"IMC" (space) message & send to 7575

وزیر اعظم لی کی جیانگ:چشم ماروشن دل ماشاد

چین کے وزیراعظم جناب لی کی جیانگ وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے کے بعدپہلے غیر ملکی دورے پر روانہ ہونے والے ہیں۔ اس دورے میں انہوں نے دوایشیائی ممالک پاکستان اور بھارت کو بھی شامل کیاہے ۔ لگ بھگ دو ماہ قبل 57سالہ جیانگ نے دنیا کی دوسری بڑی معیشت کی زمام کار سنبھالی۔کمیونسٹ پارٹی نے اقتدار نسبتاً نئی نسل کے سپرد کرنے کا باقاعدہ آغاز کردیا ہے۔چین کی یہ نئی قیادت اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پیشہ ورانہ مہارت کی حامل ہے۔ خود وزیراعظم جیانگ معاشیات میںپی ایچ ڈی ہیں اور انگریزی زبان پر عبور رکھتے ہیں۔ ان کا شمار ایک جدید اسلوب کے حامل سیاستدان کا ہے۔جو چین کو عالمی برادری میں ممتاز مقام دلانے کاآرزو مند ہے۔ وہ ایک ایسے وقت میںاسلام آباد کا دورہ کررہے ہیں جب پاکستان عبوری دور سے گزررہاہے۔ مسلم لیگ نون کے سربراہ میاں محمد نوازشریف نے ابھی اقتدار نہیں سنبھالاجبکہ صدر آصف علی زرداری کی مدت صدارت چند ماہ بعد ختم ہونے والی ہے ۔وزیراعظم جیانگ پاکستان کا دورہ یہ بہانہ تراش کرٹال سکتے تھے کہ ابھی یہاںباقاعدہ حکومت نہیں لیکن انہوں نے ایسا نہ کرکے پاکستان کے ساتھ لازوال دوستی کا مظاہر ہ کیا ۔اس طرح وہ پہلی غیر ملکی شخصیت ہیں جو نوازشریف سے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے سے پہلے مل رہے ہیں۔ صدر زرداری نے چین کے ساتھ تعلقات میں نئی روح پھونکی۔انہوں نے نو مرتبہ چین کا دورہ کیا۔دونوں ممالک کے روایتی تعلقات کو جو محض دفاعی اداروں تک محدود تھے کاروبار اور تجارت تک وسعت دی۔آج جب چین پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کرنے جارہاہے تو اس پس منظر میں گزشتہ پانچ برسوں میں کی گئی محنت کا بھی عمل دخل ہے۔ چین کے ساتھ گہرے دوستانہ تعلقات کے معمار پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو ہیں۔اس لیے پیپلزپارٹی چین کے ساتھ تاریخی رشتوں میں بندھی ہوئی ہے۔چین کی خوبی یہ ہے کہ وہ جماعتوں اور شخصیات سے بالاتر ہوکر مملکت پاکستان کے ساتھ رشتہ استوار کرنے پر یقین رکھتاہے اور پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکا جو پاکستان کو سب سے زیادہ مالی امداددیتاہے ،رائے عامہ کے جائزوں میں اس کی حمایت نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ چین کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی حمایت 90فیصد ہے۔ یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ اچھے وقتوں میں ذوالفقار علی بھٹو نے امریکی مخالفت کے باوجود جنرل ایوب خان کو قائل کرکے چین کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرالیے۔بصورت دیگر آج جب چین دنیا کی ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقت ہے ،اسے رام کرنا آسان نہ تھا۔ عشروں پر محیط خاموش اقتصادی ترقی کے بعد اب چین عالمی معاملات میں نمایاںکردار ادا کرنے کی طرف مائل ہے۔وہ عالمی معاملات اور تنازعات میں بھی گہری دلچسپی لینا شروع ہوگیا ہے بلکہ اپنا کردار منوانے کی راہ پر گامزن ہے۔دو ہفتے قبل چین کے صدر شی جن پنگ نے فلسطین کے مسئلہ کے حل کے لیے ایک چار نکاتی فارمولا پیش کیا۔ وہ بیجنگ میں جب فلسطینی صدر محمود عباس سے چار نکاتی منصوبے پر تبادلہ خیال کررہے تھے اسی موقع پر اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہوبھی بیجنگ میں موجود تھے۔ ایک اور دلچسپ حقیقت ملاحظہ فرمائیے:چین نے مقبوضہ کشمیر کے علاقے لداخ میں داخل ہوکر کافی سارے علاقے پر قبضہ کرکے اپنا جھنڈا لہرادیا۔بھارت نے کافی چیخ وپکار کی۔میڈیا نے بھی شور مچایا۔ان دنوںبھارتی وزیرخارجہ سلمان خورشید کا دورۂ بیجنگ طے تھا ۔بھارتی میڈیا کہتارہاہے کہ وہ چین کے جارحانہ رویئے کے خلاف احتجاجاً یہ دورہ منسوخ کردیں لیکن انہوں نے سنی ان سنی کردی۔وہ چین گئے اور بڑے شائستہ لب ولہجے میں درخواست کی کہ دونوں ممالک کو تمام تنازعات باہمی مذاکرات کے ذریعے طے کرنے چاہیئں۔ایسا ماحول پیدا کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے جو باہمی تنائو کا سبب بنے ۔سلمان خورشید نے یہ کہہ کر دنیا کو ششدر کردیا کہ اگر انہیں موقع ملے تو وہ بیجنگ میں رہنا پسند کریںگے۔ گوادربندرگاہ کی تعمیر اور اب اس کا انتظام وانصرام چلانے کے رسمی آغاز کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میںمزید گہرائی آئی ہے۔عجیب اتفاق ہے کہ چین کے پس ماندہ صوبے سنکیانگ اور تبت‘ چینی بندرگاہوں کے مقابلے میں کراچی اور گوادر کی بندرگاہوں سے سے زیادہ قریب ہیں۔ چین عرب ممالک اور ایران سے خام تیل کا ساٹھ فیصد درآمد کرتاہے ۔گوادر کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد چین اس پوزیشن میں ہوگا کہ وہ سنکیانگ اور تبت کے لیے تیل یہاں سے لے جائے۔علاوہ ازیں چین کی قومی منصوبہ بندی میں یہ شامل ہے کہ اب اس نے سنکیانگ اور تبت میں بھاری سرمایہ کاری کرکے ان دونوں علاقوں کو باقی ملک کے برابر لانا ہے۔ توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے پاکستان کو جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہے۔چین کی مدد سے کئی ایک پن بجلی کی پیداوار کے منصوبوں پر تعمیراتی سرگرمیاں جاری ہیں لیکن تیزی سے بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر یہ منصوبے ہیچ ہیں۔چنانچہ پاکستان غیر روایتی ذرائع سے بجلی کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔اس سلسلے میں چین نے پاکستان میں چشمہ کے مقام پر چار ایٹمی بجلی گھر تیار کرنے میں فنی معاونت فراہم کی۔اب ایک ہزار میگاواٹ کا ایٹمی بجلی گھر تعمیر کرنے کے منصوبے کی باقاعدہ تصدیق کی جاچکی ہے۔یہ ایٹمی بجلی گھر چین کی ایک کمپنی نے تیار کیا ہے ۔اب اسے پاکستان کو برآمد کیا جانا ہے۔جہاں وہ ایک سال کے اندر بجلی کی پیداوار شروع کردے گا۔ پاکستان میں جاری لگ بھگ تمام بڑے تعمیراتی منصوبوں پر چینی کمپنیاں کام کررہی ہے۔امریکی اور مغربی ممالک پاکستان میں کسی منصوبے پر کام کے لیے تیار نہیں ہوتے ۔ایک اندازے کے مطابق چین پاکستان میں اس وقت بائیس ارب 25 کروڑ ڈالر کے منصوبوں پر کام کررہاہے۔ چین کی پاکستان میں براہ راست سرمایہ کاری 2.13بلین ڈالر سے تجاوز کرچکی ہے۔ خود چین کے سرمایہ کار کہتے ہیں کہ پاکستان تعمیراتی سرگرمیوں کے لیے ان کے پسندیدہ ممالک میں سرفہرست ہے۔ اس وقت پاکستان میں تیرہ ہزار سے زائد چینی انجینئرز اور کارکن کام کررہے ہیں۔کسی بھی دوسرے ملک کے اتنی بڑی تعداد میں شہری پاکستان میں نہیں ہیں۔ ان مثبت پہلوئوں کی موجودگی کے باوصف یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان چین کے ساتھ گہرے دوستانہ تعلقات اور سرمایہ کاری کے لیے بہترین ملک ہونے کے باوجود دستیاب امکانات سے پوری طرح مستفید نہیں ہوسکا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ امن وامان کی دگرگوں حالت ہے۔بلوچستان جہاں گوادر واقع ہے وہاں چند برس پہلے ایک چینی کمپنی آئل ریفائنری پر کام کررہی تھی ۔ چینی انجینئروں پر حملہ ہوگیا اور وہ کام چھوڑ کر چلے گئے۔سندھ میں کوئلہ کی تلاش کا ایک معاہد ہ ہوتے ہوتے محض اس وجہ سے رہ گیا کہ چینی کمپنی نے کہا کہ ان کے کارکنوں کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے۔آپ یقین نہیں کریں گے کہ یہ پروجیکٹ انیس ارب ڈالر کا تھا۔ یہ رقم پاکستان آجاتی ہے تو ملک کی کایا پلٹ جاتی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں