"JDC" (space) message & send to 7575

ویت نام کی یادیں

ہمارے کالج کے زمانے میں سُرخے ایک نعرہ اکثر لگاتے تھے'' خونِ ویت نام سے ایشیا سُرخ ہے‘‘۔ میرے دل میں اس زمانے سے خواہش تھی کہ وہ ملک جس نے سپر پاور کو پسپائی پر مجبور کیا، ضرور دیکھنا چاہیے۔ میری خوش قسمتی تھی کہ 1997ء میں برما میں سفیر متعین ہوا اور برما میں پاکستانی سفیر کے پاس ان دنوں ویت نام کا چارج بھی ہوا کرتا تھا، گویا ایک ٹکٹ میں دو مزے ہو گئے۔ 11نامزد سفیر پوسٹنگ پر روانہ ہونے سے پہلے صدر مملکت کو مل کر جاتے ہیں تاکہ ان سے ضروری ہدایات لے سکیں اور ویسے بھی سفیر باہر کے ملک میں ریاست پاکستان کا نمائندہ ہوتا ہے جس کی اسناد پر صدر مملکت کے دستخط ہوتے ہیں ؛چنانچہ میں صدر فاروق لغاری مرحوم کو ملنے گیا۔ اللہ کریم انہیں غریق رحمت کرے، بہت ذہین اور پڑھے لکھے انسان تھے۔ برما اور ویت نام کے بارے میں ان کی معلومات مکمل طور پر اَپ ٹو ڈیٹ تھیں۔ کہنے لگے کہ ویت نام میں میڈ اِن پاکستان شوگر پلانٹ بیچنے کا بریک تھرو ہو گا۔ رنگون، جہاں روزانہ ہمارے ساون والا سماں ہوتا ہے، ان دنوں جرنیلوں کے شکنجے میں تھا۔ میں نے سیٹل ڈائون ہونے کے بعد جلد ہی ہنوئی کا پروگرام بنایا تاکہ اسنادِ سفارت بھی پیش کر دوں اور جو ذمہ داری صدر مملکت نے سونپی تھی اس کا بھی کچھ پتہ لگائوں۔ میں پہلی مرتبہ ویت نام جا رہا تھا اور وہاں ہماری نمائندگی صرف غیر مقیم سفیر کی حد تک تھی۔ رنگون اور ہنوئی کے درمیان فیکس اور فون سے ہی رابطہ ممکن تھا۔ اس لیے کہ برمی جرنیلوں نے انٹر نیٹ کو شجرِ ممنوعہ قرار دے رکھا تھا۔ ہنوئی میں ہوٹل بکنگ اور ٹرانسپورٹ کا مسئلہ بھی تھا۔ رنگون میں مصر کے سفیر عبدالرحیم شبلی میرے ساتھ ٹینس کھیلا کرتے تھے۔ انہیں اپنا
پرابلم بتایا۔ کہنے لگے، ہمارا ہنوئی میں سفارت خانہ ہے وہ لوگ سب انتظام کر دیں گے، تم فکر نہ کرو اور ہنوئی روانہ ہو جائو۔ میں براستہ بنکاک ہنوئی پہنچا تو ائیر پورٹ پر نہ صرف پروٹو کول والے بلکہ مصری سفیر بھی استقبال کے لیے موجود تھے۔ مصری سفیر اپنی کار میں مجھے ہوٹل تک چھوڑنے آئے اور اگلے روز کھانے پر مدعو کر کے رخصت ہوئے۔ ہنوئی شہر بہت ہی سر سبز ہے۔ شہر میں کئی جھیلیں ہیں لیکن سب سے زیادہ نوٹ کرنے والی بات موٹر سائیکلوں اور سکوٹروں کی تعداد تھی جو کاروں سے کہیں زیادہ تھی۔ سائیکلوں اور سکوٹروں کو اکثر خواتین چلا رہی تھیں۔ ٹریفک میں ڈسپلن تھا۔ ہنوئی ہوٹل، جہاں میرا قیام تھا، ایک بڑی جھیل کے پاس واقع ہے۔ مصری سفیر نے اپنے اثرو رسوخ سے ہوٹل کا اچھا سا سُوٹ ایک کمرے کے کرائے میں لے دیا تھا۔ رات کو کھانا کھانے گرائونڈ فلور پر آیا تو لابی میں خوب رونق تھی۔ پتہ چلا کہ شہر کا ایک مشہور نائٹ کلب اسی ہوٹل میں ہے اور لوگ کلب کے لیے بڑی تعداد میں آ رہے ہیں۔ اگلے روز میں نے مصری سفیر کا بے حد شکریہ ادا کیا اور اشارۃً ہوٹل کی رونق کا بھی ذکر کیا۔ میرے اشارے کو فوراً سمجھ گئے اور کہنے لگے کہ یہاں اچھے ہوٹل کا کلب کے بغیر تصور ہی نا ممکن ہے۔
پروٹوکول والوں کا فون آیا کہ وزیر خارجہ کل آپ سے ملیں گے اور پرسوں کی تقریب اسناد کے بارے میں چیف آف پروٹوکول آپ کو مکمل بریفنگ دیں گے۔ ہر ملک میں یہ رواج ہے کہ اسناد کی ایک کاپی وزیر خارجہ کو پیشگی دی جاتی ہے۔ ان مراحل سے گزر کر میں اصلی تقریب کے لیے ذہنی طور پر تیار تھا۔ اسناد پیش کرنے کی تقریب پاکستان کے مقابلہ میں خاصی سادہ تھی۔ اسناد میں نے خاتون وائس پریذیڈنٹ کو پیش کیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں قومی لباس یعنی شیروانی اور شلوار پہن کر گیا تھا۔ اسناد پیش ہو چکیں تو محترمہ سے بات چیت کا دور ہوا۔ ٹھنڈے مشروبات کے بعد چائے کا دور چلا۔ میں نے محترمہ کے یہ بھی گوش گزار کر دیا کہ پاکستان اچھے شوگر پلانٹ بناتا ہے اور سنا ہے کہ ویت نام کو ایسی مشینری کی ضرورت ہے کیونکہ آپ کے ملک میں گنا وافر مقدار میں پیدا ہوتا ہے، لہٰذا جانے سے پہلے میری خواہش ہو گی کہ انڈسٹری کے وزیر کو مل لوں۔ مصری سفیر سے ذکر کیا کہ میں انڈسٹری کے وزیر کو مل کر جائوں گا تو وہ ہنسنے لگے اور پھر کہا کہ اس ملک میں وزیروں سے ملنا اتنا آسان نہیں، اس کے لیے ایک نوٹ لکھ کر فارن آفس بھیجنا پڑتا ہے۔ عام طور پر فارن آفس کارروائی کرنے میں ایک دو ماہ لگا دیتا ہے، لہٰذا آپ اپنا زیادہ دھیان ہنوئی کی سیر کی طرف رکھیں۔ بات ان کی ٹھیک تھی۔ وہ لوکل تجربہ بھی رکھتے تھے۔ سرد جنگ کا زمانہ گزر چکا تھا۔ اقتصادی طور پر ویت نام سوشلزم کے شکنجے سے نکل رہا تھا لیکن حکمران سیاسی پارٹی اب بھی سوشلسٹ تھی اور غیر ملکیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔ لہٰذا ویت نامی وزراء کا سفیروں سے رابطہ بہت ہی کم تھا۔ 
میں نے پروٹوکول والوں سے کہا کہ ہوچی مِن کے عجائب گھر جانا چاہتا ہوں تاکہ اس عظیم لیڈر کو حنوط شدہ شکل میں دیکھ سکوں اور میں دیکھ کر حیران ہو رہا تھا کہ کس طرح اس دھان پان شخص نے ایک سپر پاور کو ناکوں چنے چبوا دئیے۔ میری اس عظیم لیڈر میں دلچسپی کو بھانپ کر پروٹوکول افسر نے پوچھا کہ ہوچی مِن کا جنگ کے ایام والا دفتر بھی پاس ہی ہے، آپ وہاں جانا پسند کریں گے؟ میں نے فوراً ہاں کر دی۔ تھوڑی دیر میں ہم ایک بہت بڑے پارک میں تھے۔ پارک میں ہی عظیم لیڈر کا لکڑی سے بنا ہوا دفتر تھا۔ دفتر میں کل تین کمرے تھے۔ فرسٹ فلور پر سیکرٹری کا دفتر تھا اور ساتھ ایک مہمانوں کا ویٹنگ روم۔ اوپر پہلی منزل پر لیڈر کا آفس تھا۔ لکڑی کی عمارت زمینی رقبہ کے لحاظ سے تین مرلہ سے زائد نہ تھی۔ کتنی سادگی تھی اس لیڈر کی زندگی میں اور کتنا خلوص تھا اس کی لیڈر شپ میں۔ وہ تاریخ کے صفحات پر انمٹ نقوش چھوڑ گیا۔ مصری سفیر کہنے لگے کہ وزیر سے ملنے میں کئی ہفتے لگیں گے لہٰذا آپ اس ملاقات کو اگلی وزٹ پر اٹھا رکھیں اور ان کا مشورہ صائب تھا۔ اگلی مرتبہ میں ہوٹل سوفیٹل (SOFITAL)میں ٹھہرا۔ وہاں کمرے میں آویزاں ایک نوٹس مجھے یاد ہے جس میں لکھا تھا کہ ہوٹل میں ہیلتھ کلب موجود ہے لیکن اگر وہاں نہیں جانا چاہتے تو مساج کرنے والے کمرے میں بھی بلائے جا سکتے ہیں۔ ہوٹل کا سوئمنگ پول شاندار تھا۔ بے شمار مغربی سیاح اور سرمایہ کار وہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ وہ نئے ویت نام میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کر رہے تھے۔ 
اس بار انڈسٹری کے وزیر سے ملاقات طے تھی۔ صدر فاروق لغاری والی بات بالکل درست تھی۔ وزیر موصوف نے کہا کہ ہمیں شوگر پلانٹ درکار ہیں۔ آپ اپنی حکومت کو اطلاع کر دیں کہ ہمارا ایک وفد جلد ہی اس سلسلہ میں پاکستان کا دورہ کرے گا۔ میں نے اپنے دوست مصری سفیر سے پوچھا کہ اتنے زیادہ مغربی سرمایہ کار ویت نام کیوں آ رہے ہیں؟ کہنے لگے، اجیر کی تنخواہ کم ہے، لوگ محنتی ہیں اور جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ 
اس مرتبہ بیگم صاحبہ نے ایک شاپنگ لسٹ بھی ہاتھ میں تھما دی تھی۔ ویت نام میں لیقر (LAQUEAR)کا فرنیچر بہت اچھا بنتا ہے۔ ڈائیننگ ٹیبل اور بستر کی چادریں بھی شاندار بنتی ہیں، ان کی خاص بات دیدہ زیب کشیدہ کاری ہے۔ اب فرنیچر ساتھ لے جانا تو ناممکن تھا، لہٰذا دیواروں پر آویزاں کرنے کے لیے لیقر کے چند خوبصورت ڈیکوریشن پیس خریدے۔ ان میں سیپیوں سے دلش پھول یا پرندے بنائے جاتے ہیں۔ ویت نام کا وفد پاکستان آیا۔ بعد میں ویت نام نے اسلام آباد میں سفارت خانہ کھولا اور پاکستان نے ہنوئی میں۔ ہنوئی میں واپس آیا تو تبادلے کا حکم میر منتظر تھا۔ ویت نام کا اچھی یادیں آج بھی میرے دل میں ہیں اور وہ دُبلا پتلا لیڈر جس نیے آہنی عزم اور دلیری سے قوم کو فتح سے ہم کنار کیا۔ اس کا حنوط شدہ جسم اب بھی میری نظروں کے سامنے اکثر گھوم جاتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں