیاسی نظام تشکیل پایاجو جنرل پرویز مشرف کی تما م تر کوششوں کے باوجود ابھی تک برقرارہا۔بدلتا کیسے ؟سیاسی جماعتوں اور ان کے راہنمائوں کو سیاسی عصبیت حاصل ہوتی ہے جو سطحی حربوں یا پروپیگنڈے سے تحلیل نہیں کی جاسکتی ۔1970ء میں عام لوگوں نے دل وجان سے ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت کو قبول کیا۔اگرچہ ان سے نفرت کرنے والے اور ان کے آمرانہ طرزسیاست کو نہ پسند کرنے والے بھی بہت تھے لیکن جب انہیں پھانسی دی گئی تو شاید ہی کوئی گھر انہ ہو جہاں آنسو نہ بہائے گئے ہوں۔محترمہ بے نظیر بھٹوکو لوگوں نے پہلے بھٹو کی بیٹی کے طور پر پذیرائی دی لیکن بعد میںا نہیں خوشدلی سے اپنالیا۔ ناگہانی موت نے انہیں ایک غیر متنازعہ راہنما بنایا حتیٰ کہ کٹر مخالفین بھی ان کا نام احترام سے لیتے ہیں ۔ ان کی سیاسی غلطیوں سے صرفِ نظر کیا جاتاہے۔ ضیا ء الحق اور ان کے حامیوں نے بڑا زور مارا کہ عوام انہیں قومی راہنما تسلیم کر لیں۔ ریاستی وسائل کے بے محابا استعمال کے باوجود ان کا خواب پورا نہ ہو ۔ہوائی حادثے کے بعد ان کے حق میںتھوڑی بہت لہر پیدا ہوئی لیکن اب چند سولوگ بھی ان کی برسی پر دستیاب نہیں ہوتے۔ 1993ء میںاس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف کو موم کی گڑیا سمجھ کر برتنے کی کوشش کی لیکن جب نواز شریف نے غیر جمہوری طاقتوں اور رویوں کی مزاحمت کی تو ا ن کی حکومت اور اسمبلی تحلیل کردی گئی۔سپریم کورٹ نے ان کی حکومت اور اسمبلی بحال کردی۔ غلام اسحاق خان اسٹبلشمنٹ کا آزمودہ مہرہ تھے۔ وہ بھلا کہاںمات کھانے والے تھے۔ایوان صدر وزیراعظم کے خلاف سازشوں کا مرکز بن گیا حتیٰ کہ عسکری قیادت کے دبائو پر نوازشریف اور غلام اسحاق خان دونوں کو مستعفی ہونا پڑا۔اس موقع پر نواز شریف نے ایک تاریخی تقریر کی۔انہوں نے کہا:میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا۔پیغام واضح تھا کہ وہ اب اسٹیبلشمنٹ کے مہرے نہیں بلکہ آزاد سیاستدان ہیں۔اس ایک تقریر نے انہیں فرش سے عرش پر بٹھایا۔ عمران خان کی سیاست میں کوئی جگہ نہ تھی۔روایتی بائیں بازو،لبرل طبقات، غیر مسلم آبادی سب کے سب پیپلزپارٹی کی جیب کی گھڑی تھے جبکہ دائیں بازو اور اعتدال پسند طبقات نوا زشریف کو پسند کرتے تھے۔امریکا مخالف عناصر کو مولانا فضل الرحمان نے لولی پاپ دے کر اپنے ساتھ ملا رکھا تھا۔کراچی ،سندھ اور بلوچستان میں تحریک انصاف یا عمران خان کی گنجائش نہ ہونے کے برابر تھی۔لوگ ان کی بات سنتے اور مذاق میں اڑادیتے۔ پرویز مشرف کے نفس ناطقہ شیخ رشید احمد انہیں ٹانگا پارٹی کہا کرتے تھے۔وہی شیخ رشید تحریک انصاف میں شامل ہونے کے لیے منتیں کرتے رہے لیکن عمران خان کے حامی نہ مانے۔ آج راولپنڈی سے عمران خان کی حمایت سے الیکشن لڑرہے ہیں۔ اس سیاسی پس منظر میں عمران خان نے اپنی سیاست کی عمارت چندنعروں پر اٹھائی۔اچھی حکومت اورکرپشن سے پاک سیاسی قیادت کی فراہمی،پاکستان کے اقتدار اعلیٰ بالخصوص جغرافیائی سرحدوں کے تحفظ کا عزم،متوازن خارجہ پالیسی اور شدت پسندوں سے مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل وہ نعرے تھے جنہوں نے نئی نسل کے دل ودماغ پر دیر پا اثرات مرتب کیے۔عمران خان نے ان ایشوز پر جرأت سے بسا اوقات ذرا بے اعتدالی سے اپنا مافی الضمیر بیان کیا۔ انہوں نے روایتی سیاستدانوں اور بالخصوص نون لیگ کی قیادت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کے تضادات کو آشکار کیا۔پنجاب کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا جو نون لیگ کی سیاسی بنیادہے۔پنجاب کی سیاست میں جگہ بنانا کو ئی آسان کام نہ تھا۔شہباز شریف ایک فعال وزیراعلیٰ تھے جو تعمیر وترقی اور عوامی خدمت کا شاندار نہیں تو معقول ریکارڈ ضرور رکھتے ہیں۔انہوں نے دیگر صوبوں کے مقابلے میں پنجاب میں اچھی حکومت فراہم کی۔ ابتداء میںعمران خان کو نوجوانوں میں پذیرائی ملی لیکن وہ بتدریج مقبول عوامی راہنما کے طور پر ابھرنے میں کامیاب ہوگئے۔اب میڈیا انہیں نون لیگ کے مساوی کوریج دیتا ہے۔ ٹی وی ٹاک شوز میں انہیں نون لیگ سے زیادہ وقت ملتا ہے۔ عالمی اخبارات ،رسائل وجرائد ان کے خاکے لکھتے ہیں۔روف کلاسرا اور عامر خاکوانی جیسے سرائیکی علاقوں سے تعلق رکھنے والے آزاد صحافی گواہی دیتے ہیںکہ سرائیکی علاقوں میں عمران خان کے جلسے نواز شریف ہی نہیں بلکہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے جلسوں سے بھی بڑے ہوئے۔خیبر پختون خوا میں وہ پہلے ہی طاقت کا بھرپور مظاہر ہ کرچکے ہیں۔ روایتی سیاسی جماعتوں بالخصوص نون لیگ کو تحریک انصاف پر یہ سبقت حاصل ہے کہ ان کی صفوں میں طویل سیاسی تجربہ اور الیکشن جیتنے کی مہارت رکھنے والی شخصیات کی بہتات ہے ۔اس کے برعکس تحریک انصاف کے اکثر امیدوار میدان سیاست کے شہسوار نہیں۔اس کے باوجو د انہیں حاصل عوامی حمایت دیکھ کر مبصرین دنگ رہ جاتے ہیں۔ گیارہ مئی کی شام الیکشن کا قصہ تمام ہوجائے گا لیکن یہ بات طے ہے کہ عمران خان کی تحریک انصاف ایک متبادل سیاسی قوت کے طور پر ابھرچکی ہے ۔پاکستان کی آئندہ سیاست میں ان کا کردار بڑا اہم ہوگا۔ پاکستان کے خارجہ تعلقات اور داخلی پالیسیوں کی تشکیل نو میں تحریک انصاف کی سوچ اپنا کردار ادا کرے گی۔ اگر تحریک انصاف مضبوطی سے اپنے موقف پر قائم رہے‘ اپنی تنظیم اور حامیوں کو متحر ک رکھے‘ایشوز کی سیاست کرتی رہے اور نوجوانوں کی سیاست میں حوصلہ افزائی جاری رکھے تو ملک کا سیاسی کلچر ہی بدل جائے گا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں