وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان دہشت گردی کے حوالے سے بالعموم اور اسلام آباد میں پانچ گھنٹوں تک تماشا کرنے والے ملزم سکندر کی لائیو کوریج پر میڈیا سے شاکی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ میڈیا کی حدود کیسے طے کی جائیں؟میڈیا ایک مقدس گائے بن چکا ہے جسے چھونے کی کوئی جسارت نہیں کرتا۔ مشکل کے وقت حکومت مخالف اپوزیشن ہی نہیں عالمی ادارے بھی اس کی پشت پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ سب مل کر حکومت کو پسپا کردیتے ہیں۔ نوازشریف حکومت کی دقت یہ ہے کہ بعض مبصرین پہلے ہی خدشہ ظاہر کرتے آئے ہیں کہ ایک دن وہ میڈیا پر شب خون مارے گی کیونکہ اس میں تحمل اور نکتہ چینی برداشت کرنے کی صلاحیت نسبتاً کم ہے۔ نائن الیون کے حملوں کے بعد افغانستان میں جاری جنگ یا بعدازاں پاکستان میں ہونے والے حملوں کی براہ راست فوٹیج دکھائی جاتی تھی۔ جلتے ہوئے مکانات کے مناظر‘ تڑپتے لاشے اور لہو رنگ سین ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہوتے تو کلیجہ منہ کوآتا۔ اس طرح کی کوریج کے نفسیاتی اثرات اس قدر تباہ کن تھے کہ لوگوں نے مارے خو ف کے گھروں سے نکلنا بند کر دیا۔ بچوں کے پارک اور سیر وتفریح کے مقامات بیاباں ہوگئے۔ میڈیا کے اندر اس موضوع پر بہت بحث ومباحثہ ہواحتیٰ کہ یہ سلسلہ بند کرنے کا فیصلہ ہوگیا۔ یہ بحث ہونی چاہیے کہ میڈیا کو صحت مندمعاشرہ تشکیل دینے کے لیے اپنے اوپر رضا کارانہ طور پر کیا پابندیاں عائد کرنی چاہئیں۔ خا ص طور پر ایسے واقعات کی کوریج میں کیا احتیاطی تدابیر ملحوظ خاطر رکھی جائیںجو پاکستان کا امیج مجروح کرنے کا باعث بن سکتے ہوں۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کا راستہ روکتے ہوں۔ دہشت گرد گروہوں کی حوصلہ افزائی اور ملک کے اندر عدم استحکام پیدا کرتے ہوں۔ یہ وہ امور ہیں جن پر حکومت کو میڈیا کے ایڈیٹروں اور مالکان کے علاوہ کارکن صحافیوں کے ساتھ بھی کھل کر تبادلہ خیال کرنا چاہیے۔ دنیا بھر میںحکومتیں اور سینئر حکام میڈیا کے ساتھ مسلسل تبادلہ خیال کرتے ہیں‘ بالخصوص بحران کے دنوں میں اس طرح کی مشاورت کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں ریاستی اداروں کی عمل داری بری طرح کمزور ہوئی۔ دہشت گرد طاقتور ہوئے۔ جرائم پیشہ عناصر پر سے پولیس اور خفیہ اداروں کی دھاک اٹھ گئی۔ نصیر اللہ بابر کے بعد چودھری نثار پہلے وزیرداخلہ ہیں جو اپنی وزارت میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔ وہ پورے ادارے کو جدید خطوط پر استوار کرنا چاہتے ہیں۔ وہ دہشت گردی کے جاری جنگ کو بھی سیاسی اونرشپ فراہم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔اس کام میں میڈیا کو چودھری نثار کی مدد کرنی چاہیے نہ کہ انہیں کمزور کیا جائے۔ چودھری نثار وزیراعظم کے بااعتماد ساتھی ہیں۔ فوج کے ساتھ ان کا خاندانی تعلق ہے جو موجودہ حالات کا مقابلہ کرنے میں مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کی سب سے بڑی کمزوری یہ رہی کہ اس کی سیاسی اونر شپ نہیں تھی۔ سابق وزیرداخلہ رحمان ملک کی تمام تر پھرتیوں کے باوجود عوام انہیں سنجیدگی سے نہیں لیتے تھے۔ صدرآصف علی زرداری دوٹوک الفاظ میں دہشت گردی کی مذمت کرتے لیکن انہوں نے اس عفریت کا مقابلہ کرنے کی ساری ذمہ داری فوج پرڈال رکھی تھی۔ ایبٹ آباد کمشن رپورٹ میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ شجاع پاشا نے بھی گلہ کیا کہ سیاستدان سکیورٹی امور میں دلچسپی نہیں لیتے۔انہوں نے یہ حیران کن انکشاف بھی کیا کہ یوسف رضاگیلانی نے اپنے دور میں محض ایک مرتبہ آئی ایس آئی سے سکیورٹی امور پر بریفنگ مانگی۔ چند دن قبل چودھری نثار نے پاکستانی صحافیوں کو مشورہ دیا کہ وہ بھارتی میڈیا سے حب الوطنی کا سبق سیکھیں۔ وہ اہم قومی ایشوز بالخصوص قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے امور پر حکومت کا ساتھ دیتے ہیں۔ قومی نقطہ نظر کو کمزور کرتے ہیں اور نہ ہی رائے عامہ کو کنفیوژ۔ طویل عرصے سے بھارتی میڈیا کا مطالعہ اور مشاہدہ کرنے کے بعد راقم الحروف کی رائے ہے کہ پاکستانی میڈیا کو بھارتی میڈیاکی نقالی کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ پاکستانی صحافی زیادہ میچور ہیں۔ انہوں نے مشکل کی ہر گھڑی میں توازن برقراررکھا۔ جنگی جنون پیدا کرنے سے گریز کیا۔کنٹرول لائن پر جاری جھڑپوں کے باوجود تحمل کا مظاہرہ کیا ۔اس طرزعمل پر ان کی تحسین کی جانی چاہیے نہ کہ انہیں معطون کیا جائے۔ اس کے برعکس بھارتی میڈیا کے ایک حصے کا طرزعمل ناقابل برداشت ہے۔وہ جنگی جنون کو ہوا دیتا ہے۔ فوج کو پاکستان پر حملوں کے لیے اکساتا ہے۔ پاکستان کے اندر جا کر دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کی وکالت کرتا ہے۔ ٹائم نو نامی ایک ٹی وی اسٹیشن تو چلتا ہی پاکستان دشمنی پر ہے۔ حالات حاضرہ پر اس کے پروگرام دیکھ کر حیرت ہوتی ہے ۔بسااوقات ایسا گمان گزرتا ہے کہ کوئی ’پنڈت‘ محاذ پر کھڑااپنی سپاہ کو جنگ کے لیے ابھار رہا ہے۔ بھارت میں اس طرزصحافت کی حوصلہ شکنی نہیں کی گئی جس کے نتیجے میں اب خارجہ پالیسی کے خطوط کا تعین بھی عقاب صفت صحافی کر تے ہیں۔ میڈیا، فوج اور بھارتیہ جنتا پارٹی مشترکہ طور پر قومی ایجنڈا طے کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ اس گٹھ جوڑ نے انتہاپسند ہندو تنظیموں کو شہ دی۔کشتواڑ کشمیر میں فسادات کرانے میں بھی ان ہندو تنظیموں کا کردار ہے۔ خود بھارتی وزیرداخلہ سوشیل کمار شنڈے نے تسلیم کیا کہ ہندو تنظیمیں شدت پسندی کے واقعات میں ملوث ہیں۔ سمجھوتہ ایکسپریس میں درجنوں پاکستانیوں کی ہلاکت کے بھی وہ ذمہ دار ہیں۔ چند دن قبل احمد آباد میں چالیس بھارتی اور پاکستانی مصوروںکے فن پاروں کی نمائش جاری تھی کہ انتہاپسندوں نے آرٹ گیلری میں توڑ پھوڑ کردی۔ یہ اس لیے ہوا کہ بھارتی معاشرے میں میڈیا نے جنگی فوبیاپیدا کیاہے۔ راقم الحروف کو سینئر کالم نگار ہارون الرشید صاحب کے ہمراہ سوات آپریشن کے دوران فوجی افسروں اور جوانوں کے ساتھ دوبار محاذجنگ پر تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ ایک نوجوان ہواباز نے دوران سفر بتایا کہ اس کی بیوی نے اسے ایس ایم ایس کیا کہ پورا ملک طالبان کے ساتھ جنگ کے خلاف ہے۔ اس لڑائی میں مارے جانے والوں کی موت کو حرام قرار دیا جاتا ہے۔ نوجوان جو جنگی ہیلی کاپٹر اڑا رہا تھا‘ کی آنکھوں میں آنسو تھے اور کہہ رہا تھا کہ ان حالات میں ہم سے جنگ جیتنے کی توقع کیوں کی جاتی ہے؟ ٹھیک ایک برس بعد دوبارہ سوات جانے کا موقع ملا تو فوجی کمانڈر مطمئن تھے کہ میڈیا کے تعاون کی وجہ سے فوجی جوان دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں یکسو ہیں۔ ان کے ذہنوں میں پایا جانے والا ابہام ختم ہوچکا تھا اور وہ بہادری سے دشمن کا مقابلہ کر رہے تھے۔ میڈیا پاکستان کی بہت بڑی طاقت ہے ۔اس میں پائی جانے والی کمزوریاں وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوجائیں گی۔ لیکن اسے فاکس نیوز یا ٹائم نو کی طرز پر استوار کی ضرورت نہیں۔ وہ جمہوری ریاست اور اعتدال پسند معاشرہ تشکیل دینے میںمثبت کردار ادا کر رہا ہے۔ جو چینلز حدود کی پروا نہیں کرتے وہ خود بخود اپنی افادیت کھو دیں گے کیونکہ ناظرین بہترین جج ہیں۔