"IMC" (space) message & send to 7575

برطانوی میڈیا اور ایم کیوایم

برطانوی میڈیا میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوایم) کی سیاست اور حالیہ تاریخ کے حوالے سے جو کچھ نشر ہوا یا چھپا ۔اس نے ایم کیوایم کی قیادت اور تنظیم کے لیے بے پناہ مشکلات پیدا کردی ہیں۔ دنیا کے نزدیک لبرل اور مغرب دوست تنظیم کہلانے والی ایم کیوایم کی شناخت اب تشدد پر اکسانے والی اور سیاسی مخالفین کا جینادوبھر کردینے والی تنظیم کی بن چکی ہے۔بی بی سی کی دستاویزی فلم کے بعد دی گارجین میں شائع ہونے والی تفصیلی رپورٹ نے عالمی رائے عامہ میں ایم کیوایم کی جو تصویر ابھاری وہ کوئی پسندیدہ نہیں۔ یہ طے ہے کہ سیاست اب مقامی کھیل نہیں رہا ۔ اس کے قواعد وضوابط عالمی معیارات کے مطابق طے پاتے ہیںنہ کہ لالو کھیت میں۔ برطانوی میڈیا کسی شخص یا تنظیم کے پیچھے پڑجائے تو بقول ایاز امیر‘ صرف ’آسمانی قوتیں‘ ہی اس کی جان چھڑاسکتی ہیں۔برطانوی میڈیاکے اندر مسابقت کا رجحان بہت ہے اور صحافیوں میں حقائق کو طشت ازبام کرنے کا اشتیاق بھی جنون کی حدتک پایا جاتاہے۔وہ ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے اور ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش میں بھی لگے رہتے ہیں۔چند ماہ پہلے تک برطانوی میڈیا الطاف حسین کے نام سے واقف نہ تھا‘ حتیٰ کہ ان کے پڑوسیوں تک کو معلوم نہ تھا کہ پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ یہاں اقامت پذیر ہیں‘ مگر اب وہ ہر اس شخص سے انٹرویو کے لیے بے تاب ہی نہیں بلکہ منہ بولی قیمت دینے کو تیار ہے‘ جو ایم کیوایم کے بارے میں ٹھوس معلومات رکھتاہو۔ ایم کیوایم کے ساتھ جو کچھ ہو رہاہے وہ غیر متوقع نہیں۔بالخصوص نائن الیون کے مابعد سیاست میں تادیر تشدد کے عنصر کو برقراررکھنا اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے زور زبردستی کرنا ممکن نہیں رہا۔بھارتی ریاست گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کو ابھی تک امریکا کا ویزا نہیں مل رہا۔ مولاناسمیع الحق برسلز گئے تو ائر پورٹ پر روک لیے گئے۔ اعلیٰ سطحی کوششوں کے بعد انہیں واپس پاکستان لایاگیا۔ایم کیوایم کی قیادت بدلے ہوئے عالمی حالات کا ادراک نہ کرسکی‘ 80ء کی دہائی والی روایتی سیاست سے اوپر نہ اٹھ سکی اور ماضی میں پھنس کر رہ گئی ہے۔ حالیہ برسوں میںایم کیوایم کی قیادت سے کئی مرتبہ تبادلہ خیال کا موقع ملا۔مئی 2007ء میں کراچی میں ہونے والی ہلاکتوں کے بعد عالمی میڈیا متحدہ قومی موومنٹ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جانکاری حاصل کرنے کی جانب راغب ہوا۔ ایک غیر ملکی ہفت روزہ کی بیوروچیف نے کہا کہ وہ کراچی جارہی ہیں۔ کیا ایم کیو ایم کے کسی رہنما سے ملاقات ممکن ہوسکتی ہے؟ ہمدم دیرینہ ’گوگل‘ سے ایم کیوایم کے رہنما فاروق ستار کا موبائل نمبر لیا اور انہیں ایس ایم ایس کیا کہ ایک غیرملکی صحافی ملاقات کرنا چاہتی ہے۔تھوڑی دیر بعد نائن زیرو سے فاروق ستار کے سیکرٹری کا فون آگیا۔ تفصیلات معلوم کیں اور ملاقات کا وقت طے پا گیا۔ ایم کیوایم کی قیادت سے یہ پہلا رابطہ تھا۔کافی متاثر ہوا کہ بہت ہی منظم جماعت ہے۔ بعدازاں فاروق ستار سے اسلام آباد میں اسی غیر ملکی دوست کے توسط سے طویل تبادلہ خیال ہوا۔فاروق ستار دلچسپ سیاستدان لگے۔ وہ ایم کیوایم کی تاریخ ‘سیاسی فلسفے اور خدمات پر اس طرح گفتگو کرتے ہیں کہ جیسے کوئی رٹا ہوا سبق سناتاہے۔ہر سوال کے جواب میں پندرہ منٹ کا بھاشن دیتے ہیں۔مخلص مگر بسیار گو بہت۔ سیاستدان وہی اچھا ہوتا ہے جو مختصر وقت میں مطلب کی بات کہنے پر قادر ہو اور مخاطب کو بور نہ کرے۔لیکن فاروق بھائی کا اپنا ہی اسٹائل ہے۔ دوبرس پہلے ایک مغربی رسالے نے کراچی شہر پر طویل سٹوری شائع کی۔طالب علمی کے ماہ وسال کراچی میں گزرے ہیں لہٰذا میں بھی اس منصوبے کا حصہ بن گیا۔خیال تھا کہ لگے ہاتھوں درجنوں باخبر لوگوں سے ملاقات کا موقع ملے گا اور کراچی کی گلیوں محلوں میں پیدل چل کر ماضی کی یادیں تازہ کریں گے۔انسانی حقوق کے علمبرداروں سے لے کر سیاستدانوں تک سے ملاقاتیں ہوئیں۔سرکاری حکام سے تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ پوش علاقوں کے علاوہ لیاری اور پختون آبادی والے محلوں میں لوگوں سے ملے۔زیادہ ترلوگوں کو ایم کیو ایم سے شاکی پایا۔ہر ایک کے پاس نائن زیرو کے خلاف شکایات کا ایک دفتر تھا۔ کراچی کے سابق ناظم مصطفیٰ کمال سے بڑی دوستانہ ملاقات ہوئی۔غیر ملکی صحافی کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عرض کیا کہ کراچی کی سول سوسائٹی اور ذرائع ابلاغ کے نمائندے ایم کیوایم کے تئیں مثبت رائے کا اظہار نہیں کرتے ۔مثال کے طور پر عاصمہ جہانگیر کا ہیومن رائٹس کمیشن ان کی قیادت کو شہر میں تشدد کا ذمہ دار قراردیتا ہے۔ شہر میں درجنوں دانشوروں، صحافیوں اور غیر سرکاری تنظیموں کے رہنمائوں سے ملاقاتوں میں ایم کیوایم کے سیاسی مخالفین کے ساتھ نارواسلوک کی داستانیں سننے کو ملتی ہیں۔مصطفی کمال نے حسب توقع ان دانشوروں اور این جی اوز کو کھری کھری سنائیں اور کہا:یہ سب ہمارے مخالف اور سٹیٹس کو کی حامی قوتیں ہیں۔ ان کی باتوں پر یقین نہ کرنا۔ انہوں نے یہ جاننا چاہا کہ کس طرح ایم کیوایم ملک کے باقی حصوں میں پذیرائی حاصل کرسکتی ہے؟ عرض کیا کہ کراچی میں موجود ملک بھر سے آئے لوگوں کے ساتھ آپ کا برتائو ایک ایسا پیمانہ ہے جس پر اسے پاکستان کے دیگر حصوں میں پرکھا جاتاہے۔اگر ایم کیوایم پشتون،پنجابی، بلوچوں،کشمیریوں اور گلگت بلتستان کے کراچی میں آباد لوگوں کو تحفظ اور عزت دے گی تو وہ اس کا پیغام ملک کے کونے کونے میں عام کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ یہ بھی عرض کیا کہ ایم کیوایم کی ریاستی اداروں سے محاذآرائی کے باعث فورسز اور خود تنظیم کے ہاتھوں بہت سے لوگ مارے گئے جس کا کوئی جواز نہیں۔اس خون ناحق کی شفاف تحقیقات ایم کیوایم کا امیج بہتر بناسکتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں دہشت گردی یا سیاست میں طاقت کے استعمال کے خلا ف نہ صرف ملکی سطح پر فضا بنی ہے بلکہ عالمی برادری دنیا بھی ایسی تنظیموں اور شخصیات کے خلاف سخت پابندیاں عائد کرتی ہے جو سیاست میں تشدد کے حربے استعمال کرتے ہیں۔حزب اللہ اور حماس پر لگنے والی حالیہ پابندیاں بھی اسی عالمی رجحان کی عکاسی کرتی ہیں۔ اقوام متحدہ میں باقاعدہ قانون سازی کی گئی۔ اس پس منظر میں ایم کیوایم کو ایسے عناصر سے جان چھڑانی چاہیے تھی جنہیں 1990ء کی دہائی میں پرتشدد کارروائیوں کے ذریعے سیاست میں غلبہ حاصل کرنے کی عادت پڑی ۔ قدیم محاورہ ہے کہ ہاتھوں سے لگائی گرہیں بعض اوقات دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں۔کون جانتاہے کہ ایم کیوایم کی قیادت کی تقدیر میں کیا لکھا ہے؛ تاہم وہ مقامی سطح پر اپنا امیج بدلنے کی ٹھوس کوشش کرسکتی ہے۔تبدیلی کو دل سے قبول کرے اور پرانے طوراطوار بدل دے۔ تنظیم کے اندر ایسے افراد کی حوصلہ افزائی کرے جو سیاسی مکالمے پر یقین رکھتے ہوں اور مخالفین کے تند وتیز حملوں کا جواب تحمل سے دینے کی اہلیت بھی۔ایم کیوایم کوکراچی اور حیدرآباد میں قائم دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ تعلقات کار کو بہتر بنا نا ہوگا تاکہ وہ سیاسی تنہائی سے نکل سکے۔ اس وقت کراچی میں کوئی ایک بھی سیاسی قوت ایسی نہیں جو ایم کیوایم کے تئیں کلمہ خیر کہتی ہو۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں