"IMC" (space) message & send to 7575

سرتاج عزیز کی کشمیری رہنمائوں سے ملاقات

وزیراعظم کے مشیر قومی سلامتی و خارجہ امور سرتاج عزیز اگرچہ نئی دہلی میں یورپی اور ایشیائی ممالک کے وزرائے خارجہ کی ایک کانفرنس میں شرکت کی غرض سے بھارت گئے لیکن انہوں نے بھارتی حکومت کی مرضی کے علی الرغم کشمیری رہنمائوں کے ساتھ تبادلہ خیال کی محفل بھی برپا کردی۔ میرواعظ عمر فاروق ‘سیّدعلی گیلانی کے علاوہ لبریشن فرنٹ کے چیئرمین یاسین ملک سے بھی ملے۔ان لیڈروں کو مستقل شکوہ رہتاہے کہ انہیں پاک بھارت تعلقات میں ہونے والی پیش رفت سے آگاہ نہیں کیا جاتا۔ سرتاج عزیز نے انہیں حکومت کی علاقائی حکمت عملی اوروزیراعظم نوازشریف کی سیاسی فکر سے آگاہ کرکے اچھا قدم اٹھایا۔ دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کی پرشکوہ عمارت میں سرتاج عزیز کا زیادہ وقت اتحاد کی اہمیت اجاگرکرنے میں گزرا ۔انہوں نے بلاتکلف کہا:یہ جو ہر ایک لیڈر نے ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی اپنی اپنی مسجد بنارکھی ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں‘یہ طرزعمل کنفیوژن میں اضافہ کا سبب ہے۔حریت کانفرنس کو فعال کریں ‘ متحدہوں اورسیاسی سرگرمیاں منظم کریں ۔یاسین ملک نے کہا کہ اگر پاکستان اتحاد چاہتا تو تمام دھڑوں کو مشترکہ ملاقات کی دعوت دیتا۔میر واعظ عمر فاروق اور پروفیسر عبدالغنی بٹ نے سرتاج عزیز سے کہا کہ ہمیں بھارت کے ساتھ بات چیت کا عمل شروع کر نے دیا جائے ۔ ہماری صلاحیتوں اور خلوص پر اعتماد کیا جائے ۔ سرتاج عزیز سے ملاقات کے بعد میر واعظ عمر فاروق نے بھارت کی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ اے ایس دلت سے ملاقات میں درخواست کی کہ وہ حریت کانفرنس اور بھارتی حکومت کے مابین رابطے شروع کرائیں۔ یہ توقع کرنا عبث ہے کہ دہلی سرکار اگلے سال مئی میں عام انتخابات کے ہنگام کشمیر پر توجہ دے پائے گی۔ دوسری جانب بھارت میں ریاستی (صوبائی) انتخابات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔اس ماہ پانچ ریاستوں دہلی ‘میزورام‘ سنگھ پورہ ‘مدھیہ پردیش اور راجستھان میں چنائو ہونا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کا خیال تھا کہ نون لیگ کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد بھارت لچک دار طرزعمل کا مظاہرہ کرے گا اور دونوں ہمسایوں کے تعلقات میں ڈرامائی بہتری آجائے گی۔ توقعات کے برعکس‘کنٹرول لائن پہ ہونے والی جھڑپوں او ر فوجی جوانوں کی ہلاکتوں نے کشیدگی بڑھا دی۔بھارت کی فوج‘وزارت دفاع اور میڈیا نے آسمان سرپر اٹھا لیا۔ بھارت کے وزیراعظم کشیدگی روکنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔کنٹرول لائن پر جھڑپیں کوئی نئی بات نہیں۔ 1990ء سے2003ء کے دوران ایسے ہزاروں واقعات آئے‘ لیکن اس مرتبہ اس واقعہ کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیاگیا۔دہلی نے مذاکراتی عمل کی بحالی کو کنٹرول لائن پر امن سے مشروط کردیا ۔ پاکستانی سرکار میں ایک پورا مکتب فکر ایسا ہے جو سنجیدگی سے سمجھتاہے کہ بھارت کے ساتھ نرم خوئی کا مطلب ہے کہ وہ آپ کے سر چڑھ جائیں گے۔ لہٰذا انہیں دبائو میں رکھا جانا چاہیے تاکہ وہ جارحانہ رویہ اختیار نہ کرسکیں۔آج کل پاکستان دوبارہ اسی روایتی پوزیشن کی طرف جاتانظرآتاہے۔بھارت کو تجارت کے لیے انتہائی پسندیدہ ملک کا درجہ (ایم ایف ایم) دینے کا معاملہ سیاسی تنازعات کے حل کے ساتھ مشروط کردیاگیا۔افغانستان میں دونوں ممالک کے مابین جاری محاذآرائی کا عکس بھی دوسرے مقامات پر پڑتانظرآتاہے۔کشمیر کو بین الاقوامی فورمز پر اٹھانے کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے امریکی ثالثی کی درخواست کی ہے۔امریکی بھی اگلے ایک ڈیڑھ برس تک پاکستان کو خوش رکھنا چاہتے ہیںتاکہ وہ نیٹو فورسز کے انخلاء اور افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں تعاون کرتارہے۔ چند دن قبل ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے نے امریکی حکومت کے اعلیٰ عہدے دار کے حوالے سے بتایا کہ اگر امریکہ سے درخواست کی گئی تو وہ کشمیر پر مذاکرات کا سلسلہ شروع کرانے میں مدد دے گا۔ ہفتہ رفتہ میں امریکی محکمہ خارجہ کے جنوبی ایشیائی امور سے منسلک چندسفارت کاروں سے ملاقات ہوئی ۔ گفتگو آف دی ریکارڈ تھی لہٰذا تفصیلات لکھی نہیںجاسکتیں؛ تاہم بات چیت کا عمومی تاثر یہ تھاکہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں امریکی حکام بھارت کو قائل کرلیں گے کہ وہ پاکستان کے ساتھ متنازعہ مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ پیش رفت کرے ۔ نوا زشریف کے حالیہ بیانات نے کشمیر پر سفارتی اور سیاسی سرگرمیوں کو ازسر نو زندہ کردیا ۔اس کے پہلو بہ پہلو ایسی تبدیلیاں بھی ہورہی ہیں جو ان سفارتی اور سیاسی سرگرمیوں کے اثرات کو لمحوں میں زائل کرسکتی ہیں۔ مثال کے طور پر کشمیر کے اندر عسکریت کے احیا ء کے امکانات نمایاں ہو رہے ہیں۔سیّد علی گیلانی اور یاسین ملک نے حالیہ دنوں میں اس امکان کا ذکر کیا کہ’’ بندوق برداروں‘‘کا ظہور ثانی ہوسکتاہے۔کشمیر ی نوجوانوں میں مایوسی بہت گہری اور اداس کردینے والی ہے۔یہ دکھ انہیں کھائے جاتاہے کہ ان گنت قربانیوں کے باوصف وہ کامیابی سے کوسوں دور ہیں۔عدم تشدد پر مبنی تحریک پر بھی دنیا نے توجہ نہیں دی لہٰذا ایسے عناصر کی کمی نہیں جو انہیں تشدد پر اکساتے ہیں۔ القاعدہ کے حامیوں کو بھی فائدہ اسی میں نظرآتاہے کہ پاک بھارت کشیدگی برقرار رہے تاکہ ان کے خلاف جاری آپریشن التوا کا شکار ہوتا رہے۔ وہ نئے نئے محاذ کھولنے میں مصروف ہیں۔ آزادکشمیر جو بڑا ہی پرامن علاقہ رہا ہے‘ وہا ں بھی شدت پسند منظم ہورہے ہیں۔حال ہی میں ضلع باغ کے ایک گھر سے اسلحہ اور گولہ وبارود پکڑتے ہوئے ایک سرکاری اہلکار شہید اور ایک زخمی ہوگیا۔ ایسے عناصر کو نشانہ عبرت بنانے کی ضرورت ہے جو انتہاپسندی کو فروغ دیتے ہیں یا انہیں محفوظ کمین گاہیں فراہم کرتے ہیں۔ اگلے چند ہفتوں میں پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے سربراہ کا تعین ہونے والا ہے۔یہ منصب کسی ایسی شخصیت کو سونپاجانا چاہیے جو مقدمہ کشمیر کو حقیقی معنوں میں اجاگر کرسکے ۔مولانا فضل الرحمن جہاندیدہ سیاستدان ہیں‘ چاہتے ہیں کہ ایک مرتبہ پھر وہ چیئر مین کشمیر کمیٹی بن جائیں۔ مولانا کو کشمیر سے دور رکھاجانا ہی بہتر ہے۔ محمود خان اچکزئی قابل قبول ساکھ کی حامل شخصیت ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ سے دوستی نہ سہی لیکن وہ کشمیر کمیٹی کو اسٹیبلشمنٹ کے طے شدہ سانچے سے نکال کر کارآمد ادارہ بنا سکتے ہیں۔ماروی میمن‘ اگر چہ جواں سال سیاستدان ہیںلیکن جوش وخروش سے لبریزاور کچھ کر دکھانے کا عزم رکھتی ہیں۔عورت ہونے کے ناتے کشمیر کا سافٹ امیج ابھار سکتی ہیں۔مظفرآباد کے پے درپے دورے کرتی رہی ہیں ۔علاقے اور شخصیات سے خوب آشنا ہیں۔انہیںکشمیر کمیٹی کی سربراہی مل جائے تو اپنے جوہر آزما سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں