"JDC" (space) message & send to 7575

عوامی قیادت

جمہوریت کی بڑی خوبی یہ ہے کہ اس طرز حکومت میں تمام شہری ووٹ کے ذریعے حکومت منتخب کرنے کا حق رکھتے ہیں۔سعیدہ وارثی جو برطانیہ کے اعلیٰ ترین مناصب تک ماضی قریب میں رسائی حاصل کر چکی ہیں‘ ان کے والد نے برطانیہ میں ایک فیکٹری مزدور کے طور پر آغاز کیا۔ساجد جاوید ابھی حال ہی میں برطانیہ کے کلچر کے وزیر بنے ہیں۔ ان کے والد برسٹل میں بس ڈرائیور تھے۔نریندر مودی جو اب ہندوستان میں وزارت عظمیٰ کے قوی امیدوار ہیں‘ بچپن میں ریلوے سٹیشن پر مسافروں کو چائے پلاتے تھے۔ صدر رچرڈ نکسن کے والد ایک چھوٹی سی گراسری شاپ چلاتے تھے۔جمہوری نظام میں آہستہ آہستہ پدرم سلطان بود والی روایت دم توڑ جاتی ہے اور ووٹر اس بات کو اہمیت دیتا ہے کہ امیدوار کی تعلیمی صلاحیت کیا ہے‘ اس کی شخصیت کیسی ہے‘ ریکارڈ کیسا ہے‘ کس پارٹی سے تعلق ہے؟ 
میرے ذہن میں ایک سوال جو بار بار اٹھتا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان میں مڈل کلاس اور غریب طبقے کی قیادت کیوں سامنے نہیں آئی۔اگر سعیدہ وارثی کے والد برطانیہ جانے کی بجائے گوجر خان میں ہی رہتے تو کیا محترمہ پاکستان میں کوئی سیاسی مقام حاصل کر پاتیں؟ اگر چودھری محمد سروربرطانیہ نہ جاتے اور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ہی رہتے تو کیا وہ گورنر پنجاب بن پاتے؟ اگر ساجد جاوید کے والد برسٹل میں بس ڈرائیوری کے بجائے راولپنڈی میں ویگن چلاتے تو کیا ان کا بیٹا وزیر بن سکتا تھا؟ ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ پاکستانی سوسائٹی میرٹ کی پاسداری نہیں کرتی‘ ہم نہ میرٹ پرووٹ دیتے ہیں اور نہ ہی ملازمت۔ میرٹ کا بھرم کسی حد تک پرائیویٹ سیکٹر کی وجہ سے ہے اس لیے کہ غیر حکومتی اداروں کو کارکردگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ سرکاری اداروں میں سفارشی بندہ کھپ سکتا ہے نجی اداروں میں نہیں۔حکومتی سیکٹر میں سفید ہاتھی پل سکتے ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر میں کاروبار نفع نقصان کی بنیاد پر چلتا ہے اور اگر منافع بخش نہ ہو تو بند ہو جاتا ہے۔
یہاں میں اس بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ قیادت صرف سیاسی نہیں ہوتی۔ ایک بڑا صنعت کار یا جرنیل اور جج بھی اپنے شعبوں کے قائد ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں اقلیتیں بوجوہ لیڈر پیدا نہیں کر سکیں۔برطانیہ میں سعیدہ وارثی مسلمان ہونے کے باوجود کنزرویٹو پارٹی کی لیڈر بن سکتی ہیں لیکن ہمارے ہاں کوئی غیر مسلم پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ کالیڈر نہیں بن سکا۔چند ماہ قبل وزیر اعظم نواز شریف نے بیان دیا تھا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو برابر حقوق حاصل ہیں۔اس بیان کا زمینی حقائق سے دور دور کا تعلق نہیں۔ 
پچھلے سال خبر آئی تھی کہ اوکاڑہ کے ایک خاکروب کا بیٹا مقابلے کا امتحان دے کر جوڈیشل سروس میں شامل ہو گیا ہے لیکن ایسی خبریں پاکستان میں شاذو نادر ہی پڑھنے یا سننے کو ملتی ہیں۔اعلیٰ عدلیہ کی طرف دیکھیں تو جسٹس کارنیلئس اور رانا بھگوان داس‘ دو ایسے نام ہیں جو اقلیتوں سے تعلق رکھتے ہوئے بھی عدلیہ کے اعلیٰ عہدوں تک پہنچے۔ وجہ غالباً یہ ہے کہ پاکستان کے ہندو اورکرسچین نہ بڑے زمیندار ہیں نہ صنعت کار اور اکثر آجا کے چند مشنری سکول ان کی مدد کرتے ہیں لیکن ہماری حکومت نے غریب اور نادار بچوں کی تعلیم کے لیے کوئی خاص کام نہیں کیا۔چند دانش سکول اس مسئلے کا حل نہیں۔ تمام سرکاری سکولوں کی حالت ٹھیک کرنا ہی مسئلے کا حل ہے۔
ہمارے مقابلے میں بھارت میں محروم طبقات کے لیے زیادہ کام ہوا ہے۔ بھارت کے پہلے وزیر قانون اور موجودہ آئین کے مصنف امبید کر(AMBED KAR)اچھوت تھے۔آئین کی حد تک انہوں نے اچھوتوں کو اعلیٰ نسل کے لوگوں کے برابر لاکھڑا کیا۔لیکن یہ برابری چونکہ صرف کاغذ پر تھی لہٰذا امبید کر‘ نے تنگ ہو کر خود بدھ مت اپنا لیا۔1980ء میں منڈل کمیشن نے شیڈول کاسٹ کے لیے سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ مقرر کیا جو کہ ان کی آبادی کے تناسب سے بھی زیادہ تھا۔اونچی ذات کے لوگوں نے منڈل کمشن کی سفارشات کی شدید مخالفت کی لیکن وزیر اعظم وی پی سنگھ ڈٹے رہے۔1997ء میں کے آر نرائن انڈیا کے صدر بنے۔ ان کا تعلق شیڈول کاسٹ سے تھا۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی حالت اور سرکاری ملازمتوں میں نمائندگی مایوس کن ہے لیکن یہ ایک دوسرا موضوع ہے۔ اب آئیے پاکستان کی موجودہ لیڈر شپ کی طرف ۔کیا میاں نواز شریف‘ آصف علی زرداری‘ سید خورشید شاہ اور عمران خان میں سے کوئی بھی محروم طبقے سے تعلق رکھتا ہے؟ اگر امریکہ میں کینیا سے آنے والے سیاہ فام طالب علم کا بیٹا صدر بن سکتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں۔جواب یہ ہے کہ امریکہ میں ووٹ ذات برادری کی بنیاد پر نہیں دیے جاتے۔ سیاسی آگاہی میں ہندوستان بھی ہم سے آگے ہے۔زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہندوستان نے انا ہزارے اور اروند کجری وال جیسے لوگ پیدا کئے جو نئے خیالات لے کر آئے اور نظام کی تبدیلی کے لیے ڈٹ گئے۔پاکستان کے عام طبقے سے ایسے لوگ کب اٹھیں گے؟ 
پاکستانی سیاست پر شروع سے فیوڈل طبقے کا قبضہ رہا اور اب اس میں صنعت کار اور تاجر بھی شامل ہو گئے ہیں یہ طبقات اپنے اپنے مفادات کا بھر پور دفاع کرتے ہیں۔ بھٹو صاحب کے دور میں زرعی اصلاحات کی بات ہونے لگی۔زمینداروں اور وڈیروں کے گھروں میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں اور پھر آناً فاناًوٹو ‘قریشی‘گیلانی اور لغاری پیپلز پارٹی کے گھوڑے پر سوار ہو گئے۔دو تین سال پہلے سیاسی فضا عمران خان کے لیے ہموار ہونے لگی تو قریشی ‘ہاشمی اور ترین چھلانگ لگا کر تحریک انصاف کے گھوڑے پر آ بیٹھے ۔سیاست اب بہت مہنگا مشغلہ بن چکا ہے۔ عام آدمی الیکشن لڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔وہ دن لدگئے جب پیپلز پارٹی شیخ رشید اور حنیف رامے جیسے لوگوں کو ٹکٹ بھی دیتی تھی اور وزیر بھی بناتی تھی۔
پاکستان میں اب آجا کے دو پارٹیاں ہیں جو متوسط طبقے کے لوگوں کو ٹکٹ دیتی ہیں۔ ان میں سے ایک جماعت اسلامی ہے اور دوسری ایم کیو ایم‘ لیکن ان دونوں پارٹیوں کا ووٹ بینک محدود ہے۔تحریک انصاف نے بھی پچھلے الیکشن میں ایک دو ایسے لوگوں کو ٹکٹ دیے جو سائیکلوں پر جا کر ووٹ مانگتے تھے لیکن اگلے الیکشن میں شاید یہ بھی ممکن نہ ہو۔
اب یا تو پاکستان میں بھی عام آدمی پارٹی بنے جو بہت ہی فعال ہو لیکن ایسا ہوتا بھی نظر نہیں آتا۔ پچھلے الیکشن میں ندیم قریشی ایک ایسی ہی پارٹی کے ساتھ میدان میں اترے تھے۔ موصوف ہارورڈ یونیورسٹی کے پڑھے ہوئے انجینئر ہیں۔مخلص ہیں‘ ذہین ہیں‘ مڈل ایسٹ میں کام کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں لیکن ان کی مستقبل پاکستان پارٹی کو کوئی سیٹ نہیں ملی۔ہمارا ووٹر بھی میرٹ کی بنیاد پر ووٹ نہیں دیتا۔
میرے خیال میں پاکستان میں عوامی قیادت ابھارنے کا واحد ذریعہ اچھے سرکاری سکول اور کالجوں کا احیا ہے جہاں خاک نشینوں کے بچے بھی معیاری تعلیم حاصل کر سکیں۔ووٹر کی صحیح تربیت بھی ہماری اہم ترین قومی ضرورت ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں