"JDC" (space) message & send to 7575

دنیا کے امیرترین حکمران

چند روز قبل انٹرنیٹ پر دنیا کے امیر ترین حکمرانوں کی فہرست دیکھی تو میرا دل باغ باغ ہوگیا۔ تمام دنیا کے سب سے امیر گیارہ حکمرانوں میں سے چھ مسلمان بادشاہ، سلطان یا شہزادے ہیں۔ خوشی اس بات کی تھی مسلمان کسی بات میں تو آگے ہیں۔ اس فہرست کے مطابق دنیا کے امیر ترین فرماں روا برونائی کے سلطان ہیں جن کی ذاتی دولت بائیس (22) ارب ڈالر ہے یعنی حکومت پاکستان کی ایک سال کی آمدنی سے بھی زیادہ۔ دوسرے نمبر پر عرب امارات کے فرماں روا شیخ خلیفہ بن زاید النہیان ہیں جن کی ذاتی دولت بیس (20)ارب ڈالر ہے اور تیسرے نمبر پر برادر ملک سعودی عرب کے خادم الحرمین عبداللہ بن عبدالعزیز ہیں جن کے ذاتی اثاثے انیس (19) ارب ڈالر ہیں۔ لیکن یہ خوشی کی کیفیت بھی عارضی ثابت ہوئی۔ میں نے جب یہ خبر سنی کہ الجزائر کے صدر جناب عبدالعزیز بوتفلیقہ کو دل کا معمولی دورہ پڑا اور انہیں پیرس کے ہسپتال منتقل کردیا گیا تو افسوس ہوا آپ کو یاد ہوگا مرحوم یاسر عرفات بھی علاج کے لیے فرانس گئے تھے۔ سعودی عرب کے شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کوئی دوسال قبل علاج کے لیے امریکہ تشریف لے گئے تھے۔ افسوس اس بات کا ہوا کہ دولت اور اثاثے ہمارے مسلمان حکمرانوں کے پاس ہیں مگر اچھے ہسپتال غیرمسلموں کے پاس۔ اور یہ وہی مغربی ممالک ہیں جہاں بوعلی سینا کی طب پر کتاب عرصہ دراز تک نصاب میں شامل رہی۔ ایک دلچسپ بات یہ بھی تھی کہ گیارہ حکمرانوں کی اس لسٹ میں اثاثوں کے حساب سے سب سے پیچھے ملکہ بریطانیہ الزبتھ ہیں جن کے کل اثاثے صرف ساٹھ کروڑ ڈالر ہیں۔ چنانچہ نتیجہ یہ نکلا کہ کسی ملک کی اصل قوت اس کے حکمران کے اثاثے نہیں بلکہ اس کی صنعتی ترقی ہے اس کے ہسپتال اور یونیورسٹیاں ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ریسرچ قوموں کی طاقت کا سرچشمہ ہے۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ دنیا کے دس بہترین تعلیمی اداروں میں سے چار برطانیہ میں ہیں اور ان میں کیمبرج یونیورسٹی‘ آکسفورڈ یونیورسٹی، یونیورسٹی کالج آف لندن اور امپریل کالج شامل ہیں۔باقی چھ ادارے امریکہ میں ہیں۔ دکھ اس بات کا ہوا کہ دنیا کے اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں سے ایک بھی کسی مسلم ملک میں نہیں۔ ہرسال اسلامی ممالک سے ہزاروں بچے مغرب کے تعلیمی اداروں میں داخلہ لیتے ہیں۔ یہ بذات خود بری بات نہیں۔ لیکن دل میں یہ کسک ضرور اٹھتی ہے کہ کاش ہارورڈ، آکسفورڈ اور کیمبرج جیسی یونیورسٹیاں ہمارے ملکوں میں بھی ہوتیں۔ کیا ہمارے ہاں اعلیٰ تعلیمی اداروں کے فروغ نہ پانے کی یہ وجہ تو نہیں کہ اکثر اسلامی ممالک میں آزاد سوچ پر قدغن رہی ہے۔ ہم دوسروں پر اپنا نقطہ نظر تھوپنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ ذرا غور کیجیے کتنے اسلامی ممالک میں میڈیا مکمل طورپر آزاد ہے۔کیا خلیجی ممالک کا میڈیا اپنے حکمرانوں پر تنقید کرسکتا ہے ۔ میرے مشاہدے کے مطابق اسلامی دنیا کے چند ممالک جہاں آزادی اظہار ایک حدتک ممکن ہے ان میں ترکی پاکستان ،بنگلہ دیش اور انڈونیشیا شامل ہیں۔ آزادی ٔ اظہار کی بدولت ہی ان ممالک نے کافی حدتک فوج کی حکمرانی سے نجات پائی ہے۔ لیکن ان ممالک میں بھی سوچ کی آزادی کا سفر ابھی مکمل نہیں ہوا۔ جب میں حکمرانوں کی دولت اور علم کی دولت کے بارے میں معلومات جمع کررہا تھا تو پتہ چلا کہ دنیا بھر میں ریسرچ پر فی کس خرچ سب سے زیادہ اسرائیل خرچ کرتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے باقی ممالک میں ریسرچ قسم کی چیز نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ ریسرچ کی بدولت ہے کہ اسرائیل نے کم پانی سے زیادہ زمین Drip Irrigationکے ذریعہ سیراب کی۔ یہ ریسرچ کا پھل ہے کہ امریکہ پتھروں سے قدرتی گیس نکالنے کے قابل ہوا ہے اور ریسرچ کی معلومات کسان تک پہنچا کر مشرقی پنجاب ہمارے پنجاب کے مقابلے میں فی ایکڑ پیداوار میں آگے ہے۔ ہرسال تمام دنیا کے ممالک کی ایک فہرست چھپتی ہے کہ کون سے ممالک رہائش کے لیے بہترین ہیں اور کون سے بالکل گزارا۔ رہائش کے لیے دنیا میں سب سے اعلیٰ ملک سوئٹزرلینڈ ہے دوسرے نمبر پر آسٹریلیا ہے اور تیسرے نمبر پر ناروے۔ یہ فہرست زندگی کے مختلف زاویوں پر غوروخوض کرکے بنائی جاتی ہے یعنی عوام کو تعلیم صحت کی سہولتیں میسر ہیں یا نہیں۔ اور اگر میسر ہیں تو معیار کیسا ہے۔ سڑکیں کیسی ہیں۔ کیا قانون کی حکمرانی ہے یا نہیں۔ لوگ کس حدتک اپنے آپ کو محفوظ خیال کرتے ہیں کیا مستقبل کے حوالے سے وہ رجائیت کی دولت سے بہرہ ور ہیں یا قنوطیت کا شکار ہیں۔ اس فہرست میں پاکستان پچھتر(75)نمبر پر ہے جبکہ بھارت چھیاسٹھ 66 پر ہے۔ دوعشرے پہلے صورت حال برعکس تھی چونکہ موازنہ دولت اور مسرت کا ہورہا ہے لہٰذا ایک چونکا دینے والی بات میرے لیے یہ تھی کہ افریقہ کا بہت بڑا ملک نائیجیریا اسی 80نمبر پر ہے یعنی پاکستان سے بھی پیچھے۔ حالانکہ نائیجیریا تیل برآمد کرنے والے ممالک میں شامل ہے ۔ لیکن تمام دولت کے باوجود نائیجیریا کے لوگ عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ امن عامہ کی صورت حال مخدوش ہے اور کرپشن پاکستان سے کہیں زیادہ۔ کرپشن قوموں کو دیمک کی طرح چاٹ لیتی ہے۔ نائیجیریا کی نصف آبادی مسلمان ہے۔ اب اس بات سے انکار بھی ناممکن ہے کہ دنیا میں سب سے کم کرپشن والے ممالک اکثر وبیشتر غیرمسلم ممالک ہیں مثلاً سویڈن‘ ناروے اور ڈنمارک ۔ دنیا کے امیرترین حکمرانوں میں ایک ایسی شخصیت بھی ہے جو صرف دلوں پر حکومت کرتی ہے یعنی اس شخصیت کے پاس ملک نہیں۔ اور یہ ہیں پرنس کریم آغا خان۔ ان کا شجرہ نسب اللہ کے پاک نبیؐ سے ملتا ہے لاکھوں اسماعیلی بھائی جو کہ دنیا کے مختلف ممالک میں آباد ہیں انہیں حاضر امام کے طورپر مانتے ہیں اور ان کے دیدار کے لیے ہمہ وقت منتظر رہتے ہیں۔ اسماعیلی محنتی‘ امن پسند اور اپنے کام سے کام رکھنے والے لوگ ہیں اور اپنی انہی خوبیوں کی بدولت خوش حال بھی ہیں۔ 1995ء میں جب مَیں دو شنبے (تاجکستان) میں پاکستان کے پہلے سفیر کی حیثیت سے گیا تو اسماعیلی بھائیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ تاجکستان کے صوبہ بدخشان میں کافی اسماعیلی آباد ہیں۔ 1996ء میں پرنس کریم آغاخان تاجکستان آئے تو اسماعیلی بھائیوں کی عید ہوگئی۔ اعلیٰ حضرت تاجکستان اور افغانستان کے بارڈر پر گئے تو افغانستان اور پاکستان کے شمالی علاقوں سے آئے ہوئے ان کے بے شمار پیروکار ایک جھلک دیکھنے کے لیے موجود تھے۔ یہ میری خوش قسمتی تھی کہ دوشنبے میں اعلیٰ حضرت نے خاص طورپر مجھے ملاقات کی دعوت دی۔ میں نے آغاز ہی اس بات سے کیا کہ آپ کے خاندان کا تحریک پاکستان میں بڑا رول ہے۔ پرنس کریم آغا خان کے ساتھ ایک گھنٹہ کی یہ ملاقات میرے لیے ناقابل فراموش ہے۔ انہیں دنیا کی لمحہ لمحہ بدلتی صورت حال کا مکمل ادراک تھا۔ بعد میں مجھے ان کے معاونوں سے پتہ چلا کہ ایک ریسرچ گروپ روزانہ مفصل رپورٹ تیار کرتا ہے اور جنا ب آغا خان اس کا گھنٹوں مطالعہ کرتے ہیں۔ آغاخان فائونڈیشن تاجکستان میں بہت فعال تھی۔ کراچی کے حکیم فرشتہ اس کے انچارج تھے۔ تاجکستان میں زرعی زمین حکومت کی ملکیت تھی اور سال کے سال کسانوں کو ٹھیکے پر دی جاتی تھی۔ آغاخان فائونڈیشن نے تاجک حکومت کو مشورہ دیا کہ بدخشاں کے صوبے میں ٹھیکے کی مدت ایک سال کی بجائے پانچ سال کردی جائے۔ اس تجویز پر عمل ہوا۔ کسان زراعت میں زیادہ دلچسپی لینے لگے اور نتیجہ یہ نکلا کہ فی ایکڑ پیداوار دوگنی ہوگئی۔ جس مسلمان لیڈر کی میں بات کررہا ہوں اس کے پاس ملک نہیں لیکن علم اور عقل کی دولت ضرور ہے اور اسی وجہ سے اس کا شمار دنیا کے متمول ترین لوگوں میں ہوتا ہے۔ مسلمان ممالک کے لیے اصل چیلنج علم وفراست کو عوام الناس میں پھیلانا ہے لیکن ہمارے لیڈر اپنی ذاتی دولت پر ہی خوش ہیں۔ اسی لیے ہم کار سے لے کر ہوائی جہازتک ہرچیز باہر سے منگواتے ہیں اور علاج کے لیے بھی فرانس برطانیہ اور امریکہ جاتے ہیں۔ تو آئیے علم و دانش کی دولت عام کرکے اپنے ملک پاکستان کی ترقی معکوس کوروکیں اور عام پاکستانی کو خوش حال بنائیں۔ اسے مقتدر بنائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں