پاکستان پیپلزپارٹی کی طرح بھارت میں بھی حکمران جماعت کانگریس حالیہ ریاستی الیکشن میںبری طرح شکست کھا گئی۔ صدیوں سے بھارت کی راجدھانی اور نہرو خاندان کا مسکن دہلی میں کانگریسی وزیراعلیٰ شیلاڈکشت کو محض ایک برس قبل قائم ہونے والی عام آدمی پارٹی نامی جماعت کے راہنما اروندکیجری وال نے بائیس ہزارو وٹوں سے شکست دے کر ملکی سیاست میں بھونچال مچادیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ریاستی انتخابات میں کامیابی سے ظاہر ہوتاہے کہ اگلے سال کے اوائل میں متوقع الیکشن میں کانگریس کی کامیابی کے امکانات دھندلا چکے ہیں۔
عام آدمی پارٹی دہلی میں دوسری بڑی جماعت کے طورپر اُبھری ۔کیجری وال نے کہا:میرا مقابلہ کانگریس یا بی جے پی سے نہیں بلکہ کرپشن سے ہے۔یہ پارٹی زیادہ پرانی نہیں۔ نہ ہی اس کے سربراہ تعلق کسی'' رئیس خانوادے‘‘ ہے۔کیجری وال ایک سابق سرکاری ملازم ہیں‘جو اناہزارے کی کرپشن کے خلاف بپا ہونے والی تحریک کا سرگرم حصہ رہے۔گزشتہ سال انہوں نے سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کیا اور عام آدمی پارٹی کی بنیاد رکھی۔اناہزارے براہ راست سیاست میں حصہ لینے کے بجائے سماجی سطح پر بدعنوانی کے خلاف جدوجہد جاری رکھنے کے خواہاں تھے جب کہ کیجری وال کا نقطہ نظر تھا کہ تبدیلی کی کونپل الیکشن کی کوکھ سے ہی پھوٹتی ہے۔اناہزارے لامحدود اختیارات کاحامل محتسب مقرر کرانے میں کامیاب نہ ہوسکا لیکن بھارت کی نوجوان نسل پر سے اسٹیٹس کو کی محافظ اسٹیبلشمنٹ کا سحر توڑگیا۔
عمران خان کی تحریک انصاف کی طرح عام آدمی پارٹی نے نوجوانوں عورتوں اور مردوں کو سیاست میں متحرک کیا۔پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والے نوجوانوں کوہی نہیں بلکہ عام لوگوں کو بھی پارٹی عہدے اور انتخابات میں ٹکٹ دیئے گئے۔مٹھائی والا،سائیکل والا‘ڈاکٹر اور تعمیرات کے ماہرین نے الیکشن میں حصہ لیا اور کامیابی حاصل کی ۔روایتی سیاسی حربے اختیار کرنے کے بجائے متوسط طبقہ کی امنگوں کے مطابق الیکشن لڑانے کے لیے ایسے افراد تلاش کیے گئے جن کا دامن صاف اور ماضی بے داغ تھا۔پارٹی کے ہر امیدوارنے وعدہ کیا کہ وہ نجی اور اجتماعی زندگی میں اچھے کردار کا مظاہرہ کرے گا۔ الیکشن میں کامیابی کی صورت میں سرخ بتی والی گاڑی استعمال نہیں کرے گا۔ بلا ضرورت سکیورٹی اسٹاف نہیں رکھے گا۔ رہنے کے لیے بڑا بنگلہ نہیں بنائے گااوراختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے لیے انتخابی اصلاحات کی حمایت کرے گا ۔
کیجری وال نے الیکشن مہم بڑے سادہ طریقے سے چلائی۔ بڑے جلسے نہیں کیے ۔دن میں کئی باردہلی کے ریڈیو اسٹیشن سے ان کا مختصر سا پیغام نشر ہوتا:میں اروندکیجری وال ہوںاور یاد سے جھاڑو کوووٹ دیں۔وہ لوگوں سے کہتے کہ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور کانگریس کے جلسوں میں ضرور جائیںلیکن ووٹ عام آدمی پارٹی کودیں۔بھارت کی اشرافیہ کچری وال کا ٹھڈا اڑاتی اور انہیں جوکر قراردیتی۔کچھ لوگ انہیں جادو گر بھی کہتے۔کانگریس یا بی جے پی کے الیکشن میں حصہ لینے والے اکثر امیدواروں کا تعلق سیاسی گھرانوں سے تھا جو ٹیکس دیتے ہیں اور نہ حکومت ان کے کالے دھن پر اعتراض کرتی ہے۔
اس کے برعکس عام آدمی پارٹی کی الیکشن مہم چلانے والے نوجوان رضا کار تھے ۔اکثر کے کاروبار نہیں بلکہ معمولی ملازمتیں ہیں۔پارٹی رضاکاروں نے سوشل میڈیا کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور ووٹروں کو متحرک کردیا۔نت نئے طریقوں سے پارٹی پیغام کو عام کیا۔خاص طور پر پارٹی راہنمائوں کے سادہ طرززندگی کو نمایاں کیا گیا۔شہریوںکو باور کرایاگیا کہ عام آدمی پارٹی کے لیڈروں کوروپے کا لالچ نہیں بلکہ وہ حقیقی معنوں میں خدمت اور سماج کے سدھار کا جذبہ رکھتے ہیں۔
پارٹی کے منشور اور قیادت کے جذبے سے متاثر ہوکر بھارت کے دیگر حصوں بالخصوص بیرون ملک سے پارٹی کے حامیوں کی بہت بڑی تعداد چنائو میں پارٹی کی مدد کے لیے امڈ آئی۔ان کو دہلی میں ٹھہرانے کا انتظام نہ تھاکیونکہ یہ عام لوگوں کی جماعت ہے۔پارٹی کے رضاکاروں نے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیئے۔ایک ایک گھر میں کئی کئی لوگوں کوٹھہرایا گیا۔ یہ سب لوگ ایک خاندان کی طرح جماعت کی انتخابی مہم چلاتے رہے۔اسی جذبے کو دیکھتے ہوئے دہلی کے شہریوں نے جھاڑو پر ٹھپہ لگا کر بھارت کے بڑے سیاسی جغادریوں کی ضمانتیں ضبط کرادیں۔
اناہزارے کی کرپشن کے خلاف تحریک کوئی زیادہ پرانی بات نہیں۔لاکھوں شہری اس تحریک کا حصہ بنے۔میڈیا اور معروف شخصیات نے ان کا ساتھ دیا۔ہزاروں لوگ سڑکوں پرنکلے اور کرپشن کے خلاف زبردست مہم چلائی گئی۔معروف دانشور امیتابھ مٹو نے اس صورت حال پر 'دی ہندو ‘میں اپنے مضمون میں دلچسپ تبصرہ کیا: شہریوں کو دکھ اس بات کا ہے کہ ملکی تاریخ کے سب سے دیانت دار اور آکسفورڈ کے فارغ التحصیل وزیراعظم من موہن سنگھ کی حکومت میںبھارت کی تاریخ کے سب سے بدعنوان اور خائن وزراء کابینہ کا حصہ ہیں۔
پاکستان بھی ایسے ہی مسائل سے دوچار ہے۔ کرپشن ہی نہیں ، بُری حکومت کی بدترین مثالیں قائم کی جارہی ہیں۔جان ومال کا تحفظ فراہم کرنے والے بہروپیے ہیں۔تبدیلی کی آرزو ہرشہری کے دل میں موجزن ہے لیکن دن رات پسینہ بہانا اور دھول میں اٹے جوتوں میں گلی گلی لوگوں کے ساتھ سماجی تبدیلی کی جدوجہد کرنے کو کوئی تیار نہیں۔عمران خان نے تبدیلی کے عنوان سے ایک تحریک اٹھائی ۔لوگوں نے بالخصوص نوجوانوں نے ان کا ساتھ دیا۔چھ ماہ گزرنے کو ہیں وہ جم کر کام نہیں کرپائے۔مہم جوئی میں زیادہ وقت گزرگیا۔خیبر پختون خوا کے نظام میں کچھ بنیادی تبدیلیاں کی گئی ہیں جن کے اثرات سامنے آنا باقی ہیں۔
یہ سوال دعوت فکر دیتاہے کہ پاکستان کا عام آدمی پُرامن طور پر متحرک کیوں نہیں ہوتا؟وہ جمہوری طریقوں سے تبدیلی کی جدوجہد پر آمادہ کیوں نہیں؟پاکستانی سماج کی کوکھ سے اناہزارے کیوںپیدا نہیںہوتا جو کرپشن کے خلاف 'مرن بھرت‘ رکھے تو اس سے اظہار یکجہتی کے لیے لوگ ہجوم درہجوم امنڈ آئیں؟سلام آباد کے ایک سماجی کارکن جہانگیراختر کرپشن کے خلاف کئی بار بھوک ہڑتال کرچکے ہیں ۔وہ بھوک اور پیاس سے مرجاتے اگر دوستوں نے انہیں بھوک ہڑتال ختم کرنے پر آمادہ نہ کیا ہوتا۔ ان کی کوئی پزیرائی نہ ہوئی۔ نامور شخصیات کا ان کے کیمپ کا دور ہ کرنا تودرکنار ،ذرائع ابلاغ نے انہیں دوکالمی خبر کا مستحق بھی نہ سمجھا۔اس بے حسی کو اپنے اور اپنے مستقبل سے لاتعلقی کے سوا اور کیا نام دیا جاسکتاہے؟ اس دوغلے رویے کے باوجود گریہ وزاری کرتے ہیں کہ معاشرہ زوال پذیرہے اوراعلیٰ انسانی اقدار دم توڑرہی ہیں۔ اقدار اور درخشاں روایات محض زبانی کلامی ملمع کاری سے پروان نہیں چڑھتیں بلکہ وہ سماج کے اندر رچی بسی ہوتی ہیں۔ اجتماعیت کمزور ہوتی ہے تو پورا نظام دھڑام سے گر پڑتاہے۔یہی حال ہمارا ہورہاہے۔
اس صورت حال کو بدلنے کے لیے عام آدمی کو متحرک ہونا پڑے گا۔اگلے چند ماہ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات ایک ٹیسٹ کیس ہیں۔ان انتخابات میں تبدیلی کے علمبرداروں کو عام آدمی پارٹی کی طرح گرین کارڈ ہولڈروں اور سیاسی تمنداروں کو شکست دینا ہوگی ۔