جناب آصف علی زرداری کو بطور صدر عدالتی کارروائی سے جو استثنٰی حاصل تھا وہ اب ختم ہوچکاہے۔گزشتہ روزوہ اسلام آباد کی ایک احتساب عدالت میں پیش ہوئے ۔اگرچہ صحت جرم سے انکار کیا لیکن بہادری سے عدالتی کارروائی کاسامنا کیا۔آصف زرداری کے خلاف سابق حکومتوں نے چار ریفرنس اور بارہ مقدمات درج کیے تھے۔آٹھ مقدمات میں وہ بری ہوچکے ہیں ۔ وزیراعظم ہائوس میں پولوگرائونڈ کی تعمیر ،اے آروائی گولڈ سمیت چار مقدمات زیرالتوا ہیں۔زیرسماعت مقدمات پر تبصرے کا یہ محل نہیں لیکن یہ اعتراف ضرور کیاجاناچاہیے کہ زرداری نے بڑی جرأت سے جیلوں اور مقدمات کا سامنا کرکے یہ ثابت کیا کہ سیاستدانوں میں عدالتوں کاسامنا کرنے کی ہمت ہے۔بسا اوقات وہ ناکردہ گناہوں کی سزا بھی خندہ پیشانی سے بھگتے ہیں۔اس کے برعکس کمانڈو پرویز مشرف پہلی ہی پیشی پہ ڈھیر ہوگئے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیاسی جدوجہد اورفوجی آمریت سے بھرپور معرکہ آرائی کی وجہ سے ان کے لیے دل میں نرم گوشہ پایا جاتا تھا۔آصف زرداری کی جو شہرت پیپلزپارٹی کے پہلے دور حکومت میں ہوئی اس نے پی پی پی ہی نہیں محترمہ کا چہرہ بھی دھندلادیا۔پیپلزپارٹی کا دوسرادورحکومت بھی کچھ زیادہ مختلف نہ تھا۔زرداری پاکستان کی سب سے متنازع شخصیت بن کر ابھرے۔ سیاسی مخالفین ان کی جان کے دشمن تھے اور وہ اسٹیبلشمنٹ کو ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے۔خود پیپلزپارٹی کی صفوں میںان سے بیزاری انتہائوں کو چھوتی تھی۔
پاکستان کھپے وہ نعرہ تھا جوانہوں نے محترمہ کی شہادت کے موقع پر سندھ کے ریگزاروں میں بلند کیا تو ملک کے طول وعرض میں زرداری کے نقادوں پر سکتہ طاری ہوگیا۔سندھیوں کے دلوں میں طوفان مچل رہاتھا،ان کی محبوب لیڈر کو راولپنڈی میں دن دیہاڑے خون میں نہلادیا گیا۔قبل ازیں اسی راولپنڈی میں ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے بے دخل کرکے تختہ دار پر لٹکایاگیاتھا۔سندھی دکھی ہی نہیں آپے سے باہر ہورہے تھے۔ علیحدگی پسندوں کے وارے نیارے ہوگئے تھے۔شہری املاک لوٹی جارہی تھیں۔قومی پرچم لہرانے والوں کونشانہ عبرت بنایاجارہاتھا۔ عالم یہ تھا کہ اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی رات کی تاریکی میں تعزیت کے لیے نوڈیرو تشریف لے گئے۔
اس ماحول میں آصف علی زرداری نے وفاق کا پرچم تھاما۔ پیپلزپارٹی الیکشن میں اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئی اور وفاق میں حکومت قائم ہوئی۔بڑی ذہانت اور فراست کے ساتھ زرداری نے نون لیگ کی قیادت بالخصوص نواز شریف کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کیے۔بتدریج ایک ایسا ماحول پیداکیا گیا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف اقتدارسے علیحدہ ہوکر بیرون ملک چلے گئے۔میجر جنرل(ر) محمود درانی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ آصف علی زرداری کا پیغام لے کر جنرل مشرف کے پاس گئے کہ وہ صدارت کا منصب چھوڑدیں۔مشرف غصے میں آپے سے باہر ہوگئے۔پیپلزپارٹی کی قیادت کے خلاف سخت زبان استعمال کی اور صدارت چھوڑنے سے انکار کردیا۔محمود درانی کا کہنا ہے کہ انہیں سمجھایا گیا کہ پیپلزپارٹی اور نون لیگ ان کے خلاف کسی بھی حد تک جاسکتی ہیں،حتیٰ کہ وہ پارلیمنٹ میں مواخذے کی تحریک بھی پاس کراسکتی ہیں۔نہ صرف آپ کی سبکی ہوگی بلکہ مشکلات میں اضافہ بھی ہوگا۔بڑی مشکل سے مشرف صدارت چھوڑنے پر تیار ہوئے۔
میں کبھی بھی زرداری کا حامی نہیں رہابلکہ کبھی سنجیدگی سے یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ شخص قومی معاملات کو کوئی نئی جہت یا سمت دے سکتاہے۔قصر صدارت میں متمکن ہوکر ان کے سیاسی جوہر کھلنا شروع ہوئے۔انہوں نے قومی سیاسی منظر نامے میں اپنے آپ کو تنہا نہیں ہونے دیا۔سیاسی حریفوں کو حکومت کے خلاف کے خلاف ایکا نہیں کرنے دیا۔پیپلزپارٹی اور پیپلزپارٹی مخالفین کی روایتی تقسیم کو ختم کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔انہوں نے مولانا فضل الرحمن کو ساتھ رکھا ۔اس طرح ایک موثر مذہبی جماعت کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوایم) کی تمام تر قلابازیوں کے باوجوداسے حزب اختلاف کے بنچوں پر نہیں بیٹھنے دیا،ان کے ناز نخرے اٹھائے ، بسااوقات اپنی جماعت کو بھی ناراض کیا لیکن ایم کیوایم کو حکومت مخالف اتحاد میں نہ جانے دیا۔
اسٹیبشلمنٹ کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا زرداری کے لیے سب سے بہت بڑا چیلنج تھا۔پیپلزپارٹی اور دفاعی اداروں کے مابین کشیدگی اور اعتماد کا بحران کئی عشروں پہ محیط ہے۔زرداری صاحب کی پیپلزپارٹی خطے بالخصوص خارجہ پالیسی کے حوالے سے روایتی سیاسی فکر سے بہت مختلف رائے رکھتی ہے۔محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے دورحکومت میں اسٹیبلشمنٹ کی ہاں میں ہاں ملایا کرتی تھیں۔ انہوں نے افغانستان اور کشمیر پر سخت گیر پالیسی اپنائی اور اسٹیبشلمنٹ کے نقطہ نظر کو اون کیا لیکن زرداری صاحب نے اس کے برعکس علاقائی تعلقات کو تجارت اور کاروبار کے ذریعے مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ایران سے پائپ لائن کا معاہدہ ہویا ترکی اور چین کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی ، انہوں نے کوشش کی کہ پڑوسیوں کے ساتھ کشیدگی ختم ہو۔بھارت اور افغانستان کے ساتھ تنائو کم کرنے اور تعلقات کا نیا باب شروع کرنے کی کوشش کی۔بغیر ٹکرائو کے انہوں نے دفاعی اداروں کو سیاسی معاملات سے
دوررکھنے میں کچھ کامیابی حاصل کی۔جناب زرداری نے تحمل اور صبر کا حیرت انگیز مظاہرہ کیا جس کے طفیل جمہوری ادارے مضبوط ہوئے ۔سیاست میں رواداری کاکلچر متعارف ہوا ۔
افسوس!وہ پاکستان کو اقتصادی طور پر مضبوط بنانے اور روزگار کے مواقعے پیدا کرنے جیسے ضروری کاموں پر توجہ مرکوز نہیں کرسکے۔انہوں نے یوسف رضاگیلانی کو وزیراعظم بنا کر سمجھ لیا کہ وہ عوامی مسائل کا حل تلاش کرلیں گے۔ گیلانی نے زیادہ وقت اپنے ذاتی مسائل کے حل پر صرف کیا اور اہم قومی امور پر توجہ نہیں دے سکے۔اگر پیپلزپارٹی عوامی ضروریات بالخصوص روزمرہ کی سروسز کی فراہمی کو یقینی بنالیتی تو اس کی ساکھ بہتر ہوسکتی تھی۔علاوہ ازیں وہ میڈیا کی طاقت کا ادراک نہیں کرسکے۔زرداری نے میڈیا کی پروا کی نہ اس موضوع پر غوروفکرکیا۔کہتے ہیں کہ وہ کم ہی اخبارات کا مطالعہ کرتے یا ٹی وی دیکھتے تھے، حتیٰ کہ اخبارات کی سمری پر نظر ڈالنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔اس طرزتغافل نے انہیں عوامی جذبات سے غافل کیا۔
اب بھی پیپلزپارٹی کے پاس سندھ، گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کی حکومتیں ہیں۔اگر ان علاقوں میں اچھی حکومت کی فراہمی کو یقینی بنایاجائے ،شہریوں کو روزمرہ کی سہولتوں کی فراہمی میں چابکدستی دکھائی جائے تو پارٹی کا امیج بدل سکتاہے۔وہ قومی سیاسی منظر نامہ پر دوبارہ ابھر سکتی ہے۔پی پی پی کا سیاسی منظرسے غائب ہوجانا یا پس منظر میں چلاجانا پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ اس خلاء کو پورا کرنے والی کوئی دوسری طاقت نظر نہیں آتی۔