"IMC" (space) message & send to 7575

غیر ملکی دورے اور داخلی صورتحال

اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف سعودی عرب کے دورے پر جارہے ہیں جہاں وہ نجی مصروفیات کے علاوہ سعودی قیادت کے ساتھ ملاقات بھی کریں گے۔ (ممکن ہے ان سطور کی اشاعت تک وہ روانہ ہو چکے ہوں)۔ امکان ہے کہ وہ اس موقع پرسعودی عرب سے پاکستان کے لیے مالی امداد کی درخواست بھی کریں گے۔نوازشریف نے وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے کے بعد مسلسل کوشش کی ہے کہ پاکستان کو جلدازجلد معاشی مشکلات سے نکالا جائے۔ان کا دورہ چین اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا ۔اس موقع پر جن معاہدوں پر دستخط ہوئے ان پر عمل درآمد کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔وزیراعظم نوازشریف کی حکمت عملی یہ ہے کہ پاکستان میں بڑے پیمانے پر معاشی اور تجارتی سرگرمیاں شروع کی جائیںتا کہ عام لوگوںبالخصوص نوجوانوں کو کاروبار اور ملازمتوں کے مواقع میسر آئیں۔ اس طرح شدت پسندی کے سیلاب کے آگے بندھ باندھا جاسکے گا اور انتہاپسندوں کو تنہا کیا جا سکے گا۔ یہ مئی1998ء کی بات ہے ۔جنرل (ر)جہانگیر کرامت پاک فوج کے سپہ سالار تھے ۔ابھی پاکستان نے ایٹمی دھماکے نہیں کیے تھے‘ نہ ہی بیرونِ ملک آباد پاکستانیوں کے ڈالر اکائونٹ کو روپے میں تبدیل کر کے ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی گئی تھی۔ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے پاکستان پر سخت اقتصادی پابندیاں بھی نہیں لگی تھیں۔اس کے باوجود جنرل جہانگیر کرامت نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: پاکستان کی سلامتی اور یکجہتی کوبیرونی خطرات کے مقابلے میں معاشی عدم استحکام سے زیادہ سنگین خطرہ لاحق ہے۔یہ پہلا موقع تھا کہ کسی آرمی چیف نے بیرونی جارحیت کے علاوہ ملکی سلامتی کو لاحق دیگر خطرات کا ذکر کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ نائن الیون سے پہلے ہی پاکستان میں معاشی ترقی کا سفر امن وامان کے مسائل کی وجہ سے بری طرح متاثر ہو رہا تھا۔ اسی زمانے میں بعض ممالک نے اپنے اپنے مقاصد کی خاطر پاکستان کوعدم استحکام سے دوچار کرنا شروع کردیا تھا۔ بڑے چھوٹے شہروں میں سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے اپنی اپنی ملیشیا قائم کرلی تھیں۔جھنگ اور کراچی میںوہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا بھی ہوچکے تھے۔ریاستی اداروں نے اس عفریت پر بروقت کنٹرول کا ادراک نہ کیا ۔ اب عالم یہ ہے کہ دودن پہلے ڈیرہ اسماعیل خان کی سینٹرل جیل سے 483 میں سے 243 قیدیوں کو کالعدم تنظیموں نے حملہ کرکے آزاد کرالیا اور اپنے ساتھ لے گئے۔ پندرہ ماہ قبل بنوں کی سینٹرل جیل پر حملہ کر کے بھی طالبان نے تین سو چوراسی قیدیوں کو آزاد کرا لیا تھا۔ یہ قیدی زیادہ تر طالبان شدت پسند تھے یا ان کا تعلق کالعدم لشکرِ جھنگوی سے تھا۔ڈی آئی خان سے فرارہونے والوں میں تیس افراد انتہائی خطرناک قیدی بتائے جاتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ان سے کوئی بھی قیدی دوبارہ گرفتار نہیں کیا جاسکا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کالعدم تنظیمیں اور ان کے حامی انتظامیہ سے زیادہ طاقت ور ہوچکے ہیں۔ نواز شریف اور عمران خان کا خیال تھا کہ ان کی جماعتوں کو اقتدار مل جائے تو شدت پسندوں کو قرارآجائے گا لیکن یہ محض خام خیالی ثابت ہوئی۔ اس کے برعکس شدت پسندی کی کارروائیوں کے حجم اور شدت میں اضافہ ہوگیا ہے۔سکھر میں آئی ایس آئی کے دفتر پر حملہ دیدہ دلیری کی انتہا ہے۔ صدر آصف علی زرداری کے سکیورٹی افسر کو بم دھماکے میں ہلاک کردینا اسی دیدہ دلیری کی ایک اور مثال ہے۔ نانگاپربت میں نو غیر ملکی کوہ پیمائوں کو قتل کرنا اورکوئٹہ میں ڈی سی اوکی ہلاکت سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شدت پسندوں کا نیٹ ورک ریاستی اداروں کے اندر تک پھیل چکاہے۔ گزشتہ سال یہ اطلاع عام ہوئی کہ دفاعی اداروں نے داخلی انتشار اور شدت پسندی میں ملوث گروہوں کو ملکی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قراردیا ہے۔چودہ سال پہلے جنرل جہانگیر کرامت کی بات پر کسی نے دھیان نہیں دیا تھا۔ دفاعی اداروں نے اپنی روایتی پالیسیوں میں نمایاںتبدیلی کی اور نہ ہی پرویز مشرف کی حکومت یا بعد میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں معاشی سرگرمیوں کو تیز کرنے پر توجہ مرکوز کی۔نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ آج ملک ایک سنگین بحران سے دوچارہے اور حکومت کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کہاں سے شروع کرے ۔ وزیراعظم نواز شریف نے درست کہا کہ دوماہ سے مسائل سمجھنے کی کوشش کررہاہوں لیکن سرا ہاتھ نہیں آتا۔ان کا یہ نقطہ نظر بھی صائب ہے کہ کوئی بھی جماعت یا حکومت تنہا ان دیوہیکل مسائل سے نبردآزما نہیں ہوسکتی ۔چنانچہ انہوں نے کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کیا۔مقصد یہ تھا کہ قومی سطح پر اتفاق رائے پیداکیا جاسکے۔شدت پسندوں کو اجتماعی پیغام دیا جاسکے کہ پوری قوم ان کی جارحیت کے خلاف یکسو اور متحد ہے۔بدقسمتی سے یہ کانفرنس داخلی سیاست کا شکار ہوگئی۔عمران خان نے مطالبہ کیا کہ وہ وزیراعظم اور آرمی چیف سے ملاقات کرکے سچ سننا چاہتے ہیں؛ تاہم نوا زشریف بظاہر ایسی کسی سہ فریقی کانفرنس کے حق میں نظر نہیں آتے۔ عمران خان کو خطرہ ہے کہ کہیں پیپلزپارٹی اور نون لیگ کے مابین نوراکشتی نہ شروع ہوجائے‘ جو پیپلزپارٹی کو حقیقی حزب اختلاف کے طور پر ابھاردے اور عمران خان فرینڈلی اپوزیشن بن کر اپنی ساکھ کھودیں۔حالیہ ایک ہفتے کی سرگرمیوں کے مشاہدے سے نظرآتاہے کہ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف میں حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کامقابلہ شروع ہو چکا ہے۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ ملکی قیادت پاکستان کو درپیش سب سے بڑے مسئلہ یعنی شدت پسندی ‘ جو اس کی جڑوں کو تیزی سے کھوکھلا کررہی ہے‘ پر متفقہ موقف اپنانے سے کتراتی ہے۔وہ طالبان سے خوف زدہ ہے یا دوغلی پالیسی جاری رکھنا چاہتی ہے۔عمران خان نے ماضی میں بھی شدت پسندی کے مسئلہ کو درست تناظر میں نہیں سمجھا اور اب ایک بار پھر وہی بے وقت کا راگ الاپ رہے ہیں۔انہیںچاہیے کہ وہ نہ صرف قومی کانفرنس میں شریک ہوں بلکہ بغیر کسی لگی لپٹی کے اپنا موقف بیان کریں۔انتہاپسندی کے خلاف بننے والی پالیسیوں کا سب سے زیادہ فائدہ خیبر پختون خوا کو ہوگا جہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔صوبے میں امن وامان ہوگا تو ان کی حکومت کارکردگی دکھا سکے گی۔بصورت دیگر اگلے انتخابات میں بے نیلِ مرام عوام کے سامنے جائے گی۔ وزیراعظم جتنے بھی غیر ملکی دورے کرلیں‘ چین اور سعودی عرب دودھ اور شہد کی نہریںبہانے کے وعدے کرلیں‘ سرمایہ کار پاکستان کا رخ کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے جب تک پاکستان کو غیر ریاستی دہشت گرد گروہوں سے پاک نہیں کیا جاتا اور ریاست کی عملداری قائم نہیں کی جاتی ۔ لہٰذا مناسب ہوگا کہ وزیراعظم اپنی ساری توجہ اس مسئلہ کی طرف مبذول کریں‘ اس کے بعد دیگر معاملات خودبخود بتدریج بہتر ہونا شروع ہوجائیں گے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں