جھنگ ‘ ہنگو‘کوئٹہ اور کراچی کے بعد اب راولپنڈی کے چمکتے دمکتے چہرے کو بھی فرقہ واریت کی آگ نے جھلسا دیا ۔لوگ گھروں میں دبکے حیران اور پریشان ہیں۔ دوسرے شہروں کے برعکس راولپنڈی کے باسیوں کو فرقہ وارانہ فسادات یا گروہی تصادموں سے شناسائی نہیں۔ راجہ بازار‘ جہاں 9 شہری نقد جاں ہار گئے،شہر کا قدیم ترین حصہ ہے۔یہاںآج بھی سرخ اینٹوں سے بنی ہوئی بوسیدہ عمارتیں عہد رفتہ کی یاد ددلاتی ہیں۔ممتازمفتی نے شہر کی سماجی اور کاروباری زندگی پر اپنے شاہکار مضمون میں راولپنڈی بالخصوص راجہ بازار کو کشمیریوں کا اڈہ قراردیا ۔جموں وکشمیر کے سینے پر کھینچی جانے والی خونی لکیر سے قبل راجہ بازار سے ایک بس چلتی جو مری کے راستے دو دن میں سری نگر پہنچتی تھی ۔مسافر رات مظفرآباد کی سرائے میں بسر کرتے اور اگلے دن علی الصبح سفر دوبارہ شروع ہوجاتا۔پہاڑوں پہ سرما کی برفباری شروع ہوتی تو خوشحال کشمیری اور بیوپاری راجہ بازار کا رخ کرتے۔قیام پاکستان تک یہاں کشمیری چائے اور کھانے عام ملتے تھے ۔آج بھی راجہ بازار کے وسط میں قائم ’دل بہار‘ ہوٹل گئے دنوں کی یاد دلاتاہے۔ ماضی کے نقش مٹ رہے ہیں۔افسوس! شہر میںتاریخی ورثے کی حفاظت کے بجائے اسے ’مسلمان‘ کرنے کا رواج بڑھ گیاہے۔ کل کی ڈلہوزی روڈ کشمیر روڈ کردی گئی‘ لارنس روڈ کو حیدر روڈ کانام دیا گیا۔ ایڈورڈ روڈ کوبنک روڈ اورنہرو روڈ کو جناح روڈکانام دے دیا گیا۔راجہ بازار کے قلب میں آج بھی پرانی طرز کی عمارتیں سکھوں اور ہندئووں کی موجودگی کی یاد دلاتی ہیں۔سبحان سنگھ کی حویلی سے بہت سی براسرار داستانیں وابستہ ہیں۔شکستہ باغ سرداراں کا گوردوارہ زندگی کی آخری ہچکیاں لے رہاہے۔ ’فرزندراولپنڈی‘ شیخ رشید احمد کو ٹیلی وژن کے ٹاک شوز سے ہی فرصت نہیں کہ وہ شہر کے تاریخی ورثے کی حفاظت کا سوچیں۔ آج کل شہر کی آبادی تین ملین کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ 1960ء میں اسلام آباد کو وفاقی دارالحکومت بنانے کے فیصلے سے قبل راولپنڈی، ملتان اور حیدرآباد سے چھوٹا شہر تھا۔اب یہ پاکستان کا تیسرا بڑا شہربن چکا ہے۔اکتوبر 2005ء میں پاکستان کے شمالی علاقوں اور آزادکشمیر میں آنے والے قیامت خیز زلزلے کے متاثرین کی بہت بڑی تعداد کو راولپنڈی نے خاموشی سے اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔بہت سے لوگ بحالی کے چند ماہ بعد گھروں کو لوٹ گئے مگران گنت مستقل طور پر شہر کی رعنائیوں میں کھو گئے۔2004ء میں پہلے ڈرون حملے میں طالبان کمانڈر نیک محمد مارا گیا۔اسی دوران پاک فوج قبائلی علاقوں میں داخل ہوگئی۔فاٹا اور قبائلی علاقوں میں جنگ چھڑگئی۔ اس کے اثرات پورے خیبر پختون خوا تک پھیل گئے حتیٰ کہ پشاور کا پوش علاقہ حیات آباد بھی غیر محفوظ ہوگیا۔کراچی کے ہنگاموں نے بھی اسلام آباد کی طرح راولپنڈی کی آبادی میں نمایاں اضافہ کیا۔شہرکے چاروں اطراف میں پختونوں کی آبادیاں ہیں اور ان میں بے ہنگم اضافہ ہوتاجارہاہے۔ دوسری جانب اعلیٰ پائے کے تعمیراتی منصوبوں بالخصوص بحریہ ٹائون نے شہر کی خوبصورتی کو چارچاند لگادیے، معیاری اور محفوظ رہائشی سہولتیں فراہم ہوئیں؛چنانچہ غیر محفوظ علاقوں کے متمول خاندان تعلیم ‘روزگار اور تحفظ کے لیے یہاں منتقل ہونے لگے۔میرپور میں منگلا ڈیم بنا تو ہزاروں شہری برطانیہ سدھار گئے جن کی تعداد اب سات لاکھ سے اوپر بتائی جاتی ہے۔نائن الیون کے بعد یورپ میں مسلمانوں بالخصوص پاکستانیوں کو جان و مال کا خطرہ محسوس ہواتو تارکین وطن نے پاکستان میں سرچھپانے کے لیے گھر خریدنا شروع کردیے۔ہر میرپور ی خاندان اسلام آباد یا راولپنڈی میں اپنا ٹھکانا چاہتاہے۔ہزاروں نئے گھر خریدے اور تعمیر کیے گئے۔یوں یہ شہر پھیلتارہا۔ راولپنڈی بھی کراچی کی طرح منی پاکستان ہے۔ اس شہر میں میرے قیام کو تئیس برس ہوچکے۔تین بچے سکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔کبھی احساس تک نہ ہوا کہ یہاں کسی کمیونٹی کے ساتھ غیر مساویانہ سلوک کیاجاتایا تعصب برتاجاتاہے۔شیعہ سنی کے مابین جھگڑے کا تصور بھی محال ہے۔میرے جاننے والوں میں کئی میاں بیوی ایسے ہیں جن میں سے ایک شیعہ اوردوسرا سنی ہے۔سوال یہ ہے کہ محبت اور الفت کے اس ماحول میں کیا خرابی ہوئی جو لاوا ابل پڑا اور شہر کا ایک حصہ خاک وخون میں نہا گیا۔ یہ قیامت راتوں رات برپا نہیں ہوئی۔ریاستی انتظامیہ کی ناک تلے لاوا پکتارہا اور وہ خاموش تماشائی بنی کسی حادثے کا انتظار کرتی رہی۔جمعہ کی نماز جس بھی مسجد میں پڑھیں‘ وہاں دینی مسائل اور روزمرہ کے معاملات پر وعظ ونصیحت کے بجائے خطبے کا مرکزی نکتہ امریکی صدر بارک اوباما ‘افغانستان یا پھر پاکستان کی داخلی سیاست ہوتی ہے ۔ سرکاری تجوری سے اعزازیہ پانے والے آئمہ کرام بھی بے باکی سے حکومتی پالیسیوں کونہ صرف ہدف تنقید بناتے ہیں بلکہ خارجی پالیسی میں تبدیلی کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔کسی خوف کے بغیر حکومت اور ریاست کو دھمکا تے اور نمازیوں کو ریاست کے خلاف لڑنے مرنے پر بھڑکاتے ہیں،کوئی روکنے ٹوکنے والانہیں۔ بسااوقات گمان ہوتاہے کہ اس ملک کا کوئی والی وارث نہیں۔ وزیراطلاعات پرویز رشید نے راولپنڈی کے واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے بجا طورپرکہا کہ ماضی میں ریاستی انتظامیہ اس طرح کے واقعات میں خود ملوث رہی۔کبھی ایک گروہ کی سرپرستی کرتی تو کبھی دوسر ے کی پیٹھ ٹھونکتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کرے جو نفرت پھیلاتے ہیں۔ایسی کتابیں اور رسائل شائع کرتے ہیں جو فرقہ واریت اور شدت پسندی میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔آئمہ مساجد کو ہر جمعہ کا خطبہ پورا نہیں تو کم ازکم اس کے اہم نکات وزارت مذہبی امور کی جانب سے فراہم کیے جائیں جن کے اردگرد رہ کر خطبہ دیا جائے۔