"IMC" (space) message & send to 7575

فیصلہ کن جدوجہد

وزیراعظم نوازشریف کے دورہ کراچی میں لرزہ خیز انکشافات سامنے آئے ۔سیاسی ،سماجی اور کاروباری شخصیات نے دل کھول کر روداد غم سنائی۔وزیراعظم نے کھلے دل سے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ کراچی میں ریاست کی عمل داری مفقود ہوچکی ہے۔ریاستی ڈھانچہ بکھر چکا ہے۔ پولیس ناکارہ اور جانب دار ہے۔ بھتہ خوروں اور دہشت گردوں کے مقابلے میں قوانین ناکافی ہیں۔موجودہ عدالتی نظام سماج دشمن عناصر کے گلے میں قانون کا پٹہ کسنے میں ناکام رہا۔اب اصلاح احوال کی ذمہ داری رینجر ز کے سپرد کی گئی ہے‘ جو ایک نیم فوجی ادارہ ہے ۔موجودہ ابتر حالات میں یہ ایک بہترین فیصلہ نظرآتا ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ اس فیصلے میں برکت عطا فرمائیں۔ دورہ کراچی میںوزیراعظم نواز شریف کی بدن بولی، رویہ اور طرزعمل نہایت معقول رہا۔وہ کراچی کے حالات کو تمام اسٹیک ہولڈرز کے اشتراک سے ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔پیپلزپارٹی کے مینڈیٹ کو تسلیم کرتے ہیں۔ ہر معاملے میں وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کو ساتھ ساتھ رکھتے رہے۔نوازشریف جانتے ہیں کہ وزیراعلیٰ قائم علی شاہ چھ برس تک عضو معطل بنے رہے۔کراچی تباہ ہوتا رہا اور وہ تماشا دیکھتے رہے۔اس کے باوجود یہ وزیراعظم نواز شریف کا دل گردہ ہے کہ انہیں ایک بار پھر کراچی میں جاری آپریشن کا کپتان مقررکردیا ۔ صدرآصف علی زرداری کا کراچی کے حوالے سے رویہ بھی حیرت انگیز حد تک مثبت ہے۔وہ موجودہ حکومت کو گرانے کے بجائے مضبو ط کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہیں۔تعاون کی ایک فضا پید اہوئی ہے جو پاکستانی سیاست میں آنے والی بلوغت کی نشان دہی کرتی ہے۔نواز شریف بھی توقعات کے برعکس ماضی کی بے رحمیوں کو دہرانے میں دلچسپی کا اظہار نہیں کرتے۔ پرویز مشرف کے خلاف عدالتوں میں مقدمات چل رہے ہیں لیکن وہ براہ راست مداخلت نہیں کررہے۔ سب سے مثبت پیش رفت یہ ہے کہ وزیراعظم عسکری قیادت کو تمام معاملات میں ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔مبصرین کی اکثریت کی رائے تھی وہ برسراقتدار آتے ہی ٹکرائو کی ایک فضا پید اکردیں گے اور اسی کشمکش میں ان کی حکومت تما م ہوجائے گی۔ اس کے برعکس انہوں نے افغانستان،بھارت اور اب کراچی کے مسائل پر عسکری نقطہ نظر اور خفیہ اداروں کی رائے کونہ صرف وزن دیا بلکہ ہر اہم اجلاس میں انہیں شامل رکھا۔ فوجی اور سویلین اداروں کے مابین اشتراک عمل شروع کرایا۔ عشروں سے ادار وں میں باہمی رقابت چلی آرہی ہے۔ دشمن کا تعاقب کرنے کے بجائے وہ ایک دوسرے کے اچھے کاموں کو بگاڑ دیتے رہے؛ چنانچہ پاکستان کا حال یہ ہوگیا کہ آج پورا ملک لہورنگ ہے۔اس کا انگ انگ چکنا چور ہو چکا ہے۔ کراچی کے معاملے میں یہ بھی پیش نظر رہے کہ یہاں محض مافیا ہی سرگرم نہیں بلکہ بیرونی ممالک کی مداخلت بھی عدم استحکام کا ایک اہم عنصر ہے۔کئی ہمسایہ ممالک پاکستان کی اقتصادی شہ رگ کو عدم استحکام کا شکار رکھنا چاہتاہیں تاکہ پورے ملک کی کفالت کرنے کی استعداد رکھنے والے اس شہر کو فرقوں،نسلوں اور گروہوں میں تقسیم کرکے ملک کی اقتصادیات کو مفلوج بنادیا جائے۔ کراچی کے شہری خدا داد صلاحیتوں سے مالامال ہیں۔دوران تعلیم کراچی میں قیا م کے زمانے میں ہر مرحلے پر میں نے کراچی کے لوگوں کو ہمدرد اور مخلص پایا۔کام سے کام رکھنے والے یہ لوگ پورے ملک میں سب سے زیادہ خیرات کرتے ہیں۔یہاںمتعدد خیراتی ادارے قائم ہیں۔ایسے تعلیمی ادارے بھی ہیںجہاں طلبہ کو مفت تعلیم ملتی ہے۔شہرمیں ایسے درجنوں مقامات مل جاتے ہیں جہاں ضرورت مندوں اور محتاجوں کو دووقت کا کھانا کھلایا جاتاہے۔ 1985ء کے آخر میں کراچی منتقل ہو اجہاں پانچ برس تک قیام رہا ۔اس زمانے میں پورے ملک سے متوسط طبقے کے ہزاروں طلبہ کراچی کا رخ کرتے تھے۔ایل ایل بی کے امتحان کا وقت آتا تو پشاور تا کراچی چلنے والی خیبر میل طلبہ سے بھر جاتی۔شہرمیںسندھی اورمہاجر کی کشمکش پائی جاتی تھی۔ اس کے باوجود پورے ملک کے لوگ اس شہر میںر وزگار اور علم کی تلاش میں آتے۔ ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق علم اور ہنر سیکھتا۔ اس دہائی میںیہ عجب شہر تھا۔ہر دم کوئی نہ کوئی علمی مجلس برپا رہتی۔اسلام اور ترقی پسندوں کے مابین مکالمہ جاری رہتا۔ مشاعرے ہوتے۔ اسٹڈی سرکل ہوتے۔ لائبریریاں آباد تھیں اور تھیٹر وں میں بھیڑ رہتی۔ کراچی میں لیاقت میموریل لائبریری میںحکیم محمد سعید کو دیکھا ۔عرض کیا کہ کچھ وقت بات چیت کے لیے مل سکتاہے ۔انہوں نے دیرتک تحمل سے بات سنی۔ڈاکٹر اسرار احمد ہر ماہ کراچی آتے ‘تاج ہوٹل میں سینکڑوں افراد رات گئے تک ان کا درس قرآن سنتے۔ کراچی یونیورسٹی میں ہونے والے مذاکروں میں شہرت یافتہ شخصیات کو بلایاجاتا۔پہلی بار آغا شاہی کو شعبہ بین الاقوامی تعلقات میں تقریر کرتے ہوئے دیکھا۔این ڈی خان ،معراج محمد خان، پروفیسر غفور احمد، شیر باز مزاری کو بھی یونیورسٹی میں سُننے کا موقع ملا۔ بڑے جاندار مباحثے ہوتے۔ میری طرح کے گائوں سے آنے والے نوجوان کراچی کے اہل زبان نوجوان مقررین کی تقریریں سن کر مہبوت رہ جاتے۔ گھر جاتے ‘بھٹک جاتے تو لوگ نہ صرف رہنمائی کرتے بلکہ بسااوقات دور تک چھوڑ آتے۔ گزشتہ برس ایک ہفتے کے لیے کراچی جانا ہواتو لوگوں نے بڑی دردناک کہانیاں سنائیں۔بتایاگیا کہ کوئٹہ ہوٹل والے جو پورے شہرکو چائے پلاتے تھے مہاجر بستیوں سے ترک سکونت کرچکے ہیں۔ پشتونوں کو مہاجر علاقوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔لیاری گیا۔جہاں ایک برس تک اپنے ماموں زاد جاوید خلیل کے ساتھ رہا تھا۔دوستوں نے کہا کہ تمہارا دماغ خراب ہے جو ان علاقوں میں گھومتے ہو۔مارے جائوگئے۔عام بلوچوں سے ملا۔وہ کہنے لگے کہ ہم پشتون یا مہاجر علاقوں میں جانے سے اجتناب برتتے ہیں۔ مہاجربزرگوں اور نوجوانوں کو دل گرفتہ پایا۔کہتے ہیں کہ ہم شہر میں نفرت کا کاروبار نہیں کرتے۔معلوم نہیں کون ہمارے نام پر یہ ــکھیل کھیل رہاہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر شاہی سیّدکے ڈی ایچ اے کے محل نما گھر میں جانا ہوا۔انہیںایم کیوایم سے شاکی اور حکومت سے ناراض پایا ۔وہ کراچی میں پشتونوں کی سیاست کرتے ہیں۔ا ن کے پاس موجودہ بحران سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں تھی۔سول سوسائٹی کے سرگرم رہنمائوں نے بتایا کہ شہر مختلف قومیتوں میں بٹ چکا ہے۔ایک دوسرے کے ساتھ مکالمے کا سلسلہ بند ہوچکا ہے۔ شادی بیاہ باتیں اب عہد رفتہ کی کہانیاں ہیں۔سب اپنے اپنے حصار میں قید ہیں۔ ہر ایک اپنے دکھوں اور مسائل کا رونا روتا ہے۔ زور آوروں کے سامنے سول سوسائٹی کے لوگ بے بس نظر آئے۔ وہ اپنا کردار ادا نہیں کرپاتے۔ نکتہ چینی کرنے والوں کا جینا دوبھر کردیا جاتاہے۔اسی کی دہائی والا کراچی اب صرف کتابوں اور قصے کہانیوں میں باقی رہ گیا ہے۔ وزیراعظم نے اچھا کیا جو کراچی کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی ہے۔ انہیں ملک کی خاطر اس شہر پر مسلسل توجہ مرکوز رکھنا ہوگی۔ خود ٹیم کے کپتان کا کردار ادا کرنا ہوگا۔یہ کام قائم علی شاہ کے بس کا نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں