"JDC" (space) message & send to 7575

پنجاب ‘پگڑی اور پنجابی

ایک زمانے میں پگڑی پنجاب کی پہچان بھی تھی اور شان بھی۔ پنجابی ایک دوسرے کو بھائی بنانے کے لیے پگڑیاں تبدیل کرتے تھے۔ اٹک سے لے کر گڑگائوں تک پنجابی بولی جاتی تھی۔ اب یہ صورت حال یکسر تبدیل ہو چکی ہے، پنجاب میں اب پگڑی باندھنے والے اقلیت میں ہیں۔ پنجاب تین حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے ۔۔۔ مغربی یعنی پاکستانی پنجاب والوں کا اوڑھنا بچھونا اب اردو ہے ، ہندوستانی پنجاب کے بھی حصے بخرے ہو چکے ہیں، پنجاب والے پنجابی پر قائم ہیں لیکن ہریانہ کے پنجابیوں نے ہندی کو اپنا لیا ہے اور دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ان تینوں اکائیوں میں اشرافیہ کے بچے انگریزی بولتے ہیں۔ 
گزشتہ ماہ گاندھی جی کے پوتے راج موہن گاندھی پنجاب سے متعلق اپنی کتاب کی رونمائی کے لیے اسلام آباد آئے تو میں بھی انہیں سننے گیا۔موصوف اچھا بولتے ہیں اور پاک ہند امن کے لیے کوشاں ہیں۔ کہنے لگے کہ ان کا بچپن دہلی میں گزرا۔ 1947ء سے پہلے کے دہلی شہر میں پنجابی اقلیت میں تھے۔ آزادی کے بعد مغربی پنجاب سے اتنے مہاجر آئے کہ دہلی میں اب اکثریت پنجابیوں کی ہے اور یہی حقیقت پروفیسر راج موہن گاندھی کی پنجاب سے دلچسپی کا سبب بنی۔ ان کی نئی کتاب اورنگزیب کی وفات سے 1947ء تک کے پنجاب کی تاریخ ہے۔ 
پروفیسر گاندھی کی تقریر میں چند اہم باتیں ایسی تھیں جو ذہن میں محفوظ ہو گئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب چونکہ مذاہب اور قبائل کے لحاظ سے متنوع تھا لہٰذا باہر کے لوگوں کے لیے اس تقسیم کا فائدہ اٹھانا آسان تھا۔ پنجاب کے فیصلے جب بھی غیر پنجابیوں نے کیے ، پنجاب کو لامحالہ نقصان ہوا۔ دوسری دلچسپ حقیقت جو پروفیسر صاحب نے سامعین کے ساتھ شیئر کی وہ یہ تھی کہ کس طرح انگریز نے 1849ء میں پنجاب پر قبضے کے بعد چند برسوں میں پنجابیوں کے دل جیت لیے۔ انگریزوں نے جب پنجاب پر قبضہ 
کرنا چاہا تو اس صوبے کے لوگ ایک مرتبہ پھر تقسیم شدہ تھے ، مسلمان سکھا شاہی سے تنگ آئے ہوئے تھے۔ لہٰذا انگریزوں کے قبضے کے خلاف صرف سکھوں نے جم کر لڑائیاں لڑیں جبکہ پنجاب کے مسلمان خاصی حد تک لاتعلق نظر آئے۔ مسلمانوں میں سے صرف رائے احمد خان کھرل نے چک جھمرہ کے قریب انگریزوں کے خلاف جنگ لڑی ورنہ مسلمانوں کی اکثریت نے بالعموم انگریز کو اپنا نجات دہندہ سمجھا۔ انگریزوں نے آتے ہی تمام پنجاب میں مالیہ کم کردیا۔ دیہی آبادی کے لیے یہ فیصلہ بہت خوش کن تھا۔ انگریز افسروں نے پنجاب آتے ہی یہاں کے فیوڈل مزاج کو سمجھا۔ انگریز افسر عام طور پر اور ڈپٹی کمشنر خاص طور پر پنجابی زبان جانتے تھے اور بڑے بڑے زمینداروں کے ساتھ ذاتی رابطے رکھتے تھے۔ 1857ء میں دہلی اور میرٹھ میں جنگ آزادی کی چنگاری بھڑکی تو پنجابی اشرافیہ نے بشمول ہندو سکھ اور مسلمان انگریز کا ساتھ دیا۔ آٹھ سال کے مختصر عرصے میں پنجابیوں کو اپنے ساتھ ملا لینا انگریز کا کارنامہ تھا۔ 
پروفیسر گاندھی کی باتوں میں مجھے تعصب کم اور منطق زیادہ نظر آئی۔ مثلاً انہوں نے اس بات کا اقرارکیا کہ 1940ء کے بعد قائداعظم نے پنجابی مسلمان کے مسئلے کا خوب ادراک کیا جبکہ کانگریس اس مسئلے کو صحیح طور پر سمجھنے سے قاصر رہی۔ متحدہ پنجاب میں مسلمان قدرے اکثریت میں تھے لیکن ہندو چونکہ تعلیم میں آگے تھے لہٰذا سرکاری عہدوں میں ان کا حصہ ہندو آبادی کے تناسب سے کہیں زیادہ تھا۔ پنجاب میں یونینسٹ پارٹی کی حکمرانی تھی۔ یونینسٹ پارٹی سیکولر تھی اور اس میں ہندو، مسلمان، سکھ سب شامل تھے۔ یونینسٹ پارٹی پنجاب کے ایک بڑے لیڈر میاں فضل حسین تھے جنہیں انگریز نے سرکا خطاب بھی دیا تھا۔ میاں فضل حسین نے مطالبہ کیا کہ سرکاری ملازمتوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ کی تعداد میں مسلمانوں کا کوٹہ ہونا چاہیے۔ کانگریس کا موقف یہ تھا کہ تعلیمی اداروں میں داخلے اور سرکاری ملازمتیں صرف اور صرف میرٹ کی بنیاد پر دی جا سکتی ہیں۔ مسلم لیگ نے میاں سر فضل حسین کی ڈیمانڈ کی حمایت کی اور یوں مقبولیت کا پانسہ پنجاب میں پلٹنے لگا۔ کانگریس پیچھے رہ گئی۔ قائداعظم اور مسلم لیگ پہلی مرتبہ پنجاب میں مسلمانوں کے صحیح نمائندہ کے طور پر اُبھرے۔ 
1947ء میں پنجاب اور بنگال تقسیم ہوئے ، لیکن سب سے زیادہ قتل و غارت پنجاب میں ہوئی۔ پنجابیوں نے ایک دوسرے پر ظلم ڈھائے ، ان دردناک دنوں کی مناسبت سے مشہور شاعرہ امرتا پریتم نے شہرۂ آفاق پنجابی نظم لکھی جس کا ایک مصرع پوری ٹریجڈی کا ترجمان ہے ع 
کسے نے پنجاں پانیاں وچ دِتا زہر رَلا 
(کسی نے پانچوں دریائوں کے پانی میں زہر گھول دیا) 
اور یہ بھی حقیقت ہے کہ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کا نقصان بھی زیادہ تر پنجاب ہی کو ہوا لیکن مغربی پنجاب آج دل و جان سے پاکستان کا حصہ ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پاکستان کے وسائل اور عہدوں میں پنجاب کو حصہ بھی بقدر جثہ ملا۔ فیصل آباد پاکستان کا مانچسٹر بنا اور پنجابی تاجر کسان اور ملازمت پیشہ لوگ ملک کے طول و عرض میں نظر آنے لگے۔ لہٰذا پنجابی مسلمان نے پنجابیت کی بجائے پاکستانیت کو اپنا لیا۔ پنجابی مڈل کلاس اب اردو بولنے لگی۔ 
بارہ چودہ سال پہلے کی بات ہے کہ میں یونان میں پاکستان کا سفیر تھا۔ وہاں بھارت کے سفیر سردار گردیپ سنگھ بیدی تھے۔ ان کا تعلق راولپنڈی کے معروف سکھ گھرانے سے تھا۔ ان کی باتوں سے لگتا تھا کہ پاکستان بننے سے خاصے شاکی ہیں۔ آدمی اچھے تھے، میری ان سے دوستانہ نوک جھونک چلتی رہتی تھی۔ ایک دن مذاق سے مجھے کہنے لگے کہ آپ لوگوں نے پنجاب کو دو ٹکڑے کر دیا۔ میں نے جواب دیا ، بیدی صاحب آپ نے اُسے تین ٹکڑے کردیا۔ ہنس کر کہنے لگے کہ مشرقی پنجاب میں بھی سکھوں کی واضح اکثریت نہ تھی۔ ہندو اور سکھ دونوں کو پنجاب پر حکومت کا شوق تھا، لہٰذا ہریانہ بن گیا اور دونوں نے اپنے اپنے صوبوں میں حکومت کا شوق پورا کر لیا۔ 
1992ء کی بات ہے ، میں فارن آفس میں ڈی جی تھا۔ نجانے کیوں ارباب اختیار کو خیال آیا کہ میری تعلیم ہنوز نامکمل ہے ، لہٰذا مجھے نیشنل ڈیفنس کالج بھیج دیا گیا۔ ڈیفنس کالج اُن دنوں قائداعظم یونیورسٹی سے منسلک تھا اور ایک سال کی پڑھائی کے بعد ایم ایس سی ڈیفنس اینڈ سٹریٹیجک سٹڈیز کی ڈگری ملتی تھی۔ کوئی تحریری امتحان نہیں ہوتا تھا۔ سارا سال شرکاء کے زبانی سوال اور جواب پرکھے جاتے تھے یعنی ان کی بات چیت‘ اچھے سوال پوچھنے کی صلاحیت اور مدلل تقریر کرنے کی قابلیت پرکھی جاتی تھی۔ البتہ کورس کا ایک حصہ تقریباً پچاس صفحے پر مشتمل ایک ریسرچ کا مقالہ ہوتا تھا۔ مجھے اس بات پر ریسرچ کرنے کو کہا گیا کہ ہندوستانی پنجاب آزادی کی طرف جا رہا ہے یا نہیں۔ کئی مہینے کی ریسرچ کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ خالصتان نہیں بنے گا۔ اس وقت کئی لوگ میرے اس استنتاج سے مختلف رائے رکھتے تھے ، لیکن میں اس نتیجے پر کافی محنت کے بعد پہنچا تھا اور آج بھی اسی رائے پر قائم ہوں۔ اس موضوع کے لیے ایک اور کالم درکار ہے جو پھر کبھی سہی۔ 
غالباً 1990ء کے لگ بھگ کی بات ہے ، پنجاب میں مسلم لیگ کی حکومت تھی اور مرکز میں پیپلز پارٹی کی۔ دونوں کی آپس میں بنتی نہ تھی مسلم لیگ والوں کو نجانے کیا سوجھی ، لاہور میں جلوس نکلا ، شرکاء نے بینرز اٹھائے ہوئے تھے ؎ 
جاگ پنجابی جاگ 
تیری پگ نوں لگ گیا داغ 
لیکن شکر ہے کہ مسلم لیگ کو جلد سمجھ آ گئی کہ یہ نعرہ چلنا مشکل ہے اس لیے کہ پنجابیت پر پاکستانیت غالب آ چکی ہے۔ 
مجھے کبھی کبھی یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ دونوں طرف کے پنجاب میں لوگوں کے تحت الشعور میں ایک احساسِ گناہ موجود ہے کہ 1947ء میں ہم نے ایک دوسرے پر بہت ظلم ڈھائے اور دونوں طرف کے قائدین اس احساس جرم کی تلافی کرنا چاہتے ہیں۔ پنجابیوں کو غصہ بھی جلد آتا ہے اور اُتر بھی جلد جاتا ہے۔ چودھری پرویزالٰہی نے اپنے ہم منصب کیپٹن امریندر سنگھ سے دوستی کی تو شہباز شریف چند ہفتے پہلے پرکاش سنگھ بادل کو جپھیاں ڈال کر آئے ہیں۔ دونوں طرف سے مفاہمت کی خواہش خوش آئند ہے۔ اس خطے کو امن‘ تعلیم اور ترقی کی ضرورت ہے۔ 
میری خادم اعلیٰ سے گزارش ہے کہ واہگہ سے ننکانہ صاحب تک موٹروے بنانے کی منظوری دیں۔ انٹرنیشنل ہوٹل چینز کو ننکانہ صاحب میں فائیوسٹار ہوٹل تعمیر کرنے کی دعوت دیں۔ یہ عمل امن کی طرف ایک بڑا قدم ہوگا۔ سکھ ایک خدا کو مانتے ہیں۔ گرنتھ صاحب میں بابا فرید گنج شکرؒ کے اشعار موجود ہیں اور امرتسر کے گولڈن ٹیمپل کی بنیاد حضرت میاں میرؒ نے رکھی تھی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں