کوالالمپور کو دیکھ کر مسرت اور رنج کا ملاجلا احساس ہوتاہے۔ بلند وبالا عمارتیں، عالی شان شاہراہیں ، مکمل امن وامان ؛ مختلف رنگوں، نسلوں اور مذاہب کے پیروکار ہم آہنگی کے ساتھ بھرپور زندگی بسرکرتے نظرآتے ہیں تو دل باغ باغ ہوجاتا ہے۔ دکھ اس بات کا ہوتاہے کہ پاکستان سے کوئی دس برس بعد آزاد ہونے والا ملک اگلے چھ سال میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونے کے لیے پر تول رہا ہے جبکہ پاکستان کا شمار دنیا کے غیر محفوظ ترین ممالک کی صف میں ہوتا ہے جہاں پولیو کے قطرے پلانے والے فرشتہ صفت انسانوں تک کو دن دیہاڑے موت کے گھاٹ اتار دیاجاتا ہے۔
بازاروں میںسیر سپاٹا کرتے ہوئے ہرگز احسا س نہیں ہوتا کہ یہ ملک کسی ایک رنگ ، نسل یا مذہب کے لوگوں کا ہے۔ مَلیز ، چینی اور انڈین ہی نہیں دنیا کے کونے کونے سے آئے لوگ اس ملک کی رونق دوبالا کرتے ہیں۔ ہر برس نوے لاکھ کے قریب سیاح کوالالمپور کی سیرکے لیے آ تے ہیں۔ یہ دنیا کا چھٹا شہر ہے جہاں سب سے زیادہ سیاح آتے ہیں۔ معتدل موسم اور قدرتی نظاروں نے کوالالمپور ہی کو نہیں بلکہ پورے ملائیشیا کو دنیا کے لیے ایک پرکشش مقام بنارکھا ہے۔
ملائیشیا کے قرب وجوار میں بالخصوص تھائی لینڈ میںجاری سیاسی ہنگامہ آرائی نے کوالالمپور کو سیمیناروں اور کانفرنسوںکا شہر بنادیا ہے۔ عرب ممالک کے برعکس یہاں شہری آزادیاں زیادہ ہیں اور قانون کے دائرے میں رہ کر کی جانے والی سرگرمیوں کو روکنے ٹوکنے کا تصور نہیں ۔ شہروں میں پولیس نام کی شے ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی ۔بڑے ہوٹلوں اور پلازوں میں عمومی طور پر سکیورٹی کا قابل ذکر اہتمام نہیں کیاجاتا۔ پاکستان سے جانے والے افراد کو کئی دنوں تک یقین نہیں آتا کہ پولیس چیکنگ اور ناکوں کے بغیر بھی زندگی بسر کی جاسکتی ہے۔ایک دوست نے بتایا کہ انہوں نے کئی بار ملائیشیا کے بادشاہ کے ساتھ نماز جمعہ ادا کی اور ان کے ساتھ مصافحہ کیا۔اگرچہ یہاں جمہوری نظام حکومت قائم ہے لیکن بادشاہ کو آج بھی علامتی حیثیت حاصل ہے۔ عام شہری انہیں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
پاکستان کے برعکس ملائیشیا میں غیر مسلموں کی آبادی چالیس فیصد کے قریب ہے جن میں بدھ مت ، ہندوازم اور عیسائیت کے پیروکاروں کی ایک بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔ مَلیز تقریباً سو فیصد مسلمان اور زیادہ تر شافعی مسلک کے پیروکار ہیں۔سرکار مذہبی معاملات پر سخت کنٹرول کرتی ہے۔ مساجد کے آئمہ کو اجازت نہیں کہ وہ اپنی مرضی کاخطبہ دیں ، حکومت جمعہ کے خطبے کے اہم نکات فراہم کرتی ہے اور علماء کو اسی کے اردگرد خطاب کرنا ہوتاہے۔ قانون بھانت بھانت کی بولیاں بولنے اور شہریوں کو ایک دوسرے کے خلاف اکسانے کی جازت نہیں دیتا۔قانون کی خلاف ورزی کا تصور بھی محال ہے۔
مساجد میں غیر مسلموں کو سیر کرنے کی اجازت ہے۔ دانشور ظفراقبال چودھری کے ہمراہ نگارا مسجد کی زیارت کی سعادت حاصل ہوئی جہاں بڑے دلچسپ مناظر دیکھنے کو ملے۔ مغربی ممالک کی عورتوں کو مسجد کے صدر دروازے پر عبایافراہم کیا جاتاہے تاکہ وہ ستر ڈھانپ کر مسجدمیں جاسکیں۔ مسجدمیں مفت انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہے اور اسلام کے حوالے سے لٹریچر بھی۔
ملائیشیا کے اکثر خطوں میں اسلام عرب تاجروں کے توسط سے پھیلا، لہٰذا عربوں کے تہذیبی اثرات جابجا نظرآتے ہیں ، لیکن ملائیشیا کی مقامی تہذیب اور ثقافت مضبوط بنیادوں پر استوار ہے۔ ملائیشیا کے مدبرحکمران مہاتیر محمد اس حوالے سے بہت حساس تھے۔ وہ اسلامی اور ملائیشین تہذیب کو بیک وقت پروان چڑھانے کے علمبردار رہے ہیں۔ان کی پالیسیوں کو بعد میں آنے والے حکمرانوں نے بھی جاری رکھا۔ مقامی لوگوں کو بمی پترا یعنی زمین کے بیٹے کہاجاتاہے ۔انہیں دیگر ملائیشین باشندوں پر ملازمتوں اور دیگر مراعات میں برتری حاصل ہے۔
قدرتی وسائل اور معدنیات کی بدولت آزادی کے بعد ہی سے ملائیشیا اقتصادی طور پر مضبوط ملک کے طور پر ابھرنا شروع ہوگیا تھا، لیکن مہاتیر محمد کی وزارت عظمیٰ کے دور میں ملک نے سائنس، سیاحت اور تجارت میں بے پناہ ترقی کی، حتیٰ کہ آج ملائیشیا مشرق بعید میں تیسرا بڑا ترقی کرنے والا ملک بن گیا ہے۔ ملکی ترقی میں صرف مسلمانوں کا ہی حصہ نہیں بلکہ اس دوڑ میںچینی اور ہندوشہری ان سے بہت آگے ہیں۔ فوربز میگزین کے مطابق اس وقت ملائیشیاکے 40امیر ترین افراد میں پہلے نمبر پر ایک چینی نسل کا باشندہ ، دوسرے نمبر پر ایک بھارتی نژاد ہندو ہے۔ اگلے آٹھ افراد بھی چینی نسل کے ہیں۔ فہرست میں صرف ایک شخص مسلمان ہے۔
70 فیصد کاروبار پر چینیوں کی بالادستی ہے۔ چینی اور بھارتی شہری علاقوں میں آباد ہونے کی وجہ سے کاروبار پر چھا گئے جبکہ مسلمان دیہات اور گائوں میں بسنے کے باعث ترقی کی دوڑ میں کافی پیچھے رہ گئے۔ یہ فرق اتنا گہرا ہے کہ حکومت نے مَلیز کی ترقی کے لیے 30فیصد کوٹہ مقرر کیا ۔ تعلیم، صحت، روزگار غرض ہر شعبے میں مقامیوں کے لیے خصوصی کوٹے رکھے گئے ہیں ۔ اس پالیسی کے نتیجے میں مَلے آبادی کی معاشی حالت میں واضح سُدھار آیا اور ان کے اندر آباد کاروں کے ساتھ اشتراک سے کاروبار کرنے کا داعیہ پیدا ہوا۔ بیس برس بعد کوٹہ سسٹم ختم کردیا گیا۔
مہاتیر محمد ہوں یا بعد کی حکومتیں، انہوں نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم رکھنے پر اپنی توانائی اور وسائل صرف کیے۔ یہی وجہ کہ آج ملائیشیا کے خطے ایک دوسرے سے علیحدگی کے بارے میں کم ہی سوچتے ہیں۔ وہ ہر مسئلے کا پرامن حل تلاش کرلیتے ہیں۔ وہی کوٹہ سسٹم جو ملائیشیا میں کامیاب ہوا، وہ کراچی میں فساد اور بے چینی کی جڑ سمجھا جاتا ہے ۔ غیر مسلموں کی اتنی بڑی تعداد ہونے کے باوجود لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نہیں ۔ مختلف امور پر اختلافات بھی ہیں،مثال کے طور پرگزشتہ سال عدالت نے عیسائیوں کو لفظ اللہ استعمال کرنے سے روک دیا جس کے بعد مسلمانوں اور عیسائیوں میں کشیدگی بڑھی ، کئی جگہوں پر گھرجا گھروں کو جلا یا گیا۔ اسی طرح ہندو آبادی غیر قانونی مندروں کی مسماری کے بعد مشتعل ہے۔ چینی نسل کے افراد کو بھی شکایت ہے کہ حکومت ریاست کو مذہبی ریاست میں تبدیل کر رہی ہے۔ قانون شکنوں کو سخت سزادی جاتی ہے۔ جن لوگوں نے گھرجا گھروں کو آگ لگائی ان میں سے متعدد کیفرکردار کو پہنچ چکے ہیں۔ یہ سلسلہ اب نہ صرف رک چکا ہے بلکہ پولیس ایسے عناصر کی سخت نگرانی کرتی ہے جو معاشرے میں بدامنی کا باعث بنتے ہیں۔
مختلف خطوں اور مذاہب کے لوگوں کو ایک لڑی میں پرو کر ان کی صلاحیتوں سے تعمیر وطن کا کام لینا ایک ایسا فن ہے جو پاکستان کی حکومت اور ادارے ملائیشیا سے سیکھ سکتے ہیں۔کثیر جہتی معاشرے کو متحارب مفادات اور باہمی تضادات پر قابو پانا اور انہیں ایک دوسرے سے ہم آہنگ کرنا ایک ایسا عمل ہے جس کا باریک بینی سے مطالعہ کیاجاناچاہیے تاکہ پاکستان کو بھی ایک پرامن اور خوشحال ملک بنایاجاسکے۔