"JDC" (space) message & send to 7575

سفید بالوں والا قونصل جنرل

لیجیے عباس حیدر زیدی بھی راہی ملک عدم ہوئے۔ جنازے والے دن عباس کے بڑے بھائی اور معروف شاعر و صحافی فرہاد زیدی کہہ رہے تھے عباس مجھ سے بارہ سال چھوٹا تھا۔ پھر یہ فرمانے لگے کہ آٹھ بہن بھائیوں میں سے سات حیات ہیں اور عباس سب سے پہلے گیا ہے۔نکلتا ہوا قد، سر پر چاندی جیسے بال اور اس سفید چھتری کے تلے قہقہے بکھیرتا ہوا عباس زیدی جو بھی اسے ملتا تھا گرویدہ ہوجاتا تھا۔ شاعری، مصوری اور کرکٹ اس کے محبوب مشغلے تھے۔ وفات کے بعد میں نے مناسب سمجھا کہ اپنے مشترک دوست اور سابق سفیر رفعت مہدی کوجو نیویارک میں رہتے ہیں ،اطلاع کردی جائے۔ عباس زیدی 1990ء کی دہائی کے آخری سالوں میں نیویارک میں قونصل جنرل رہے تھے۔ رفعت صاحب کا جواب فوراً ہی آگیا۔ ای میل میں لکھا تھا کہ نیو یارک میں پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور آج بھی کہتے ہیں کہ سفید بالوں والا قونصل جنرل سب سے اچھا تھا۔ نیو یارک میں بڑی تعداد میں پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اکثر پاکستانی قونصل خانے کی مدد درکار ہوتی ہے۔ عباس بہت نستعلیق انسان تھا لیکن عوام کے لیول پر فوراً اور آسانی سے آجاتا تھا۔ مادری زبان اردو تھی مگر پنجابی، پنجابیوں سے بہتر بولتا تھا۔ قونصل خانے میں آنے والے ہر پاکستانی کے لیے اس کے دروازے کھلے رہتے اور وہ ان کی مدد کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا۔ عباس نے پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔ لیکن اس کی پہلی محبت اردو شاعری کی تھی۔ اساتذہ سے لیکر معاصر شعراء کے بے شمار شعر اسے یاد تھے۔ ایم اے کرنے کے بعد سی ایس ایس کا امتحان دیااور سیکرٹریٹ سروس میں شمولیت اختیار کی۔ 1973ء میں فارن سروس میں آیا اور تیس سال تک وزارت خارجہ سے وابستہ رہا۔ ڈھاکہ، نئی دہلی، نیویارک میں خدمات سر انجام دیں اور 2003ء میں تونس سے بطور سفیر ریٹائر ہوا۔ عمر کے آخری چار سال ایک موذی مرض کا بہت حوصلے سے مقابلہ کیا۔ جنازے والے دن مسز زہرہ زیدی کہہ رہی تھیں کہ بیماری جیت گئی اور ہم ہار گئے۔ عباس کی سب سے بڑی، پیشہ ورانہ خوبی اس کی اعلیٰ انتظامی صلاحیت تھی۔ وہ مشکل سے مشکل حالات میں بھی مسکراتا رہتا اور مسئلے کا حل نکال لیتا۔ فارن سیکرٹری شہریار خان ریٹائر ہو کر اقوام متحدہ کی طرف سے افریقہ گئے اور عباس کو ڈیپوٹیشن پر ساتھ لے گئے۔ اس کے ذمہ غالباً صومالیہ میں موجود پاکستانی فوجی دستوں سے متعلق تعلقات عامہ تھے۔ شہریار خان اس کی صلاحیتوں کے اتنے قائل ہوئے کہ عباس کی ریٹائرمنٹ کے بعد اسے پاکستان کرکٹ بورڈ میں لے آئے۔ مرحوم کے سوئم پر بے شمار لوگ آئے۔ ہر کوئی عباس کو اچھے لفظوں میں یاد کررہا تھا۔ سابق فارن سیکرٹری ریاض کھوکھر بہت افسردہ تھے۔ کہنے لگے عباس نے میرے ساتھ نئی دہلی، ڈھاکہ اور نیو یارک میں کام کیا۔ نیو یارک اور نیوجرسی میں بے شمارپاکستانی تھے۔ بڑے بڑے فنکشن کرنا ہوتے تھے۔ میں واشنگٹن میں پریشان رہتا تھا کہ یہ سب کچھ اتنے کم وقت میں کیسے ہوگا۔ نیویارک میں عباس کو فون کرکے اپنی پریشانی بیان کرتا۔ عباس بڑے آرام اور سکون سے کہتا۔ سر آپ ہر چیز مجھ پر چھوڑ دیں اور خود بے فکر ہوجائیں اور عباس کی نگرانی میں واقعی ہر فنکشن کامیابی سے سر انجام پاتا۔ غالباً 2004ء کی بات ہے۔ میں نے عباس سے کہا کہ ٹی وی پر تو کئی مجالس محرم دیکھی اورسنی ہیں لیکن بالمشافہ کسی ذاکر کو نہیں سنا۔ غالباً 7محرم کا دن تھا۔ عباس کا فون آیا کہ آج شام کو تیار رہیں میں آپ کو ساتھ لیکر مجلس سننے جائوں گا۔ چنانچہ ہم دونوں پولیس کے ایک بہت ہی سینئر افسر ،محب اسدکے گھر گئے جہاں ذاکر صاحب نے جناب عباس عملدرارؓ کا ذکر بہت دلپزیر پیرائے میں کیا۔ اہل بیت سے عقیدت ہر مسلمان کو ہے لیکن میری یہ عقیدت دمشق میں قیام کے دوران اور راسخ ہوگئی تھی۔ شاید کم لوگوں کو معلوم ہے کہ عباس اور صادقین مرحوم میں دوستی کا مضبوط رشتہ تھا۔ صادقین عظیم مصور، شاعر اور خطاط تھے اور عباس فن کا دقیق ناقد۔ 1981ء میں جب جنرل ضیاالحق کا زمانہ تھا صادقین دو ہفتے کے لیے بھارت گئے ا ور چودہ ماہ بعد واپس لوٹے۔ انہیںجنرل ضیاالحق کی پالیسیوں سے اختلاف بھی تھا۔ اب بھارت کی حکومت کو اور کیا چاہیے تھا وہ ہمیشہ ایسے پاکستانی دانشوروں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ وزیراعظم اندراگاندھی نے صادقین کو پیغام بھجوایا کہ آپ بھارت میں جب تک رہنا چاہیں رہ سکتے ہیں۔ صادقین بھی درویش آدمی تھے جو کام کرتے تھے وہ اکثر لوگوں کو تحفے میں دے دیتے تھے۔ ہوٹل میں قیام تھا۔ چند روز میں پیسے ختم ہوگئے۔ عباس کی پوسٹنگ ان دنوں دہلی میںتھی۔ صادقین کہنے لگے کہ میں نے بیرون ملک تصویریں اور میورل(Mural) بنا کر کافی زرمبادلہ پچھلے سالوں میں پاکستان بھیجا ہے۔ اس میں سے جو پیسے میرے اکائونٹ میں موجود ہیں پاکستانی ہائی کمیشن وہ مجھے دہلی میں منگوا دے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ان دنوں زرمبادلہ کے قوانین سخت ہوتے تھے۔ کیس پاکستان بھیجا گیا جواب انکار کی صورت میں آیا۔ عباس نے اس عظیم مصور کو مشورہ دیا کہ صدر ضیاالحق کو خط لکھ کر اپنا مسئلہ بیان کریں۔ صادقین عباس کا مشورہ رد نہیں کرسکتے تھے۔ چنانچہ تیر نشانے پر لگا جیسا کہ میں نے اوپر لکھا ہے، عباس کے پاس مشکل سے مشکل مسئلے کا حل ضرور ہوتا تھا۔ جیسے ہی پاکستان سے منظوری آئی صادقین صاحب کو مختصر سا خط لکھا جو من و عن پیش ہے۔ لکھتے ہیں ’’صادقین بھائی! آپ کو میرا قائل ہونا پڑے گا۔ جو خط آپ نے میرے مشورے سے لکھا اس کا فوری اثر ہوا اور کمک آگئی۔ فوراً ملیے۔آپ کا عباس‘‘ اس خط کا عکس معاصرکالم نگار حارث خلیق نے پچھلے سال ایک انگریزی ہفت روزہ میں شائع کیا تھا۔ پچھلے دو تین سال سے عباس علاج کے سلسلہ میں اکثر پاکستان سے باہر رہتا تھا۔ کوئی چار ماہ پہلے میں نے فون کرکے کہا کہ ملاقات ہونی چاہیے۔ جواب ملا کہ جلد ملاقات ہوگی۔ چند روز بعد فون آیا کہ فلاں روز شام کے کھانے کے لیے آجائو۔ میں نے چیدہ چیدہ دوستوں کو بلایا ہے۔ چنانچہ بیماری کی حالت میں عباس نے دوستوں کی میزبانی کی۔ کمر خمیدہ اور کمزور لگا لیکن مورال بلند تھا۔ حاضر جوابی اور قہقہے ویسے کے ویسے تھے۔مدعوئین میں سابق سیکرٹری خارجہ ریاض کھوکھر، ریاض محمد خان ، شفقت کا کاخیل، حارث خلیق اور سابق وزیر سیاحت نیلوفر بختیار اور ان کے میاں تھے۔ اس شام عباس نے ایک ابھرتے ہوئے شاعر علی اکبر ناطق کو خاص طور پر بلایا ہوا تھا۔ کھانے سے پہلے ناطق نے اپنی شاعری سے اقتباسات پیش کیے۔ عباس نے خاص طور پر فرمائش کرکے ناطق سے اس کی طویل مگر خوبصورت نظم سفیر لیلیٰ سنی۔ یہ مارچ کے آخر کی بات ہے۔ 7جون کو عباس کا انتقال ہوگیا۔ میرا خیال ہے کہ وہ شاندار ڈنر عباس نے دوستوں کو خدا حافظ کہنے کے لیے دیا تھا۔ ایک ایک مہمان سے گفتگو کی۔ آخری وقت تک دوستوں میں خوشیاں بانٹیں۔ عباس تمام تعصبات سے پاک تھا۔ اس کا جیتا جاگتا ثبوت زہرہ بھابھی ہیں، جو سنی العقیدہ ہیں۔ عباس نے تونس کے لوگوں کو پاکستانی قوالی سے متعارف کرایا۔ اس کا کمال یہ تھا کہ وہ بڑے سے بڑے دانشور کو بھی اپنے علم سے متاثر کرسکتا تھا اور پان والے سے بھی آسانی سے دوستی کرلیتاتھا۔ آج کل ایسی ہمہ جہت شخصیات خال خال ہی ملتی ہیں۔ نیو یارک کے پاکستانی ڈرائیور سچ کہتے ہیں کہ سفید بالوں والا قونصل جنرل سب سے اچھا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں