"IMC" (space) message & send to 7575

اسلام آباد رینجرزکے حوالے ؟

اطلاعات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کو نیم فوجی ملیشیا یعنی رینجرزکے حوالے کرنے پر غورکیاجارہاہے۔اس اقدام کو پولیس پرعدم اعتماد کا سرکاری اعلان تصور کیاجاناچاہیے ۔اسلام آباد کچہری میں ہونے والے دھماکے نے سلامتی کے پورے نظام کو مشکوک کردیا ہے۔وزیرداخلہ چودھری نثارعلی خان کہتے ہیںکہ پاکستان میں امریکہ کے بعد سب سے زیادہ سراغرساں ایجنسیاں ہیں۔ان کی تعداد چھبیس کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے ۔اتنے بڑے انفراسٹرکچرکے باوجود پاکستان میں امن وامان کی صورت حال نہ صرف ابتر ہے بلکہ اسے دنیا کے غیر محفوظ ممالک کی فہرست میں شامل کیاجاتاہے۔کئی ملک اپنے شہریوں کو پاکستان کا سفر نہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
ایبٹ آباد کمیشن کے روبرو سکیورٹی حکا م نے کھل کر ملکی سلامتی کو لاحق چیلنجوں پر اظہار خیال کیا ۔کمیشن کو بتایا گیا کہ سلامتی سے متعلقہ تمام امور فوج اور آئی ایس آئی کی ذمہ داری تصور کیے جاتے ہیں ۔ باقی اداروں نے اپنے حصے کا کام کرنا عملاًترک کردیا ہے۔ پولیس اور اس کے ذیلی ادارے عضومعطل بن چکے ہیں۔ آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ احمدشجاع پاشا نے کہا کہ وزیراعظم نے خال ہی ان سے ملکی سلامتی کے امور پر بریفنگ لی ۔دوسری جانب ملک میں جب بھی کوئی بحران درپیش ہوتاہے ، انتظامیہ اور پولیس کے اوسان خطا ہوجاتے ہیں۔ فوج بلائو کے مطالبات شروع کردیے جاتے ہیں ۔ پولیس اورانتظامیہ سے یہ نہیں پوچھاجاتا کہ آخروہ کس مرض کی دوا ہیں؟آخرکتنے شہروں کو رینجرزاور فرنٹیئر کانسٹبلری (ایف سی) کے حوالے کیاجائے گا۔کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں پہلے ہی نیم فوجی دستوں کا سکہ چلتاہے،اس کے باوجود وہاںامن قائم ہوا نہ بھتہ مافیا قابو آیا۔کوئی اس سوال پر غورکرنے کو تیار نہیں کہ فوج انتظامی امور اور پولیس کی ذمہ داریاں سنبھالے گی تو سرحدوں کا دفاع کون کرے گا؟
گزشتہ دنوں اس کالم میں سندھ بالخصوص کراچی پولیس کے گلے سڑے نظام اور پنجاب میں پراسیکیوشن کے نظام میں کی جانے والی اصلاحات کے بعد آنے والی بہتری کاذکر کیاگیا تو چند باخبر قارئین نے پولیس کے نظام میں پائے جانے والے دیگر نقائص کی بھی نشاندہی کی ۔ پولیس کے سابق افسروں نے متوجہ کیا کہ پولیس کے پاس جدید ہتھیاروںکی کمی ہے۔اوّل تو اعلیٰ پائے کی ٹیکنالوجی دستیاب نہیں اور جو مشینری میسر ہے‘ استعمال کی ضروری مہارت نہ ہونے کے باعث بے کار پڑی زنگ آلود ہورہی ہے۔ یہ بھی کہاگیا کہ جب تک سیاسی عزم نہیں ہوگا اس وقت تک پولیس کے نظام میںاصلاحات کی جاسکتی ہیں اورنہ ہی اسے عوام کا خادم بنایا جا سکتا ہے۔ 
پاکستان کی بدقسمتی ملاحظہ ہوکہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی لیکن سندھ اور بلوچستان میں معمولی ترامیم کے ساتھ ابھی تک 1861ء کا پولیس ایکٹ نافذ ہے۔ وفاقی حکومت نے 2002ء میں نیا پولیس آرڈر جاری کیا جو پولیس کے فرسودہ نظام کو ازسر نو استوارکرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔اسلام آباد ‘پنجاب اور خیبر پختونخوا میںاس پر جزوی عمل درآمد ہوا لیکن جب تک اس آرڈر پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد نہیں کیاجاتا مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جاسکتے ۔ پرویز مشرف کی حکومت تما م ہوئی تو پیپلزپارٹی اور نون لیگ کی صوبائی حکومتوں نے اس آرڈر کو غیر موثرکرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی؛چنانچہ پولیس کی جدید تقاضوں کے مطابق تشکیل نو رک گئی ۔ نتیجتاً انسدادِ دہشت گردی میں پولیس بری طرح ناکام ہوئی۔
پولیس کو فعال اور ذمہ دار ادارہ بنانے کے لیے جس نوع کی تربیت اور مالی وسائل کی ضرورت تھی وہ فراہم کیے گئے جس کی بدولت آج شہر وں کے شہر فوج اور نیم فوجی دستوں کے حوالے کیے جارہے ہیں جو شہری علاقوں کا انتظام وانصرام چلانے کی ضروری تربیت رکھتے ہیں اور نہ ہی پس منظر۔ پولیس کے نظام میں اصلاحات کی جائیں ، ضروری تربیت فراہم کی جائے ، جدید ٹیکنالوجی بالخصوص نئی مشینری فراہم کی جائے تومنظر بدل سکتاہے۔
اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد امن وامان اور شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری صوبوں کی ہے۔ صوبے ابھی تک اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوتے نظر نہیں آتے ۔ سندھ میں خاص طور پرکراچی میں امن وامان کی صورت حال کو محض رینجرزکی تعیناتی سے کنٹرول نہیں کیاجا سکتا، اس کے لیے پنجاب کی طرز پر سندھ پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کو فعال اور سرگرم بنانا ہوگا۔ وکلاء اور پولیس کو مقدمات کی پیروی میں درکار ضروری تربیت فراہم کرنے کا بندوبست کیا جانا چاہیے۔ پولیس کو انتظامیہ بالخصوص سیاستدانوں کے اثر ورسوخ سے آزادکرنے کے اقدامات کیے جائیں اور پولیس کے نظام میں مداخلت کا تصور ہی ختم کردیا جائے تاکہ سفارش کلچر ختم ہو۔ ترقی کا پیمانہ کارکردگی کو بنایاجائے تو بہت سا گند خودبخود سسٹم سے نکل سکتاہے۔
دنیا کے اکثر ممالک میں جرائم پر قابو پانے میں پولیس نے ٹیکنالوجی سے بھرپور مدد لی۔ پولیس افسران بتاتے ہیں کہ انہیں معمولی نوعیت کے آلات کے لیے بھی عسکری اداروں کی جانب رجوع کرنا پڑتا ہے،اس دوران قیمتی وقت ضائع ہوجاتاہے اوراکثر مجرم فرارہوجاتے ہیں۔امریکہ اور نیٹو ممالک نے بھی دہشت گردی کے لیے جو وسائل فراہم کیے ان کا حقیرسا حصہ پولیس پر خرچ ہوتا تو آج ملک کا یہ حشر نہ ہوتا۔
اب بھی وقت ہے کہ حکومت پاکستان حلیف ممالک بالخصوص امریکی اداروں اور یورپی یونین کی امداد سے پاکستان میں پولیس کو اپنے پائوں پرکھڑاکرے۔ برطانیہ کا محکمہ انصاف پہلے ہی کافی مدد فراہم کررہاہے۔ امریکہ کے کچھ ادارے پولیس افسروں کو بم دھماکوں میں جاں بحق ہونے والوں کی شناخت کے طریقے سکھا رہے ہیں۔ ایف بی آئی نے بھی پولیس افسروں کو تربیت دینے کاآغاز کیا ہے۔ امریکیوں سے امداد یا تربیت لینے کی خبر پرکچھ لوگوں کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں اورکچھ گھبرا جاتے ہیں ۔ اس کے برعکس جرمن اداروں کی امداد اور تربیت کو خوشدلی سے قبول کرلیا جاتاہے کیونکہ وہ پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے ۔ سند ھ پولیس کی تکنیکی صلاحتیوں میں اضافے کے لیے جرمن ادارے جی آئی زیڈ نے نناوے ہزار ڈالر مالیت کے فنگر فرانزک اور جدید تحقیقاتی آلات فراہم کیے ہیں۔ یہ ادارہ جدید فنگر پرنٹ سسٹم، جدید تحقیقاتی آلات اور تربیت فراہم کرنے کا وعدہ بھی کرچکا ہے۔ پاکستانی فوج بھی پولیس کو جدید تربیت اور ضروری آلات فراہم کررہی ہے ۔ معاونت کا یہ سلسلہ جاری رہا تو امکان ہے کہ جلد ہی پولیس فورس نہ صرف دہشت گردی کی کارروائیوں کا مقابلہ کرنے بلکہ جرائم پیشہ عناصر کو قانون کی گرفت میں لانے کے قابل ہوجائے گی۔ 
پاکستانیوں کی صلاحیتوں کو زنگ لگا ہوا ہے اور نہ ہی وہ دنیا کے دوسرے لوگوں کے مقابلے میں کم ذہین ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ انہیں یکساں مسابقت کا ماحول میسر نہیں اور نہ ہی بدعنوانی کے تدارک کا موثر نظام دستیاب ہے ۔ پارلیمانی کمیٹیاں غیر فعال ہیں لہٰذا اداروں کو اپنی اپنی حدود وقیود میں پابند کرنے والا کوئی ادارہ نہیں۔پاکستان کی پولیس فورس نالائق یا نااہل نہیں۔ پاکستان کا شمار ان پانچ ممالک میں ہوتاہے جنہوں نے گزشتہ ایک دہائی میں اقوام متحدہ کے امن مشن میں اپنے پولیس افسروں کو بھیجا،ان کی کارکردگی بہت شاندار رہی جسے عالمی سطح پر سراہا گیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہی پولیس فورس جب پاکستان کے اندر کام کرتی ہے تو وہ ناکام اور نامراد نظرآتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں