"IMC" (space) message & send to 7575

تو پھر قرار آ سکتا ہے

28مئی کومیاں محمد نواز شریف کی تقریر عزم وہمت کا مظہر ہی نہیں پاکستان کو درپیش مسائل بالخصوص توانائی کے بحران پر اجتماعی بے بسی کا نوحہ بھی تھی ۔شہباز شریف کے برعکس قوم کو خواب دکھانے کے بجائے انہوں نے دیانت داری سے اعتراف کیا کہ بجلی کے بحران سے نمٹنے کا سوچ سوچ کر میری راتوں کی نیند اڑگئی ہے۔عوام یہ توقع نہ کریں کہ ہماری حکومت بنتے ہی بجلی آجائے گی۔انہوں نے ذکر کیا کہ چین کے وزیراعظم لی کی چیانگ سے ملاقات میں پاکستان کو معاشی طور پر خوشحال بنانے کے منصوبوں پر تبادلہ خیال ہوا اور وہ شراکت داری میں پاکستان کی مدد کے لیے آمادہ ہیں۔ یہ تقریر اس اعتبار سے بہترین تھی کہ نوا زشریف نے قوم کو لولی پاپ دینے سے گریز کیا۔ دوٹوک الفاظ میں بتایا کہ اگلے دوتین برس تک کچھ بہتری ضرور آئے گی لیکن لوڈشیڈنگ کے عذاب سے مستقل نجات کا کوئی امکان نہیں۔ بجلی کے منصوبے لگانے سے لے کر پیداوار شروع کرنے تک کا عمل طویل اور پیچیدہ ہے ،جس کی تکمیل میں کئی برس کی مدت درکار ہوتی ہے بشرطیکہ وافر سرمایہ دستیاب ہو۔ عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے بجلی کے بحران کا کوئی ہنگامی حل تلاش نہیں کیا جاسکتا کیونکہ توانائی کی طلب غیر معمولی طور پر بڑھ رہی ہے۔ ایک جائزے کے مطابق ہر سال بجلی کی ضرورت میں ایک ہزار میگا واٹ بجلی کا اضافہ ہوجاتاہے۔آبادی میں اضافے کا رجحان اس قدر سبک رفتار ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ ’بچے ‘پیدا کرنے والی اقوام میں ہوتاہے۔ نوازشریف کی تقریرکا یہ پہلو بھی حوصلہ افزا تھا کہ انہوں نے قوم سے وعدہ کیا کہ وہ ایمان دار لوگوں کو سامنے لائیں گے اور خود منصوبوں کی نگرانی کریں گے۔ نواز شریف کی ابھی تک کی گفتگو اور تقاریر کا جائزہ لیا جائے تواطمینان ہوتا ہے کہ وہ صحیح راستے پر ہیں۔ پاکستان کو درپیش بڑے داخلی اور خارجی مسائل پر ان کی سوچ کے خطوط سے قیاس کیا جاسکتاہے کہ انہیں مسائل اور ان کے حل کا پورا پورا ادراک ہے۔وہ توانائی کے بحران سے جنگی بنیادوں پر نبردآزما ہونا چاہتے ہیں۔طالبان کے ساتھ مذاکرات کا دروازہ کھولنے کی کوشش کررہے ہیں۔بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری اور افغانستان میں قیام امن میں مدد دینے کے لیے سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں۔امریکا کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو برقراررکھتے ہوئے چین کی اقتصادی ترقی ،فنی مہارت اور جغرافیائی قربت کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ داخلی سطح پر وہ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی سے باہمی تعاون کا آغاز کرچکے ہیں۔مخالفین کے مینڈیٹ کو خوش دلی سے تسلیم کیا۔ نوازشریف کی کوشش ہے کہ اندرون ملک پرامن حالات اور سیاسی استحکام ہو تاکہ معاشی خوشحالی کے منصوبوں پر سکون کے ساتھ پیش رفت کی جاسکے۔داخلی سیاسی استحکام حاصل کرنے کی خاطر مسلم لیگی دھڑوں کے ادغام کی کوششیں بھی ہو رہی ہیں۔ ارب غلام رحیم جو پرویز مشرف کے نفس ناطقہ اور سندھ کے وزیر اعلیٰ تھے‘ اب مشرف بہ نون لیگ ہوچکے ہیں۔ پرانی کہاوت ہے :ہاتھی کے پائوں میں سب کے پائوں۔ جب سے نون لیگ انتخابات میں کامیاب ہوئی ہے یہ مسلسل روایتی سیاسی بازی گروں کے نرغے میں ہے۔درجنوں نامی گرامی شخصیات مسلم لیگ میں شامل ہوگئی ہیں۔اس وقت نون لیگ کی صفوں پر نظر ڈالی جائے تو وہ تمام لوگ نظر آئیں گے جو اکتوبر 1999ء میں نوا زشریف کے ہم رکاب تھے۔مشرف نے شب خون مارا تو اجتماعی طور پر قاف لیگ کے جھنڈے اور مشرف کے ڈنڈے تلے جمع ہوگئے تھے۔اگر میاں صاحب برا نہ مانیں تو چودھری شجاعت حسین ،چودھری پرویز الٰہی،قبلہ مشاہد حسین سیّداور منظور وٹو کو معاف کردیں اور انہیں بھی نون لیگ کی اگلی صفوں میں نشستیں عنایت فرمادیںتاکہ مسلم لیگیوں میں اتحاد کی پرانی خواہش ایک بار پوری ہوجائے۔ مسلم لیگ نون کو موسمی بٹیروں کو اپنی چھت تلے جمع کرنے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔اسے انتخابات میں نمایاں کامیابی مل چکی ہے۔اس وقت آئین میں کوئی ایسا سقم نہیں جسے دور کرنے کے لیے دو تہائی اکثریت درکا ر ہو۔پیپلزپارٹی کی حکومت نے نون لیگ اور دیگر جماعتوں کی مشاورت اور تعاون سے تمام اہم آئینی مسائل کا حل تلاش کیا جو کافی وقت سے متنازع چلے آرہے تھے۔آج ملکی سیاسی نظام ایک مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہے۔نگران حکومتوں اور الیکشن کمیشن کی حالیہ کارکردگی پر انگلی اٹھائی جاتی رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے یہ آپریشنل کمزوریاں ہیں جن کی اصلاح کی جاسکتی ہے ۔بنیادی ڈھانچے میں کوئی نقص نہیں ہے۔ نوازشریف کے ساتھ لوگوں کے رومانس کا محرک یہ ہے کہ انہیں ناجائز طریقے سے ایوان اقتدار سے نکالا گیا۔ ان کی اور ان کے خاندان کی بے توقیری کی گئی۔اقتدار سے بے دخلی سے قبل نوا زشریف کی حکومت نے ایٹمی دھماکے کیے تھے۔عام پاکستانی دھماکوں کے جرأت مندانہ فیصلوں سے بہت متاثرہوئے ۔امریکا اور دیگر عالمی طاقتوں نے بہت دبائو ڈالا۔مالی پیکج کی بڑی پر کشش پیش کش کے باوجود دھماکے کیے گئے۔ مقتدر قوتوں نے ان کی پارٹی اور سیاست کو ختم کرنے لیے ہر ممکن ہتھکنڈے استعمال کیے جو کارگر ثابت نہ ہوئے کیونکہ عام لوگ ان قوتوں سے خوف ضرور کھاتے ہیں،مزاحمت نہیں کرتے لیکن وہ ان کے فیصلوں کو دل سے قبول نہیں کرتے ۔وہ کسی بھی سیاسی شخصیت کو پسند یا نا پسند کرنے کے سرکاری پیمانوں کو قبول نہیںکرتے۔پیپلزپارٹی کی مقبولیت ختم کرنے کے لیے ریاستی اداروں نے کیا کیا جتن نہیں کیے۔بے حساب روپیہ پانی کی طرح بہایا گیا۔متبادل سیاسی جماعتیں اور شخصیات کھڑی کی گئیں لیکن اس کے باوجود لوگ پی پی سے وابستہ رہے۔ عوامی نیشنل پارٹی مقتدر قوتوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود اسے سیاسی منظر نامے سے غائب نہیں کیا جاسکا۔پانچ برس قبل وہ برسراقتدار آئی تو عرصہ امتحان شروع ہوگیا۔عوام نے ووٹ کی طاقت سے انہیں خیبر پختون خوا کی سیاست سے حرف غلط کی طرح مٹادیا۔ پیپلزپارٹی کو بھی اپنی کارکردگی دکھانے کا پورا موقع ملا اور وہ ناکام ہوگئی۔اسی کو کہتے ہیں ع ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں لوگوں کے دلوں میںنوازشریف کے لیے جو ہمدردی اور آمر حکمرانوں کے خلاف جو غصہ اور بیزاری تھی اس کا اظہار 11مئی کی شام ہوا۔یہ تاثر درست نہیںکہ شہباز شریف کی میٹرو بس سروس یا انڈرپاس دیکھ کر لوگوں نے نون لیگ پر اعتماد کیا۔ ایسے ووٹروں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوگی۔عام پاکستانیوں نے نوازشریف پر اعتماد کیاہے ان کے ساتھیوں پر نہیں۔اب یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ گدھے گھوڑے کی تمیز کریں اور قوم کی زمام کار آزمائے ہوئے کھوٹے سکوں کے حوالے نہ کریں۔اپنی ٹیم میں ایسے لوگوں کو نمایاں منصب دیں جن کا ماضی بے داغ اور دامن اجلا ہو اور وہ کارکردگی دکھانے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں۔ایسا نہ کیا گیا تو ان کے اقتدار کا سفینہ بھی ڈوب جائے گا اور ایک بار پھر لوگوں کی آرزوئوں کا خون ہوگا۔ نون لیگ کو اچھی اور صاف ستھری انتظامیہ فراہم کرنی ہوگی جو شہریوں کو رعایا تصور نہ کرتی ہو۔ان کی عزت نفس بحال کرسکے۔ ان کے جان ومال کے تحفظ کے لیے سرگرم ہو۔ راتوں رات دیرینہ مسائل حل نہیں ہوتے لیکن شہریوں کو یہ یقین ہونا چاہیے کہ ان کے مسائل کے حل کے لیے خلوص اور دیانت داری کے ساتھ کوشش کی جارہی ہے ۔نوازشریف اتنا کردیں تو لوگوں کو قرارآسکتاہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں