"JDC" (space) message & send to 7575

قلا بازیاں

چند ہفتے ہوئے کہ وزارت خارجہ اور اہم پاکستانی سفارت خانوں میں نئی تقرریوں کا اعلان ہوا۔ ان میں سب سے اہم تقرری نئے فارن سیکرٹری کی تھی۔ قرعۂ فال عبدالباسط کے نام نکلا جو جرمنی میں ہمارے سفیر ہیں اور وزارت خارجہ کے سپوکس مین بھی رہے ہیں۔ فارن سیکرٹری اپنی وزارت کا انتظامی اور مالیاتی سربراہ ہوتا ہے لیکن اس سے اہم بات یہ ہے کہ وہ حکومت کا سفارتی مشیر بھی ہوتا ہے۔ پاکستان کے بدلتے ہوئے سول ملٹری تعلقات کے تناظر میں ایک زیرک اور تجربہ کار فارن سیکرٹری کا تعین ازبس ضروری ہے۔ عبدالباسط کی پیشہ ورانہ شہرت اچھی ہے لیکن سینیارٹی کے حساب سے وہ خاصے نیچے ہیں۔ موصوف ابھی گریڈ اکیس میں ہی تھے کہ اس اہم پوسٹ کے لیے منتخب ہو گئے۔ یہ بات ایسے ہی ہے کہ جنرل کیانی کی جگہ چند ماہ پہلے کسی میجر جنرل کا بطور آرمی چیف انتخاب کر لیا جاتااور مفروضہ یہ ہوتا کہ نومبر سے پہلے پہلے اسے تیسرا ستارہ لگا دیا جائے گا یعنی لیفٹیننٹ جنرل بنا دیا جائے گا۔ کیا فوج کے ساتھ ایسا سلوک ہو سکتا تھا؟ جی نہیں‘ قطعاً نہیں۔ کیا کسی جونیئر جج کو چیف جسٹس افتخار چودھری کی جگہ لگایا جا سکتا تھا؟ جی نہیں‘ قطعاً نہیں۔ اب فارن سیکرٹری کے عہدے کے لیے کسی اور افسر کی تلاش ہے۔ یہ اس حکومت کی پہلی سفارتی قلابازی ہے۔ اسلام آباد میں متعین سفارت کار فیصلہ سازی کی اس پوری کہانی سے خوب محظوظ ہو رہے ہیں۔ میرا تعلق پینتیس سال تک اس موثر ادارے سے رہا ہے۔ یہاں فیصلہ سازی ہمیشہ سوچ سمجھ کر ہوتی تھی۔ مجھے اس واقعے سے کوئی ذاتی نقصان نہیں ہوا؛ البتہ اپنی وزارت کی بے توقیری کو دیکھ کر دُکھ ضرور ہوا اور سوچا کہ اس معمہّ کی وجوہ تلاش کی جائیں کہ ایک اہم وزارت میں عجلت میں غلط فیصلے کیوں کئے گئے۔
اسی دورانیے میں بھارت کے لیے ایڈیشنل سیکرٹری ایڈمنسٹریشن ابنِ عباس کا بطور ہائی کمشنر انتخاب ہوا۔ ابن عباس اس سے پہلے نیوزی لینڈ میں ہائی کمشنر تھے اور نئی دہلی میں بھی کام کر چکے ہیں۔ سلمان بشیر‘ جو آج کل نئی دہلی میں ہائی کمشنر ہیں‘ کے بارے میں موجودہ حکمرانوں کا خیال ہے کہ وہ بھارت کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ نہیں رکھتے۔ سلمان بشیر کا کنٹریکٹ جون 2014ء تک تھا مگر انہیں واپس بلایا جا رہا ہے چنانچہ ابن عباس کی تجویز بھارتی حکومت کو چند ہفتے پہلے بھیجی گئی۔ بھارت کی حکومت نے اپنی منظوری‘ جسے سفارتی زبان میں ایگریما کہا جاتا ہے‘ بھجوا دی ہے۔ اب ہماری حکومت کو خیال آیا ہے کہ نئی دہلی کے لیے مناسب تر شخص کوئی اور ہے۔ یہ ہماری بھاری مینڈیٹ والی حکومت کی دوسری سفارتی قلابازی کہی جا سکتی ہے۔
لندن کی سفارت بھی کئی لحاظ سے بے حد اہم ہے۔ وہاں ابھی تک واجد شمس الحسن سفارت کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ موصوف زرداری صاحب کے بے حد وفادار تھے۔ اُن کی جگہ کامران شفیع کا نام تجویز ہوا۔ کامران شفیع ایک زمانے میں پیپلز پارٹی کے جیالے تھے۔ آج کل مسلم لیگ کے متوالے ہیں۔ لکھتے خوب ڈٹ کے ہیں۔ فوج میں بھی خدمات سر انجام دیں۔ پھر صحافت کی طرف آ گئے۔ بینظیر کے دور میں لندن میں پریس کونسلر یا منسٹر تھے؛ چنانچہ لندن کے لیے اُن کا انتخاب موزوں تھا کہ وہاں کے سسٹم سے بخوبی واقف ہیں‘ لیکن اخبار کی خبر ہے کہ اب یہ فیصلہ بھی واپس لے لیا گیا ہے۔ یہ ہماری حکومت کی تیسری سفارتی قلابازی ہے۔
اب آئیے اس بات کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ کیوں ہوا۔ مُلک اور حکومت کا امیج کیوں خراب ہوا۔ سفارت کار اپنی حکومت کے غلط فیصلوں کا دفاع بھی اچھے انداز میں کرنا جانتے ہیں؛ چنانچہ فارن سیکرٹری والی قلا بازی کے بارے میں فارن آفس کے کچھ لوگوں سے پوچھا تو جواب ملا کہ گریڈ 22کی پوسٹیں حال ہی میں کم کر دی گئی ہیں۔ اس لیے عبدالباسط کی پروموشن ممکن نہ تھی لہٰذا اب موجودہ سپوکس مین اعزاز چودھری کا نام زیر غور ہے جو اس وقت ہیڈ کوارٹر پر موجود افسروں میں سب سے سینئر ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ شروع ہی میں اعزاز چودھری کا انتخاب کیوں نہ کیا گیا جبکہ اُن کا شمار اچھے افسروں میں ہوتا ہے؟ اس وقت سینیارٹی کے حساب سے چین میں ہمارے سفیر مسعود خالد سب سے اوپر ہیں‘ دوسرے نمبر پر کینیڈا میں ہائی کمشنر میاں گل اورنگزیب ہیں۔ انہیں اس عہدہ کے لیے کیوں مناسب نہیں سمجھا گیا؟
یہ پہیلی اتنی آسان نہیں۔ جب اخبار میں یہ پڑھا کہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز صاحب عبدالباسط کی بطور فارن سیکرٹری تقرری سے خوش نہیں ہیں تو ذہن میں یہ سوال اُٹھا کہ کیا یہ فیصلہ سرتاج صاحب سے بالا بالا یعنی ان کے مشورے کے بغیر کر لیا گیا؟ فارن آفس میں وہ کون شخص ہے جس کی وزیر اعظم تک براہ راست رسائی ہے؟ اور مزید یہ کہ فارن سیکرٹری جیسے اہم عہدے کے لیے فیصلہ شفاف طریقے سے کیوں نہ ہو سکا؟
فارن آفس اور اس کے باہر اکثر باخبر لوگ کہتے ہیں کہ مشیر خارجہ اور سپیشل اسسٹنٹ ایک صفحے پر نہیں ہیں۔ مشیر خارجہ کا اس اہم فیصلہ میں شامل نہ ہونا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وزارت خارجہ کے سینئر لوگوں میں ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ میرے لیے یہ امر یقینا باعثِ تشویش ہے اور ایک رائے یہ بھی سننے میں آئی ہے کہ عبدالباسط کا فیصلہ اس لئے بھی واپس لیا گیا کہ اُن سے سینئر افسران اعلیٰ عدلیہ کے پاس پہنچ سکتے تھے۔ کیا سچ ہے اور کیا غلط‘ اس سے قطع نظر اس تمام کہانی نے مُنہ کا ذائقہ ضرور خراب کیا ہے۔ یہ مسلم لیگ کا تیسرا دورِ حکومت ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ یہ بہت کُچھ سیکھ گئے ہوں گے۔ 
شنید یہ ہے کہ ابنِ عباس کی جگہ اب عبدالباسط کا نام بھارت کے لیے تجویز کیا جا رہا ہے۔ یہ فیصلہ اپنے تئیں ٹھیک لگتا ہے‘ لیکن دانا اور ناداں دونوں ایک ہی فیصلے پر پہنچتے ہیں‘ مگر ناداں وہی کام کافی گڑ بڑ کے بعد کرتا ہے ؎
 
آنکہ دانا کند‘ کند ناداں
لیک بعد از خرابی بسیار
 
اگر یہی فیصلہ شروع میں کر لیا جاتا تو ملک بھی خفت سے بچ جاتا اور ابن عباس کی پوزیشن بھی خراب نہ ہوتی۔
کامران شفیع کے بارے میں شنید یہ ہے کہ چونکہ وہ ایک ادارے کے خلاف لکھتے رہے ہیں چنانچہ اس ادارے کو ان کی تقرری پر اعتراض ہے۔ تو کیا یہ ممکن نہ تھا کہ اُس ادارے سے پیشگی مشورہ کر لیا جاتا؟ میرے دوست اور معاصر کالم نگار افتخار مرشد نے پچھلے ماہ لکھا تھا کہ سفیر ملک کے تمام اداروں کی نمائندگی کرتا ہے اور کامران شفیع چونکہ ایک ادارے پر تنقید کرتے رہے ہیں لہٰذا اُن کو بطور ہائی کمشنر لندن بھیجنا درست فیصلہ نہیں ۔ افتخار مرشد کی بات میں وزن ہے۔ لیکن حکومت نے بروقت اس بات کا ادراک کیوں نہیں کیا؟ یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے۔
یہ سب حماقتیں جو ہم سے سرزد ہوئی ہیں‘ ان میں نہ عبدالباسط کا کوئی قصور ہے نہ ابن عباس اور نہ ہی کامران شفیع کا۔ ویسے اپنی غلطی کا ادراک کر کے متبادل راستہ اختیار کر لینا بھی دانش مندی کی نشانی ہے اور تازہ ترین فیصلے پہلے فیصلوں سے بہتر ہیں۔ اگر مشیر خارجہ، سپیشل اسسٹنٹ اور فارن سیکرٹری باہمی مشوروں سے متفقہ فیصلے کرتے تو ہم اس صورتحال سے بچ جاتے ۔
جناب وزیراعظم! اس حساس اور اہم وزارت کو ایک ہمہ وقتی وزیر خارجہ کی ضرورت ہے‘ لہٰذا آپ کسی موزوں چودھری ظفر اللہ خان یا ذوالفقار علی بھٹو یا خورشید محمود قصوری کو تلاش کیجیے‘ بصورت دیگر اسی طرح کی سفارتی قلا بازیاں لگتی رہیں گی اور ملک کی جگ ہنسائی ہوتی رہے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں