"IMC" (space) message & send to 7575

صدر ممنون حسین کی باتیں

ایوان صدرکی پرشکوہ عمارت میں صدر ممنون حسین ، جناب آصف علی زرداری کی چھوڑی ہوئی نشست پر تشریف فرما ہیں لیکن دونوں صدور میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ زرداری صاحب نے ایوان صدرکو سیاسی سرگرمیوں بالخصوص پیپلزپارٹی کا گڑھ بنائے رکھا۔ وہ یہاں بیٹھ کر شب وروز راج نیتی کی گتھیاںسلجھاتے۔ وزیراعظم ان کے ماتحت اور پارلیمنٹ ان کے اشارہ ٔابرو کی منتظر رہتی۔'' بڑے گھر‘‘کی شان وشوکت اب بھی ویسی ہی ہے لیکن اب یہاں ایک مختلف شخص مقیم ہے جس کی ترجیحات نری سیاست نہیں ۔ روایات کے برعکس وہ منتخب حکومت سے مسابقت نہیں بلکہ اس کی معاونت پر یقین رکھتا ہے۔صدر ممنون حسین کے ساتھ ایوان صدر میں ظہرانے پر طویل نشست ہوئی۔ گفتگو کا محورسیاست کم اور سماجی امور زیادہ رہے۔ بسااوقات محسوس ہوتا کہ وہ حاکم کم اور مصلح زیادہ ہیں ۔ ریاستی معاملات سے لاتعلق نہیں لیکن حکومت کے کاموں میں ٹانگ اڑانے کے روادار بھی نہیں۔
صدر ممنون حسین نے عملی زندگی کا آغاز ایک کاروباری شخصیت کے طور پر کیا۔کراچی ، جہاں تاجروں اور کاروباری شخصیات نے اپنی اپنی سلطنتیں قائم کررکھی ہیں ، وہاں رنگ جمانا خالہ جی کا گھر نہیں ۔ محنت ‘ لگن اور دیانت داری نے متوسط درجے کے کاروباری خاندان کے ممنون حسین کو کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدرکے منصب تک پہنچایا۔ یہیں سے ان کی سیاسی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کی نظر وں میں جچ گئے اور انہیں سندھ کا گورنر مقررکردیا گیا۔وفاداری بشرط استواری، نواز شریف مصائب کا شکار ہوئے تو ممنون حسین ان کے ساتھ ڈٹے رہے ؛حالانکہ کاروباری لوگوں کے بارے میں کہاجاتاہے کہ وہ موسمی پرندوں کی مانند ہوتے ہیں۔اِدھر موسم بدلا،اُدھر انہوں نے اڑان بھرلی۔ غیر متوقع طور پر پاکستان کی صدارت کا قرعہ فال ان کے نام نکلااوروہ کراچی سے اٹھ کر اسلام آباد کے ایوان صدر میں براجمان ہوگئے۔
صدر نے بتایا کہ انہوں نے ساری زندگی ایک متحرک اور سرگرم انسان کے طور پر گزاری ہے۔ منصب صدارت کا تقاضا یہ ہے کہ چودھری فضل الٰہی کی مانند خاموشی سے پانچ سال پورے کیے جائیں۔دوسرا ماڈل جناب فاروق لغاری کا ہے کہ اپنی ہی حکومت کی ٹانگیں کھینچ لیں۔۔۔یعنی کام کریں، نہ دوسروں کو کرنے دیں ، خود ڈوبیںاوردوسروں کو بھی ڈبو دیں ، خواہ ملک کا بیڑہ ہی غرق ہوجائے۔ صدر ممنون حسین نے بالکل مختلف راستہ چنا ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اپنا زیادہ وقت تعلیم کے فروغ میںصرف کرتاہوں۔وہ اس وقت سترہ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر ہیں۔ ماضی میں کسی صدرکے پاس فرصت تھی،نہ ذوق کہ ان جامعات کے معاملات سدھارنے پر توجہ دیتا۔ توجہ کجا ، اکثر نے یونیورسٹیوں کی جانب مڑکر بھی نہیں دیکھا ، زیادہ سے زیادہ کسی جیالے یا حمایتی کو ملازمت دلوادی ۔ صدر ممنون حسین نہ صرف ان تعلیمی اداروں کی ترقی اور بہتری پر توجہ دے رہے ہیں بلکہ وہ اگلے پانچ برس میں انہیں معیاری تعلیمی اداروں کے طور پر دیکھنے کے متمنی ہیں۔
خارجہ امور صدرکا میدان نہیں لیکن وہ ملک کے سربراہ ہیں ، لہٰذا ہر غیر ملکی مہمان ان سے بھی ملاقات کرتاہے اور بے شمار عالمی فورمز پرانہیں پاکستان کی نمائندگی کرنا ہوتی ہے۔ صدر نے ایک دلچسپ بات بتائی کہ وہ ان مواقع کو پاکستان کے تجارتی حجم میں اضافے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مسلسل باخبر لوگوں سے مشاورت کرتے اور تحقیق کرتے رہتے ہیں کہ کس طرح پاکستانیوں کے لیے کاروبار اور تجارت کے امکانات وسیع کیے جائیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی حکومت اور بزنس مین کاروبار اور تجارت کے لیے عام طورپر امریکہ ‘ یورپ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کی طرف دیکھتے ہیں اور نئی منڈیاں تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ انہوں نے مثال دی کہ افریقہ کے کئی ممالک تیزی سے معاشی ترقی کررہے ہیں ۔ ان ممالک میں کاروبار کے وسیع امکانات ہیں۔ مسابقت کا ماحول ہے ،نہ سخت قوانین ۔ سستا خام مال اور کم اجرت پر صنعتی کارکنوں کی دستیابی کے باعث منافع کی شرح بھی غیر معمولی طور پر زیادہ ہے۔ پاکستان ان ممالک کے ساتھ اپنے کاروبار کو زیادہ سے زیادہ وسعت دے سکتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ وہ جلد ہی ان ممالک کا دورہ کرنے والے ہیں۔
گزشتہ دنوں وہ چین کے دورے پرگئے جہاں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف صوبے میں سرمایہ کاری کے لیے چینیوں کو راغب کرنے کی خاطر پہلے سے موجود تھے۔ صدر ممنون حسین نے بھی ان کی پیٹھ ٹھونکی اور چین کی حکومت کے سامنے پنجاب کا مقدمہ زیادہ جاندار انداز میں پیش کیا ۔اب چین کے سرمایہ کار 
پنجاب میں بتیس ارب ڈالر کے منصوبے بنارہے ہیں۔لاہور شہر میں چین مفت ریلوے شروع کرنے کا منصوبہ بنارہا ہے۔اگر پنجاب میں بتیس ارب ڈالرکی سرمایہ کاری ہوجاتی ہے تو صوبے کا نقشہ ہی بدل جائے گا۔ یہ ایک ترقی یافتہ صوبہ بن جائے گا جو پورے ملک کا مالی بوجھ اٹھانے کے قابل ہوسکتاہے۔ جس طرح بھارت کی ریاست گجرات نے غیر معمولی معاشی ترقی کی اور تیسری دنیا کے ممالک کے لیے مثال بن گیا۔اسی طرح پنجاب بھی دوسرے صوبوں کے لیے معاشی ترقی اور انفراسڑکچر کی تعمیر میں نمونہ بننے کی صلاحیت رکھتاہے۔
اگرچہ صدر ممنون حسین ملک کے محض آئینی سربراہ ہیں اور ان کے اختیارات علامتی ہیں‘ اس کے باوجود وہ پاکستان کے لیے بے پناہ خدمات سرانجام دے سکتے ہیں۔ان کا ایجنڈا ہے کہ وہ اگلے برسوں کے دوران تعلیمی اور سماجی دائروں میں سرگرم رہیں لیکن ان کے علاوہ بھی کچھ ایسے شعبہ ہائے زندگی ہیں جہاں صدر کی دلچسپی سے حیرت انگیز بہتری آسکتی ہے۔ برطانیہ کی ملکہ اور شاہی خاندان خیراتی اداروں کی سرپرستی کرتا ہے۔ وہ ملک کی ممتاز شخصیات، بالخصوص ان افراد کی حوصلہ افزائی کرتاہے جو زندگی کے کسی بھی شعبے میں کارہائے نمایاں سرانجام دیتے ہیں۔ وہ غیر سرکاری اداروں کی بھی سرپرستی کرتا ہے ،خاص طور پر انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے تحفظ کے لیے متحرک افراد اور اداروں کی پشت پناہی کی جاتی ہے ۔اس کے برعکس پاکستان میں ایسے اداروں کو نکیل ڈالی جاتی ہے اور ان کے راستے میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔ 
صدر ممنون حسین کی ایسے اداروں کو سرپرستی حاصل ہوجائے تو ان کی خدمات کا محدود دائرہ لامحدود ہوسکتا ہے۔
برطانیہ میں ہائوس آف لارڈزکے ارکان کی سیاسی اور حکومتی نظام میں حیثیت علامتی سے زیادہ نہیں ، اس کے باوجود ہر لارڈ نہ صرف زبردست متحرک ہے بلکہ وہ ہائوس آف لارڈزکے کمیٹی رومزکا بھی بھرپور استعمال کرتاہے۔ ملکی اور عالمی معاملات پر وہاںمسلسل بحث جاری رہتی ہے۔ دنیا بھر سے لوگ آکر ہائوس آف لارڈز میں اپنے اپنے ایشوز پر بحث کومباحثہ کرتے ہیں ۔ دستاویزی فلموں اورکتابوں کا اجراکیا جاتاہے۔ میر ے کزن ڈاکٹر عاشق حسین امریکہ کی ریاست ورجینیا میں مقیم ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ان کی صاحبزادی اپنے سکول کے بچوں کے ہمراہ صدر جارج بش کا دفتر دیکھ چکی ہے اور اعلیٰ حکام سے بھی تبادلہ خیال کرتی رہی ہے۔ موجودہ صدربارک اوباما کی اہلیہ مشعل اوباما سکول کے بچوں کو خاص طور پر وقت دیتی ہیں۔ ہمارے ہاں سینیٹرسید مشاہد حسین کی خارجہ امورکی کمیٹی کبھی کبھار مختلف امورکے ماہرین کو مدعو کرتی ہے تاکہ سرکاری کے علاوہ متبادل نقطہ نظر بھی سنا جاسکے۔
قوموں کی تعمیر جلسے جلوسوں اور محاذآرائی سے ممکن نہیں ، مفاہمت اور قومی خدمت کے جذبے سے سرشار افراد مضبوط ملک اور مضبوط قوم بنانے میں زیادہ موثر کردار اداکرتے ہیں ۔ صدر ممنون حسین سے گفتگو کرکے اچھا لگا۔ وہ نرم خو اور سخت کوش انسان ہیں۔ا ن کے سامنے ایک واضح مقصد ہے ، لہٰذا وہ بے مقصد تصادم سے گریز کرتے ہیں۔ مخالفین کو چیلنج کیے بغیر اپنے لیے راہ نکال لیتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ محفل میں شریک ممتاز صحافی جناب ضیاء الدین اور جناب سعود ساحر کے کیا ثاثرات ہیں لیکن مجھے صدر کے بے ساختہ پن ‘سادگی اور خلوص نے متاثرکیا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں