"JDC" (space) message & send to 7575

امریکہ سعودی تعلقات

سعودی عرب کی خارجہ پالیسی میں شروع سے واقعیت واضح طور پر نظر آتی ہے۔ فیصلے طویل مشاورت سے ہوتے ہیں۔ جذباتیت کم ہے۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات 1945ء سے لے کر بہت دوستانہ رہے۔ اُس سال شاہ عبدالعزیز اور صدر روز ویلٹ کے درمیان ایک امریکی جہاز کے عرشے پر ملاقات ہوئی جو دو طرفہ تعلقات میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی ملاقات میں یہ انڈر سٹینڈنگ ہوئی کہ آپ ہمیں انرجی کے وسائل فراہم کریں ہم سعودی عرب کو سکیورٹی فراہم کریں گے۔ چنانچہ حکمرانوں کو جمال عبدالناصر سے خطرہ محسوس ہوا تو امریکی لیڈر شپ نے سعودی عرب کو سپورٹ کیا۔ صدام حسین نے کویت پر قبضہ کیا تو امریکہ اپنے علاوہ کئی ممالک کی فوج لے آیا اور صدام کا قبضہ ختم کیا۔ اسی طرح جب ایران کے ساتھ سعودی مخاصمت بڑھی تو امریکہ سعودی عرب کے ساتھ نظر آیا، البتہ اس رشتے میں اتار چڑھائو آتے رہے۔ 1973ء کی مڈل ایسٹ جنگ میں امریکہ نے کھل کر اسرائیل کا ساتھ دیا۔ شاہ فیصل کی شہادت میں مغربی ایجنسیوں کا رول تھا لیکن شاہ خالد کے زمانے میں تعلقات معمول پر آ گئے۔ گیارہ ستمبر کا واقعہ امریکہ کے لیے ایک قومی صدمہ تھا۔ ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ اسامہ بن لادن نے حملہ آوروں میں سعودی باشندے اس لیے زیادہ رکھے تھے کہ سعودی امریکن تعلقات ختم ہو جائیں لیکن ایسا بھی نہ ہوا‘ بلکہ القاعدہ اور دہشت گردی کے خلاف دونوں ممالک میں قریبی تعاون شروع ہوا۔ 2010ء میں سعودی عرب نے امریکہ سے ساٹھ ارب ڈالر کے ہتھیار خریدے جو تاریخ میں یکمشت سودے کا ریکارڈ ہے۔ ہتھیاروں کے حوالے سے 2011ء میں عرب بہار زوروں پہ تھی۔ مصر میں حسنی مبارک کی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف نوجوان کھڑے ہوئے۔ امریکہ نے حسنی مبارک کو نئی حکومت کے تحت الیکشن کا مشورہ دیا۔ سعودی عرب کو یہ بات قطعاً پسند نہ آئی۔ عراق اور شام کی جنگوں نے ایران اور سعودی عرب کو مد مقابل لا کھڑا کیا۔ بحرین کے حالات نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ سعودی عرب کا خیال تھا کہ بشار الاسد کے اپنے لوگوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بعد امریکہ بہادر اسے قطعاً معاف نہیں کرے گا لیکن روس نے بشار الاسد سے کیمیائی ہتھیار تلف کرنے کا وعدہ لیا اور غبارے سے ہوا نکل گئی۔ دوسری طرف اسرائیل نے امریکہ کو سمجھایا کہ صدر بشار کی بساط الٹی تو اسلامی انتہا پسند قوتیں شام پر قابض ہو جائیں گی۔ سعودی عرب اس دفعہ امریکہ سے سخت ناراض تھا‘ اتنا ناراض کہ اس نے کئی برسوں کی جدوجہد کے بغیر جیتی ہوئی سکیورٹی کونسل کی نشست پر بیٹھنے سے انکار کر دیا۔ سعودی تاریخ میں یہ پہلا فیصلہ تھا جس میں کوئی جذباتیت نظر آئی۔ 1980ء کی دہائی میں سوویت فوجوں کو افغانستان سے نکالنے کے لیے امریکن سعودی تعاون تاریخ کا حصہ ہے اور آج دونوں ملک انہی قوتوں کے خلاف تعاون میں شریک ہیں جن کی تشکیل میں ان کا فیصلہ کن رول تھا۔ 
اور آئیے اب دیکھتے ہیں کہ دو طرفہ تعلقات اس وقت کہاں کھڑے ہیں۔ شیل(Shale) گیس کی دریافت کے بعد امریکہ کا سعودی تیل پر انحصار کم ہو گیا ہے۔ مصر میں دونوں ممالک فوجی حکومت کے ساتھ ہیں لیکن امریکہ اس بات پر مصر ہے کہ پُرامن احتجاج مصری اپوزیشن کا حق ہے۔ سعودی عرب کا خیال تھا کہ امریکہ ایران اور شام کے حوالے سے اس کا ویسے ہی ڈٹ کر ساتھ دے گا‘ جیسے روس نے ایران اور شام کا دیا ہے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ سعودی عرب کو خاصی مایوسی ہوئی ہے۔ 
بدلے ہوئے معروضی حالات کے باوجود دونوں ممالک اب بھی ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔ سعودی عرب کی اسلامی دنیا میں پوزیشن مسلمہ ہے۔ دنیا میں برآمد ہونے والا ہر چوتھا تیل کا بیرل سعودی عرب سے آتا ہے۔ اس وقت سعودی تیل کا سب سے بڑا خریدار چین ہے۔ ہتھیاروں کے حوالے سے سعودی عرب کا امریکہ پر بہت انحصار ہے۔ یورپ کو سعودی تیل چاہیے‘ سعودی عرب کو فاضل پرزے اور فوجی تربیت کے لیے امریکہ کی سالہا سال تک ضرورت ہے۔ ایران اور امریکہ کے معاملات بھی ابھی پوری طرح طے نہیں ہوئے اور سعودی عرب اگر امریکہ کو بالکل چھوڑ دے تو امریکہ ایران تعلقات جلد ٹھیک ہونے کا امکان بڑھ جائے گا۔ لہٰذا میری رائے یہ ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات میں بہت زیادہ گرم جوشی نہ بھی رہے‘ تو بھی تعاون جاری رہے گا۔ القاعدہ کا مقابلہ دونوں مل کر کرتے رہیں گے۔ دونوں ایک دوسرے کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ 
گزشتہ ماہ صدر اوباما ریاض میں تھے۔ ان کے دورے کا مقصد ہی سعودی تحفظات کو دور کرنا تھا۔ایک بہت ہی اہم بات یہ ہے کہ صدر اوباما کی آمد سے ایک روز قبل پرنس مقرن بن عبدالعزیز کو بادشاہ اور ولی عہد دونوں کا ڈپٹی مقرر کیا گیا۔ پرنس مقرن بن عبدالعزیز اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔ ان کی پیدائش 1945ء کی ہے۔ اس طرح سے وہ ولی عہد پرنس سلمان سے دس سال چھوٹے ہیں۔ انہوں نے اپنے چند بھائیوں کو سپرسیڈ کیا ہے لیکن ان کی پوزیشن اس لحاظ سے مضبوط ہے کہ بیعت کونسل‘ جو کہ سینئر شہزادوں پر مشتمل ہے‘ نے بھاری اکثریت سے پرنس مقرن کا انتخاب کیا ہے۔ یہ تعین اور اس کی ٹائمنگ تین اہم امور کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اولاً شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز اب خاصے بزرگ ہو چکے ہیں اور انہیں قابل اعتماد معاونت کی ضرورت ہے۔ دوئم اقتدار کا تسلسل جاری رہنا چاہیے اور بھائیوں نے نسبتاً کم عمر اور تجربہ کار بھائی کا انتخاب کیا ہے اور تیسرے یہ کہ صدر اوباما جیسے اہم مہمان کو یہ معلوم ہو کہ آئندہ امور طے کرنے میں پرنس مقرن بن عبدالعزیز کی پوزیشن مسلم ہو گی۔
عرب میڈیا کی اطلاعات کے مطابق صدر اوباما نے سعودی قیادت کو یقین دلایا کہ مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے امریکی کوشش جاری رہے گی۔ سعودی حکمرانوں کو یہ بھی بتایا گیا کہ ان کے ملک کی اہمیت امریکہ کی نظروں میں مسلم ہے اور دوستی کا عشروں پر محیط سفر جاری رہنا چاہیے۔ یہ بھی کہا گیا کہ ایران کے ساتھ کوئی بھی ممکنہ معاہدہ امریکہ کے سعودی عرب کے ساتھ قریبی تعلقات پر اثر انداز نہیں ہوگا۔ آج کے بین الاقوامی تعلقات میں سب سے اہم تعلق تجارتی اور اقتصادی ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ سعودی ولی عہد سلمان بن عبدالعزیز جب پاکستان آئے تھے تو اُسی دورے میں وہ ہندوستان اور چین بھی گئے۔ یہ دونوں ملک تجارتی طور پر سعودی عرب کے لیے بہت اہم ہیں۔ بعینہٖ سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار ہے‘ لہٰذا امریکہ کے لیے بے حد اہم ہے۔ 
سعودی عرب اور تیل پیدا کرنے والے دیگر خلیجی ممالک کا استحکام مغربی ملکوں کی معیشت کے لیے بے حد اہم ہے۔ انرجی کی تسلسل سے فراہمی اور قیمتوں میں استحکام بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ سعودی عرب میں تیل کی قیمتوں پر براہ راست یعنی پیداوار کے ذریعے اثر انداز ہونے کی قوت ہے۔ صدر اوباما نے پوری کوشش کی ہے کہ سعودی قیادت کا امریکہ پر اعتماد بحال ہو جائے۔ وہ اس کوشش میں کتنے کامیاب ہوئے یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن ایک بات یقینی ہے کہ دونوں ممالک میں بہت گاڑھی نہ چھنے تب بھی تعاون جاری رہے گا کہ دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں