"JDC" (space) message & send to 7575

انتخابات یہاں اور وہاں

برصغیر بشمول پاکستان میں انتخابات بہت جوش اور جذبے سے لڑے جاتے ہیں۔ مقابلہ کئی سطح پر ہوتا ہے انفرادی بھی اور سیاسی جماعتوں کے مابین بھی۔ اکثر و بیشتر یہ انتخابات برادریوں کی عزت کا سوال بھی بن جاتے ہیں یا بنا لیے جاتے ہیں۔ چونکہ ہمارے ہاں سیاسی شعور کی ابھی تک کمی ہے لہٰذا کئی لوگ اس شخص کو ووٹ دیتے ہیں جو اُن کی برادری کا ہو اور وقت پڑنے پر ان کے ساتھ تھانہ کچہری جانے کے لیے تیار ہو۔ میں اگلے روز اپنے بینک گیا تو سوچا کہ بینک کے اس ملازم سے انتخابات کے حوالے سے بات کی جائے جس سے میرے دوستانہ مراسم ہیں۔ یہ غریب آدمی پاک فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد بھی ملازمت کر رہا ہے کیونکہ پنشن میں گزارا ناممکن ہے۔ تعلق اس کا مانسہرہ سے ہے اور بیوی بچوں کے ساتھ راولپنڈی میں مقیم ہے۔ انتہائی محنتی‘ خوش اخلاق اور ایماندار آدمی ہے۔ میں نے پوچھا کہ ووٹ ڈالو گے یا نہیں؟ کہنے لگا کہ ووٹ ڈالنے کے لیے ہم میاں بیوی 11 مئی کو علی الصبح مانسہرہ جائیں گے۔ میں نے پوچھا ووٹ کس کو دو گے؟ کہنے لگا کیپٹن صفدر کو۔ میں نے کہا کہ کوئی خاص وجہ ہے؟ کہنے لگا کہ ایمانداری سے جواب دوں گا چاہے آپ کو پسند نہ آئے۔ کیپٹن صفدر اعوان ہے اور میرا تعلق بھی اعوان برادری سے ہے۔ کل کو کوئی کام پڑا تو کیپٹن صفدر ضرور میری مدد کرے گا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستانی ووٹر بہت کچھ سیکھ گیا ہے۔ اس کا ایم این اے یا ایم پی اے اگر دوبارہ یا سہ بارہ الیکشن آئندہ ماہ لڑ رہا ہے تو اسے اکثر و بیشتر اس سوال کا سامنا ہے کہ پچھلے پانچ سال میں آپ کے کارنامے کیا ہیں؟ یہ سوال شہری ووٹر زیادہ بے باک طریقے سے پوچھتا ہے۔ دیہاتی ووٹر ابھی اتنا نڈر اور بے باک نہیں ہوا۔ لیکن وہ بھی کائیاں ضرور ہو گیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ا یک سے زیادہ امیدواروں سے ووٹ دینے کا وعدہ کرے۔ ملک معراج خالد مرحوم کا مشہور واقعہ یاد آ گیا جو کہ ہو سکتا ہے آپ نے پہلے بھی سنا ہو۔ ملک صاحب جنوبی لاہور کے دیہی علاقے سے امیدوار ہوتے تھے اور کئی الیکشن لڑ چکے تھے۔ 1946ء سے ان کی جیت کا سلسلہ شروع ہوا۔ وزیراعلیٰ پنجاب بھی رہے اور قومی اسمبلی کے سپیکر بھی۔ ایماندار ایسے تھے کہ لاہور میں کرائے کے گھر میں رہتے تھے۔ 1990ء کی دہائی میں اپنے آخری الیکشن کے لیے ووٹ مانگنے پتوکی کے قریب ایک گائوں گئے۔ لوگوں سے مخاطب ہوئے اور بتایا کہ اتنے بڑے بڑے عہدوں پر رہنے کے باوجود میں کرائے کے گھر میں رہتا ہوں لہٰذا میری ایمانداری کی وجہ سے آپ مجھے ووٹ دیں۔ لوگ ملک صاحب کا احترام کرتے تھے لہٰذا کسی کو اُن کے سامنے انکار کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔ بعد میں مشورے کے لیے بیٹھے اور اکثریت کی رائے تھی کہ ملک صاحب ساری زندگی اپنے لیے کچھ نہیں کر سکے‘ یہ ہمارے لیے کیا کریں گے؟ لہٰذا ووٹ کسی اور کو دینا چاہیے۔ اور اب ذکر ہو جائے اُن ممالک کا جہاں میں رہا ہوں اور دیکھا جائے کہ وہاں الیکشن کیسے ہوتے تھے۔ 1974ء میں عربی سیکھنے کے لیے مجھے قاہرہ بھیجا گیا۔ انور سادات صدر تھے اور سیاہ و سفید کے مالک۔ جمال عبدالناصر‘ انور سادات اور حُسنی مبارک سب فوجی ڈکٹیٹر تھے۔ اب فوجی ڈکٹیٹر جتنا بھی طاقتور ہو اُس کے دل میں اپنی قانونی حیثیت کے حوالے سے شک ضرور رہتا ہے۔ اس شک کو دور کرنے کے لیے مصر میں ریفرنڈم کرانے کا طریقہ آمروں نے ڈھونڈ نکالا۔ قاہرہ میں میرے ایک سال کے قیام کے دوران ایک قومی ریفرنڈم ہوا۔ سوال یہ پوچھا گیا کہ مصری لوگ سادات کی پالیسیوں کی حمایت کرتے ہیں یا نہیں؟ جواب میں 99 فیصد لوگوں نے حمایت کا یقین دلایا۔ یہ بڑے جعلی قسم کے ریفرنڈم ہوتے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے بھی ریفرنڈم کا گُر مشرق وسطیٰ سے سیکھا۔ مصر میں پہلی بار صاف ستھرے الیکشن 2012ء میں ہوئے جس کے نتیجہ میں انجینئر محمد مرسی ملک کے صدر بنے۔ قاہرہ سے میرا تبادلہ دمشق ہوا۔ شام میں بھی صورتحال مصر سے مختلف نہ تھی۔ بعث پارٹی کی حکومت تھی۔ حافظ الاسد فوجی آمر تھے۔ بعث پارٹی بھی ان کے اشاروں کی منتظر رہتی تھی۔ انتخابات ہوتے ضرور تھے۔ دو تین حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں بھی تھیں۔ چند نشستیں انہیں مل جاتی تھیں لیکن 80 فیصد ووٹ بعث پارٹی ہی کو ملتے تھے۔ سرکاری ملازم اور فوجی افسر بعث پارٹی کے ممبر بن سکتے تھے لیکن اس مافیا میں شمولیت کے لیے اوپر سے منظوری آتی تھی۔ گویا بعث پارٹی سیاہ و سفید کی مالک تھی۔ شام میں گزشتہ پچاس سال سے یہی کیفیت ہے۔ اب شامی عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ عوامی آتش فشاں دو سال سے لاوا اُگل رہا ہے۔ ایک لاکھ سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں لیکن جمہوریت پسند‘ کم وسائل کے باوجود آمریت سے لڑ رہے ہیں۔ حکومت‘ اپنے ہی لوگوں کے خلاف بے دریغ‘ فضائیہ اور ٹینک استعمال کر رہی ہے لیکن شامی عوام بعث پارٹی کی جعلی جمہوریت کے خلاف سینہ سپر ہیں۔ شام سے میرا تبادلہ کینیڈا ہوا۔ وہاں انتخابات صاف شفاف اور آزادانہ ہوتے تھے۔ لیکن نہ دیگیں پکتی تھیں اور نہ ہی مینار پاکستان جیسے جلسے ہوتے تھے۔ جب میں وہاں پہنچا تو ٹروڈو‘ کئی سال سے وزیراعظم تھے۔ الیکشن ہوا تو قدامت پسند یعنی Conservative پارٹی جیتی۔ جوزف کلارک وزیراعظم بنے۔ ایک خاص بات جو مجھے آج تک یاد ہے وہ یہ کہ الیکشن والے دن کینیڈا میں تمام ملک میں شراب خانے یعنی Bars بند ہوتی تھیں کیونکہ آئندہ پانچ سال کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کرنا ضروری تھا۔ اور اب چند باتیں یونان کی جہاں میں ایک عشرہ پہلے سفیر تھا۔ یونان جمہوریت کی جنم بھومی ہے۔ انتخابات کے لیے ملک کو چند بڑے بڑے حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ پورا لاہور ایک حلقہ ہے اور اس کی قومی اسمبلی کی دس نشستیں ہیں۔ ہر پارٹی کو یونانی طریقے کے مطابق دس امیدوار کھڑے کرنے کا حق ہوگا۔ اسی طرح سے ہر ناخب (رائے دہندہ‘ ووٹر) دس امیدواروں کو ووٹ دینے کا اختیار رکھتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ناخب کے لیے ضروری نہیں کہ وہ ایک ہی سیاسی پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ دے۔ وہ بیک وقت مختلف سیاسی جماعتوں کے دس امیدواروں کو ووٹ دے سکتا ہے۔ یونان کے انتخابات میں ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ پانچ فیصد سے کم ووٹ لینے والی سیاسی جماعت کو کوئی نشست نہیں ملتی۔ ایسی چھوٹی یا کمزور جماعتوں کی جیتی ہوئی نشستیں نمبر ایک یعنی جیتنے والی پارٹی کو مل جاتی ہیں۔ اس طرح چھوٹی چھوٹی جماعتیں یا تو انتخاب لڑتی ہی نہیں یا واضح شکست کے بعد اسمبلی سے بالکل فارغ ہو جاتی ہیں۔ اور جیتنے والی سیاسی جماعت کو واضح اکثریت مل جاتی ہے اور اُسے مخلوط حکومت بنانے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس عمل سے یونان میں صرف تین چار سیاسی جماعتیں رہ گئی ہیں۔ ہمارے ہاں نئی انتخابی فہرستیں‘ تصویر اور شناختی کارڈ کا استعمال انتخاب میں دھاندلی کو کم کرے گا کیونکہ ایک ناخب ایک ہی ووٹ ڈال سکے گا اور اُس کی شناخت آسان ہوگی۔ اللہ کرے کہ 11 مئی کو ہم صحیح فیصلہ کریں اور اصلی اور کھری جمہوریت کی جانب ایک بڑا قدم اٹھائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں