"IMC" (space) message & send to 7575

پرویز مشر ف کا مقدمہ : دوسرا رخ

بظاہر پرویز مشرف کے گرد گھیرا تنگ ہوچکاہے۔ان کے خلاف باقاعدہ بغاوت کا مقدمہ شروع ہونے کو ہے۔ اس غیر معمولی فیصلے کے اثرات ومضمرات بھی غیر معمولی ہوں گے۔یہ ایک پنڈورا باکس ہے جس کے اندر خطرات کا ایک جہاں پنہاں ہے۔ظاہر ہے ‘ حکومت محض بہادر بننے کے شوق اور تاریخ میں نام رقم کرانے کی خاطراتنا بڑا خطرہ مول نہیںلے سکتی ۔ابھی مقدمہ شروع بھی نہیں ہوا کہ سیاسی درجہ حرارت اور سرگرمیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ پرویز مشرف محض ایک شخص کا نام نہیں بلکہ مخصوص سیاسی فکر کی علامت ہے۔ان کے ساتھ بہت طاقتور لوگ کھڑے ہیں۔وہ پاکستان کی سیاسی حرکیات کے عالم ہیں۔حکومتوں کو عدم استحکام کا شکار کرنا اور سیاسی اتھل پتھل کرانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ چودھری نثار علی خان پریس کانفرنسوں میں دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے دفاعی اداروں کے ساتھ شاندار تعلقات کار استوار ہوچکے ہیں۔جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنے قول وفعل سے ثابت کیا کہ وہ جمہوری اداروں کے ساتھ چلناچاہتے ہیں۔ پرویز مشرف کی رخصتی کے بعد دفاعی اداروں کی سوچ میں نمایاں تبدیلی آئی جس کا اظہار مختلف طریقوں سے کیا جاتارہا۔ اس سے جمہوریت کو جڑ پکڑنے میں مدد ملی۔ پرویزمشرف کے خلاف مقدمہ بازی کے بعد منتخب حکومت اور اسٹبلشمنٹ کے مابین تعلقات کار کس قدر خوشگوار رہیں گے اس سوال کا کوئی دوٹوک جواب نہیں۔
اکثر دلیل دی جاتی ہے کہ اگر پرویزمشرف کو سزا مل جائے تو مارشل لاء کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجائے گا ۔بظاہر یہ موقف خاصہ مضبوط نظرآتاہے لیکن گہرائی میں جاکر دیکھا جائے تو اس کا کھوکھلا پن عیاں ہوتاہے۔ ماضی میں لگنے والے مارشل لاء اور انہیں ملنے والی عوامی پذیرائی کے تین نمایاںا سباب تھے۔1: امن و امان کی مخدوش صورت حال۔ 2:سیاسی عدم استحکام‘-3 ابتر معاشی صورت حال کی وجہ سے رائے عامہ میں بے چینی کا پایاجانا۔ یہ اسباب نہ صرف آج بھی برقرارہیں بلکہ پہلے کے مقابلے زیادہ گمبھیر ہوچکے ہیں۔مخدوش امن وامان کی بدولت ملک کا بڑا حصہ پہلے ہی فوجی یا نیم فوجی اداروں کے زیرانتظام ہے۔ چند دن قبل راولپنڈی میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کو کنٹرول کرنے کے لیے بھی فوج کا سہارا لینا پڑا۔ سول انتظامہ بری طرح ناکام ہوئی۔اقتصادی بدحالی کا ذکر ہی کیا!شہریوں کے لیے ریاست اور حکومت کا وجود ہی بے معنی ہوچکاہے۔
آج کل عالمی ادارے ناکام ریاستوں کا اشاریہ مرتب کرتے ہیں۔یہ جان کر سرشرم سے جھک جاتاہے کہ اس برس ناکام ریاستوں میں پاکستان کا نام 13 ویں نمبر پر ہے۔ یعنی ہمارا شمار افغانستان،ہیٹی اور صومالیہ جیسے ممالک کی فہرست میں ہوتاہے۔جہاں ریاست کی عمل داری (رٹ) کمزور ‘معاشی اور سیاسی عدم استحکام ہے۔پاکستان نمونیا جیسی معمولی بیماری میں چوتھے نمبر پرہے۔پولیو برآمد کرنے والے ممالک میں پاکستان کا نام شامل ہو چکاہے ۔دہشت گردی کے تمام بڑے واقعات میں ملوث افراد کے ڈانڈے پاکستان سے ملتے ہیں۔ ناکامیوں اور محرومیوں کی داستان اس قدر طویل اور ہوش ربا ہے کہ کئی روز تک یہ گریہ وزاری جاری رہ سکتی ہے۔
نون لیگ بکھرتے اور منتشر پاکستان کو سدھارنے کا عزم لے کر میدان میں اتری ۔عوام نے اسے ملک کی زمام کار تھمادی۔ وہ چاہتے ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف اور ان کی ٹیم امن ومان کی بحالی‘توانائی کی بلاتعطل فراہمی‘روزگار کے مواقع میں وسعت پیدا کرنے ‘ ملک میں سیاسی استحکام اور پڑوسی ممالک کے ساتھ معمول کے تعلقات استوار کرنے پر توجہ مرکوز کریں۔ماضی کی غلطیاں نہ دہرائے۔غیر ضروری بحثوں اور عدالتوں کے چکر میں وقت ضائع کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے تمام وقت اور توانائی شہریوں کی فلاح وبہبود پر صرف کرے۔
اس کے برعکس نون لیگ کے سیاسی مخالفین بالخصوص پیپلزپارٹی اورتحریک انصاف شاداں وفرحاں ہیں کہ اگر حکومت مشرف کو سزا دینے میں کامیاب ہوگئی تو کیا کہنے ۔ناکامی کی صورت میں سیاست کے نئے درکھلیں گے۔سیاست کے بے رحم کھیل میں ایک گروہ کی موت دوسرے کے لیے زندگی کا پیام ہے۔سیاسی جماعتیں خوش ہیں کہ پرویز مشرف کے کیس میں الجھ کر حکومت بہبود عامہ کے کاموں سے غافل ہوجائے گی ۔ عام شہریوں کو روزمرہ کی زندگی میں راحت چاہیے۔عدالتی جنگوں سے ان کے پیٹ کی آگ نہیں بجھ سکتی ۔ دوسری جانب یہ تلخ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کی کامیابی کا سہرا نون لیگ کی سیاسی ناکامی کے کتبے پہ لکھاجاناہے۔پنجاب میں نون لیگ کے مدمقابل تحریک انصاف کے سوا کوئی جماعت کھڑا ہونے کاتصور بھی نہیں کر پارہی ۔ قاف لیگ کے چودھری برادران سرگرم ہیں کہ ان کا تحریک انصاف کے ساتھ سیاسی اتحاد ہوجائے تو وہ بلدیاتی الیکشن میں نون لیگ کے خلاف جارحانہ کھیل کھیل سکتے ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ ان دنوں داخلی تبدیلی (ٹرانزیشن) کے عمل سے گزررہی ہے۔برطانوی پولیس نے جس بے رحمی سے ایم کیوایم کی قیادت پر ہاتھ ڈالا اس نے ایم کیوایم کی تیزی وطراری میں معتدبہ کمی کردی ۔اب وہ معمول کی سیاسی جماعت بننے کی راہ پہ گامزن ہے۔چند ہفتے قبل نائن زیرو پر حیدرعباس رضوی سے ملاقات ہوئی۔دبے لفظوں میں انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ایم کیوایم اور تحریک انصاف میں اتحادہو جائے تو دونوں جماعتیں مل کر موجودہ فرسودہ نظام کو جڑ سے اُکھاڑ سکتی ہیں۔ ایم کیوایم کے اندر ایک لابی تحریک انصاف کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی متمنی ہے تاکہ وہ قومی سیاسی منظر نامہ پر قابض روایتی سیاسی جماعتوں اورجغادریوں کو پس منظر میں دھکیل سکیں۔
بعض حلقوں میںیہ تجویز بھی زیر غور ہے کہ عمران خان کو قائد حزب اختلاف بنایاجائے تاکہ وہ وفاقی حکومت سے معرکہ آرائی کرسکیں۔ عمران خان اور تحریک انصاف کراچی کے راہنما تذبذب کا شکار ہیں۔ان کا خیال ہے کہ وہ اگلے چنائو میں کراچی اور حیدر آباد میں متبادل قیادت کے طور پر ابھرسکتے ہیں اس لیے جلد بازی نہیں کرنی چاہیے۔ مشترکہ دوستوں نے تجویز پیش کی ہے کہ تحریک انصاف اور ایم کیوایم مشترکہ طور پر راولپنڈی سے قربت کے دعویٰ دار شیخ رشید احمد کو قائد حزب اختلاف بنادیں ۔ اس طرح بتدریج تحریک انصاف اور ایم کیوایم کے مابین پائی جانے والی تلخی بھی دب جائے گی اور وہ ایک دوسرے کے قریب ہوجائیں گی۔پیپلزپارٹی کے خورشید شاہ بنیادی طور پر ایک صلح جو شخصیت ہیں۔وہ ایک غیر فطری اپوزیشن لیڈر ہیں۔اعتراز احسن جیسا دبنگ اور شعلہ بیان شخص قائد حزب اختلاف ہوتا تو اسمبلی کا رنگ دوبالا کردیتا۔ 
نیلسن منڈیلا کو عہد حاضر کے سیاسی پیغمبر کا درجہ حاصل ہے۔ان کی سیاسی جدوجہد کا ماحاصل یہ ہے کہ سیاسی مخالفین سے انتقام نہیں بلکہ ان کے ساتھ اشتراک عمل کی راہیں تلاش کی جاتی ہیں تاکہ وہ تعمیر وطن ‘ ترقی اور خوشحالی کے سفر میں آپ کے ہم رکاب ہوسکیں۔پرویز مشرف کی طاقت‘انہیں حاصل پشت پناہی کا غلط ادراک نہیں کیا جانا چاہیے۔وہی امریکہ اور عرب ممالک جنہوں نے نواز شریف کو بچایا تھاوہ مشرف کو بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔نون لیگ کی حکومت میں امریکہ اور عرب دوستوں کو ناراض کرنے کی ہمت دکھائی نہیں دیتی۔قومی سلامتی سے متعلقہ اداروں میں بھی فطری طور پر پرویز مشر ف کی تذلیل سے بے چینی پیدا ہوسکتی ہے ۔بظاہر عوام میںمشرف کی حمایت نظر نہیں آتی لیکن میڈیا انہیں جلد ہی مظلوم بنا کر پیش کرنا شروع ہوجائے گا۔ ان کے خلاف چلنے والے مقدمے کو سیاسی اور ذاتی انتقام کی شکل دے دی جائے گی حتیٰ کہ و ہ سیاسی شہید بن جائیں گے اور لوگ نون لیگ کی حکومت کو لعن طعن کرنا شروع ہوجائیںگے۔
پرویز مشرف حکومت کے لیے کوئی چیلنج نہیں ۔وہ پہلے ہی سیاسی موت مرچکے ہیں لہٰذا بہتر ہے کہ تاریخ سے بے مقصد جنگ کرنے سے اجتناب کیا جائے۔ ملک جس قسم کے مسائل کا شکار ہے اس کا تقاضا ہے کہ منتخب حکومت ‘سیاسی جماعتیں اور دفاعی ادارے ملک وقوم کو منجھدار سے نکالنے کے لیے ایک صفحے پر ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں