"JDC" (space) message & send to 7575

پاک امریکہ تعلقات کے نئے زاویے

امریکہ کے وزیرخارجہ جان کیری چندہفتے پہلے پاکستان آئے تو فیصلہ ہوا کہ دونوں ممالک کے درمیان سٹریٹیجک ڈائیلاگ کو بحال کیا جائے گا۔ یہ ڈائیلاگ چند سال پہلے بڑے زور شور سے واشنگٹن میں ہوا تھا۔ امریکہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات اب صرف انتہا پسندی کے مقابلے میں تعاون تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ اس تعلق کو کئی نئی جہتیں ملی ہیں… تعلیم، صحت ، انرجی، زراعت وہ نئے شعبے تھے جن کا دوطرفہ تعاون کے لیے انتخاب ہوا اور پھر اسامہ بن لادن کے قصے کے بعد یہ ڈائیلاگ طویل تعطل کا شکار ہوگیا۔ میرا تب بھی یہ خیال تھا اور اب بھی ہے کہ سٹریٹیجک کی اصطلاح بے محل ہے اور پاک امریکہ تعلقات پریہ قطعاً منطبق نہیں ہوتی۔ سٹریٹیجک کے معنی ہیں انتہائی اہم۔ مثلاً یہ کہنا بالکل صحیح ہوگا کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے ہمارے لیے سٹریٹیجک اہمیت کے حامل ہیں اس لیے کہ ہمارے یہ اثاثے جارحیت کو روکنے کی ضمانت ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے کوئی بھی بیرونی طاقت پاکستان پر حملہ کرنے سے پہلے کئی مرتبہ سوچے گی۔ لیکن یہ اصطلاح عام توپ یا ٹینک کے بارے میں استعمال نہیں کی جاسکتی۔ سٹریٹیجی کا دوسرا مطلب طویل مدت کی منصوبہ بندی ہے جس میں مقاصد بہت واضح ہوں اور منصوبے میں ان مقاصد کو حاصل کرنے کا روڈ میپ اور حکمت عملی شامل ہو۔ مثال کے طورپر یہ بات کہنا بجا ہوگا کہ کراچی کا امن پاکستانی معیشت کے لیے سٹریٹیجک اہمیت کا حامل ہے لیکن شہر میں کون سی قوت کہاں لگانی ہے وہ tacticsکا حصہ ہے اور tacticsبڑی حکمت عملی کے چھوٹے پرزے ہوتے ہیں۔ یہ بات ریکارڈ کا حصہ ہے کہ 1971ء میں صدرنکسن نے بھارت کو واضح پیغام دیا کہ وہ مغربی پاکستان پر قبضے کا نہ سوچے۔ سردجنگ کے دورمیں پاکستان کے مغربی حصے کی ایک سٹریٹیجک اہمیت تھی۔ جغرافیائی لحاظ سے ہمارا ملک اب بھی بہت اہم ہے لیکن سردجنگ والے زمانے میں بات اور تھی۔ 1990ء کی دہائی میں امریکہ افغانستان سے جاچکا تھا اور برلن کی دیوار گرچکی تھی‘ اب یورپ امریکہ کی توجہ کا مرکز تھا۔ پاکستان 1980ء کی دہائی کے اعلیٰ تعاون کے باوجود امریکی عقوبتوں یعنی Sanctionsکا شکارتھا۔ مجھے یاد ہے کہ پاک امریکی تعلقات سکڑ کر دوخانوں میں بند ہوگئے تھے۔ ایک خانہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے متعلق تھا اور دوسرا نارکوٹکس کے بارے میں‘ امریکہ ان دو موضوعات پر ہی بات کرتا تھا کہ پاکستان کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکا جائے اور افیون کی کاشت پاکستان سے ختم کی جائے۔ پاکستان بار بار یہ کہتا تھا کہ ہم امریکہ سے ہمہ جہتی اور طویل مدت کے تعلقات چاہتے ہیں لیکن امریکہ بہادر کی نظر میں پاکستان کی اہمیت کم ہوچکی تھی۔ اور اب پھر افغانستان سے امریکی روانگی کا وقت ہے۔ پاکستان کو خدشہ ہے کہ امریکہ اپنی نظر عنایت کسی اور طرف کرلے گا۔ امریکہ ہمیں بار بار باور کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ ہمارے اور آپ کے تعلقات ہمہ جہت ہیں اور طویل مدت کے ہیں۔ لہٰذا سٹریٹیجک نوعیت کے ہیں اور ثبوت کے طورپر سٹریٹیجک ڈائیلاگ چند ماہ میں دوبارہ شروع ہوجائے گا۔ یہاں دوسوال اٹھتے ہیں۔ اول یہ کہ آیا دسمبر 2014ء کے بعد امریکہ کے لیے پاکستان سٹریٹیجک اہمیت کا حامل ہوگا یا نہیں۔ دوم یہ کہ آیا موجودہ تعلقات کو سٹریٹیجک کہا جاسکتا ہے یا نہیں؟ دسمبر 2014ء تک تو پاکستان کی امریکہ کے نزدیک بہت اہمیت ہے۔ افغانستان میں امن کے حوالے سے بھی اور جنگ کے حوالے سے بھی۔ 2014ء کے بعد اس اہمیت میں کمی تو آجائے گی لیکن پاکستان بالکل غیراہم پھر بھی نہیں ہوگا۔ پہلی بات جواب ہمیں سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ اس خطے میں اب امریکہ کا سٹریٹیجک پارٹنر بھارت ہے پاکستان نہیں۔ لیکن ایٹمی ہتھیاروں سے لیس پاکستان امریکہ کے لیے ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے ایڈورڈ سنوڈن کے انکشافات اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ امریکہ اربوں ڈالر پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی نقل و حرکت جاننے کے لیے خفیہ طورپر خرچ کررہا ہے۔ امریکہ کو ڈر ہے کہ اسلام آباد میں طالبان کی حکومت آنے کی صورت میں اول تو پاکستان میں بھارت دشمن عناصر مضبوط ہوجائیں گے‘ دوسرے ایٹمی اثاثے غیرمحفوظ ہاتھوں میں چلے جائیں گے‘ لہٰذا پاکستان میں جمہوریت دوست حکومتوں کی حمایت ضروری ہے۔ یہ ہم نے دیکھ لیا ہے کہ جمہوری حکومت پیپلزپارٹی کی ہو یا مسلم لیگ کی‘ دونوں نے بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کی اہمیت کا ادراک کرلیا ہے۔ ایک دو عشروں میں پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہوگا۔ چین، بھارت، ایران اور افغانستان کے درمیان واقع یہ ملک بین الاقوامی طورپر اہم رہے گا۔ ہمیں ابھی یہ معلوم نہیں کہ 2014ء کے بعد افغانستان میں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ اگر وہاں طالبان طاقت وررہتے ہیں تو القاعدہ کو دوبارہ پائوں جمانے کا موقع مل سکتا ہے۔ اس صورت میں پاکستان کا تعاون مغربی ممالک کے لیے اہمیت کا حامل ہوگا۔ پاکستان نے القاعدہ کی کبھی حمایت نہیں کی۔ اب ایک چیز واضح ہے کہ امریکہ بھارت کو پاکستان پر ترجیح دیتا رہے گا اور اس بات کا ادراک پاکستان نے کئی عشرے پہلے کرلیا تھا۔ پاک چین دوستی کا قدآور درخت 1960ء کی دہائی میں لگایا گیا تھا۔ یہ عمل ہندچین جنگ کے جلد ہی بعد شروع ہوگیا تھا۔ پھر 1965ء کی جنگ کے نتیجے میں امریکہ نے بھارت اور پاکستان دونوں پر اسلحے کی فروخت کی پابندیاں عائد کردیں۔ بادی النظر میں یہی لگتا ہے کہ امریکہ نے دونوں ممالک سے برابری کا سلوک کیا‘ لیکن ان پابندیوں کا اصل ہدف پاکستان ہی تھا اس لیے کہ بھارت کے پاس تو زیادہ اسلحہ روسی ساخت کا تھا۔ سوال آج یہ بھی ہے کہ آیا پاکستان کے لیے امریکہ اب زیادہ اہمیت نہیں رکھتا؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ امریکہ اپنے فوجی بجٹ اور فی کس آمدنی کے لحاظ سے آج بھی دنیا میں آگے ہے۔ چین تیزی سے ترقی کررہا ہے جواسی رفتار سے جاری رہے تو بھی چین کی فی کس آمدنی کو امریکہ کے برابر لانے میں تقریباً پچاس ساٹھ برس لگیں گے۔ امریکہ کی اصل قوت اس کی سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی ہے۔ افغانستان میں جب بے سروسامان طالبان امریکہ کے لیے دردسر بنے تو امریکہ نے ڈرون استعمال کرنا شروع کر دیے۔ سوویت یونین کو افغانستان سے سٹنگر میزائل نے بھگایا تھا۔ ماضی قریب میں امریکہ نے Shale Gasدنیا میں پہلی مرتبہ دریافت کی ہے اور روایتی تیل کی اہمیت کم ہوگئی ہے۔ امریکہ کی اصل طاقت سائنسی ریسرچ میں ہے‘ اس کی یونیورسٹیوں میں ہے۔ اور یہ بھی نہ بھولیں کہ اقوام متحدہ میں امریکہ کی منفرد حیثیت ہے۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف ابھی تک اس کے زیراثر ہیں۔ پاکستان کی بیس فیصد سے زیادہ برآمدات امریکہ جاتی ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ دوست ملک چین کی قیادت نے چند سال پہلے ہمارے لیڈروں کو مشورہ دیا تھا کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں زیادہ بگاڑ نہ آنے دیں۔ صائب نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اب سٹریٹیجک طرز کے نہیں ہوں گے‘ لیکن امریکہ کے لیے پاکستان کی اہمیت ختم نہیں ہوگی اور شائد ہمیں امریکی سیاسی اور اقتصادی مدد کی ضرورت بھی عرصے تک رہے گی۔ دونوں ملکوں میں شک و شبہ کی فضا کے باوجود ان کے باہمی تعلقات بہت اہمیت کے حامل ہیں‘ ان میں زیادہ بگاڑ پاکستان کے مفاد میں نہیں ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں