واشنگٹن میں ہرکوئی فکر مند ہے کہ افغانستان سے امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد طالبان جنگجواور ان کے حامی غیر ملکیوں کا اگلا ہدف کیا ہوگا ؟ کشمیر بھی ایک امکانی محاذ ہوسکتاہے جہاں وہ معرکہ آرائی کرسکتے ہیں۔ امریکی پالیسی ساز یہ جاننے کے لیے بے چین ہیں کہ کیا انخلاء کے بعد طالبان اور ان سے وابستہ گروپ اپنی توانائیوں کا رخ کشمیرکی طرف تو نہیں موڑلیں گے؟ گزشتہ کالم میں ذکرکیاگیا تھا کہ واشنگٹن میں لوگ بہت سا وقت اس موضوع پر غور وفکر کرنے پر صرف کرتے رہتے ہیں کہ اگر بھارت کے اندرکوئی بڑا حملہ ہوگیا تواس کے سنگین نتائج سے کیسے نمٹا جائے گا ؟ واشنگٹن کے بعض قدامت پسند تزویراتی ماہرین کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ایسی صورت میں پاکستان کو سخت ترین سزادینے کا جواز اور موقع پیدا ہوجائے گا۔ 2016ء میں امریکہ کے آئندہ صدارتی الیکشن ہونے ہیں۔ غالب امکان ہے کہ اگلی حکومت ری پبلکن پارٹی بنائے گی۔ ری پبلکن پارٹی دہشت گردی کے حوالے سے سخت گیر موقف رکھتی ہے۔ایسے ممالک،اداروں اور شخصیات کے خلاف فوری اور عبرت ناک فوجی کارروائیوں کی علمبردار ہے جو کسی بھی قسم کے حملوں میں ملوث ہوں۔ بھارت میں مودی اور امریکہ میں ری پبلکن کی حکومت کے مابین ایک فطری اتحاد بنتا نظر آتاہے۔
اکثر مجلسوں میں یہ نکتہ باربارسامنے آتارہا ہے کہ بھارت نے کشمیریوںکو جس بری طرح دبایااور سیاسی مکالمے کا ہردروازہ بندکیا ،اس پالیسی نے نوجوانوں میں زبردست فرسٹریشن اورردعمل پیداکیا ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان عسکریت کی جانب راغب ہورہے ہیں۔ سیاسی رہنما جنہوں نے بھارت کے ساتھ مذاکرات کیے وہ بھی مایوسی کا شکار ہیں کیونکہ ان کے ساتھ جو وعدے کیے گئے تھے وہ پورے نہیں ہوئے ۔ اس مایوسی کا اظہار شہریوں نے حالیہ لوک سبھا کے الیکشن میںکوئی خاص دلچسپی نہ لے کرکیا ۔ وادی کشمیر کے اکثر حلقوں میں پولنگ کی شرح بہت کم رہی ۔
کشمیر کے حوالے سے واشنگٹن میں اب کچھ ہلچل نظر آتی ہے۔ اکثر ادارے اور سرکاری شخصیات کشمیر پر کھل کر بات کرنے سے کتراتے ہیں اوربھارت کے ردعمل سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ بھارت کشمیر کے ذکر پر نہ صرف کبیدہ خاطر ہوجاتا ہے بلکہ سفارتی اور سیاسی سطح پرہنگامہ بھی کھڑا کردیتاہے۔ ایک خاتون سفارت کار نے رازداری سے بتایا کہ اس نے دس سال قبل کوشش کی کہ کشمیر پر کنٹرول لائن کے دونوں اطراف کے سیاسی رہنمائوں کے مابین مکالمہ کرائے ۔ بھارت نے نہ صرف اس آئیڈیا کا برا منایا بلکہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں جو افسر اس منصوبے پر کام کررہاتھا اس کی بھی چھٹی کرادی ۔ دوسری جانب حالیہ برسوں میں پاک امریکہ تعلقات نہ صرف ناہموار رہے بلکہ دونوں ممالک محاذ آرائی اور ایک دوسرے کو نیچا دیکھنے میں جتے رہے ۔اسلام آباد اور واشنگٹن میں جاری سردوگرم معاملات نے مسئلہ کشمیرکو بری طرح پس منظر میں دھکیلا۔ امریکی اسٹیبشلمنٹ سے قربت رکھنے والی ایک شخصیت نے بتایا کہ اس وقت واشنگٹن میں اوباما انتظامیہ میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں جو کشمیر پر ہونے والی سیاسی اور سماجی تبدیلیوں پر نگاہ رکھتاہو۔
پاکستان سے بیزاری ، حریت کانفرنس کے اندر پائی جانے والی تقسیم اور عسکری گروپوں سے قربت کی بنا پر امریکہ نے کشمیرکا ذکرکرنا ہی بندکردیا۔ سری نگر جانے والے اعلیٰ امریکی حکام محض وزیراعلیٰ، گورنر اور سرکاری نمائندوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے صدر بارک اوباما سے اپنی حالیہ دوملاقاتوں میں کشمیر پر ثالثی کی درخواست کی۔ وزیراعظم کی اس درخواست کے بعد واشنگٹن میں کچھ دلچسپی کے آثار نمایاں ہوئے ۔ چند دن قبل اٹلانٹک کونسل نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں یہ بتایاگیا ہے کہ اگر یہ مسئلہ حل ہوجائے تو دونوں ممالک تیزی سے ترقی اور خوشحالی کی منزل حاصل کرسکتے ہیں۔ گزشتہ ماہ پاکستان میں امریکی سفیر رچرڈ اولسن سے مظفرآباد میں ملاقات ہوئی توکہنے لگے کہ کشمیریوں کی مدد توکرنا چاہتے ہیں لیکن کوئی راہ نہیں مل رہی ، کچھ تخلیقی آئیڈیاز ہوں تو امریکہ انہیں آگے بڑھانے میں دلچسپی لے سکتاہے۔
امریکہ میں بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ نریندرا مودی بھارت میں برسراقتدار آنے والے ہیں لہٰذا اس موقع کو استعمال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے لیے ابھی سے سازگار ماحول بنانے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ اگرچہ کوئی نہیں جانتا کہ مودی کی خارجہ پالیسی کی کیا ترجیحات ہیں کیونکہ وہ اس موضوع پرکم ہی اظہار خیال کرتے ہیں ؛ تاہم انہیں امریکہ کے کافی قریب تصور کیا جاتاہے۔ علاوہ ازیں وہ بھارت کے کاروباری طبقات کے نقطہ نظر اور مفادات کو بھی آگے بڑھانے کے خواہش مند ہیں لہٰذا عمومی خیال یہی ہے کہ وہ خطے میں کشیدگی اور تنائو پیداکرنے سے گریز کریں گے۔ چونکہ بھارتیہ جنتاپارٹی نے ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان امن عمل شروع کیا تھا لہٰذا ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اس عمل کو آگے بڑھانے کے لیے وقت اور توانائی صرف کریں گے۔کہاجاتاہے کہ ان کے اردگرد جو ٹیم ہے وہ دوراندیش نہیں بلکہ عقاب صفت ہے جو محاذ آرائی اور جنگ وجدل میںخوش رہتی ہے۔ ممکن ہے کہ ذمہ داری پڑے تو مودی ایک مختلف وزیراعظم ثابت ہوں اور' فاتح کارگل ‘ پرویز مشرف کی طرح امن کے علمبردار بن جائیں۔
دشواری یہ ہے کہ افغانستان میں جاری پاک بھارت مسابقت اورکشمکش نے دونوں ممالک کے اداروںکو ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑاکردیا ہے۔ ابھی تک دونوں ممالک ایک دوسرے کے مفادات کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں بلکہ کابل میں اپنا اثر ورسوخ مستحکم کرنے اور ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کی کوششوں میں مگن ہیں۔ اگرنیٹو افواج کے انخلاء کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا تو پھر یہ کشیدگی افغانستان ہی کو نہیں بلکہ پورے خطے کو عدم استحکام کا شکار کرسکتی ہے۔ امریکہ میں ہر شخص افغانستان کے استحکام سے گہری دلچسپی رکھتاہے۔
اگر کشمیر کو وسیع تر علاقائی استحکام کی کنجی کے طور پر پیش کیا جائے تو عالمی طاقتوں بالخصوص واشنگٹن میں اس مسئلے پر دلچسپی پیدا ہوسکتی ہے۔ یہاں امریکہ کے بااثر لوگوں کے ساتھ تبادلہ خیال سے یہ احساس پختہ ہوتاہے کہ کشمیر پر موجودہ خیالات کو نئی زبان اور استدلائل سے پیش کرنا پڑے گا۔ موجودہ طرزکلام عالمی برادری کے لیے قابل قبول نہیں۔ ایسی شخصیات اور جماعتوں کو سامنے لانے کی ضرورت ہے جو جدید علم الکلام سے آشناہوں۔ میرا مقصد یہ نہیں کہ لوگ مغرب کی خوشنودی کی خاطر اپنے نظریات اور خیالات سے تائب ہوجائیں اور مغرب کی بولی بولنے لگیں بلکہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ عالمی برادری کو ساتھ لیے بغیر کشمیر پر کوئی پیش رفت مشکل نظر آتی ہے۔ (ختم)