"JDC" (space) message & send to 7575

مصر کا بازار

پچھلے سال جب مصر کے جنرل عبدالفتاح السیسی نے صدر مرسی کی حکومت کو چلتا کیا تو اعلان فرمایا کہ میں الیکشن میں امیدوار نہیں ہوں گا۔ اب وہ قومی مفاد کی خاطر الیکشن لڑ رہے ہیں اور مجھے قومی امید ہے کہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوں گے۔ ان کے مقابلے میں صرف ایک امیدوار ہیں اور وہ ہیں حمدین صباحی۔ آپ کو یاد ہو گا کہ 2012ء کے الیکشن کے پہلے رائونڈ میں وہ تیسرے نمبر پر تھے۔ اخوان کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا گیا ہے لہٰذا وہ الیکشن کے عمل سے باہر ہیں۔ اخوان دشمنی میں حمدین صباحی بھی جنرل سیسی سے کم نہیں ہیں۔ وہ جرنلسٹ تھے۔ سیکولر ہیں اور عرب قومیت پر ایمان رکھتے ہیں۔ ان کے افکار صدر جمال عبدالناصر سے قریب تر ہیں۔
مجھے مصر کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا رہا ہے۔ مصر میں جمہوری روایت بے حد کمزور ہے۔ وہاں فوج نے منتخب حکومت کو مشکل سے ایک سال برداشت کیا۔ اس لحاظ سے پاکستانی جمہوری روایت زیادہ جاندار ہے۔ چند ماہ ہوئے عبدالفتاح السیسی فیلڈ مارشل بن بیٹھے۔ مجھے فیلڈ مارشل ایوب خان یاد آئے کہ موصوف بھی کوئی جنگ لڑے بغیر فیلڈ مارشل بن بیٹھے تھے۔ مجھے مصر اور پاکستان دونوں میں شروع سے خاصی شباہت نظر آتی ہے۔ جماعت اسلامی ایوب خان کو بھی نہ بھاتی تھی۔ مگر ہماری فوج اور پولیس مصری فورسز کے مقابلے میں خاصی نرم دل واقع ہوئی۔ آپ کو یاد ہو گا کہ 1977ء کی پی این اے تحریک کے زمانے میں فوجی افسروں نے لاہور میں اپنے شہریوں پر گولی چلانے سے انکار کر دیا تھا۔ پچھلے سال صدر مرسی کی حکومت ختم کی گئی تو مظاہرے ہوئے۔ ایک پولیس 
اہلکار مارا گیا۔ جواب میں پولیس نے دو ہزار شہری مارے۔ ان میں سے چھ سو تو ایک ہی دن میں مارے گئے تھے۔ اور اب ایک مصری جج سعید یوسف صبری نے تو ریکارڈ ہی توڑ دیے۔ اس جج نے دو دن کیس سننے کے بعد 529لوگوں کو سزائے موت دی۔ ظاہر ہے کہ ان میں اکثریت اخوان کے حمایتی ہی ہوں گے۔ چند روز بعد اسی جج نے آٹھ منٹ کیس سننے کے بعد مزید 689شہریوں کو سزائے موت دی۔ اس جج کا نام ہلاکو خان پڑ سکتا تھا اگر یہ پاکستان میں ہوتا۔ 
مصریوں کی حسِ ظرافت پوری عرب دنیا میں مشہور ہے۔ مشکل سے مشکل وقت میں مسکراتے رہتے ہیں۔ لطیفہ گوئی کا فن عام ہے۔ بسام یوسف سیاسی طنزو مزاح کے بادشاہ ہیں۔ ان کا ٹی وی چینل پروگرام خاص و عام میں مقبول ہے۔ موصوف اصل میں ڈاکٹر ہیں اور ہارٹ سرجن لیکن میڈیا کی کشش دیکھئے کہ مزاحیہ کردار کشی کی طرف آ گئے۔ کسی سیاسی رہنما یا جماعت کو نہیں بخشتے۔ صدر مرسی کی ایک سالہ حکومت میں تو بسام یوسف نے اخوان کے خوب لتے لیے۔ جب سے فوج کی حمایت یافتہ حکومت آئی ہے یہ صاحب خاموش ہیں۔ مجھے 1990ء کا سال یاد آ رہا ہے۔ کویت پر صدام کا قبضہ ہو چکا تھا۔ کویت کو آزاد کرانے کی غرض سے امریکی فوجیں سعودی عرب آ گئیں۔ اس عسکری عمل کو بین الاقوامی شکل دینے کے لیے پاکستان‘ مصر اور شام کی حکومتوں سے بھی فوج بھیجنے کی درخواست کی گئی۔ 
پاکستان خاصا متذبذب تھا۔ شامی حکومت نے فوراً دستے بھیج دیے کیونکہ صدر حافظ الاسد اور صدام حسین کی کبھی بنی ہی نہیں۔ مصر نے بھی فوج بھیج دی۔ صدر حسنی مبارک بڑھ چڑھ کر صدام مخالف بیان دیتے رہے۔ ویسے تو مصر 1979ء کے معاہدے کے وقت سے امریکی کیمپ میں تھا اور امریکہ سے بھاری مالی امداد وصول کر رہا تھا لیکن شنید یہ تھی کہ صدام کے خلاف کارروائی کے لیے مصری حکومت کو مزید رقم دی گئی ہے۔ میں اُن دنوں ریاض میں پاکستانی سفارت خانہ میں منسٹر تھا۔ پتہ چلا کہ مصریوں نے صدر حسنی مبارک کا نام ٹیلی فون بوتھ رکھ دیا ہے۔ ایک مصری دوست سے وجہ تسمیہ پوچھی تو کہنے لگا کہ سیدھی سے بات ہے ٹیلی فون بوتھ کو استعمال کرنے کے لیے پہلے پیسے ڈالنے پڑتے ہیں۔ صدر مبارک متعدد صدام مخالف بیان دے کر امریکہ کے چہیتے بنے ہوئے ہیں‘ باقی بات آپ خود سمجھ جائیے۔ مصری لطیفے باز کسی کو نہیں بخشتے۔ 
ایک حالیہ سروے کے مطابق مرسی اور سیسی کی عوام میں مقبول برابر ہے۔ دونوں کو 44فیصد عوام پسند کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مصری عوام خاصے منقسم ہیں۔ 27مئی کو ہونے والے انتخابات میں بہت لوگ ووٹ دینے نہیں آئیں گے اور ٹوٹل دیے گئے ووٹ آبادی کے تناسب سے بہت کم ہوں گے تا آنکہ فرشتے ووٹ نہ ڈال جائیں۔ ایک اور نتیجہ جو ابھی سے اخذ کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ فیلڈ مارشل صاحب بہت بڑے مارجن سے جیت جائیں تب بھی ان کی حکومت ڈنڈے کے بغیر نہیں چلے گی۔ اس لیے کہ آبادی کا ایک حصہ ان کا مخالف رہے گا لیکن اگر جبر اور ظلم کے ساتھ حکومت کریں گے تو ردعمل پانچ دس سالوں میں سامنے آ جائے گا۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ جب اسلامی پارٹیوں کو سیاسی عمل سے خارج کر دیا جائے تو وہ انتہا پسندی کی طرف راغب ہونے لگتی ہیں۔
پچھلے سال جب صدر مرسی کی منتخب حکومت کو برطرف کیا گیا تو امریکی پالیسی کا دوغلا پن واضح ہو کر سامنے آ گیا۔ صدر اوباما نے بیان دیا کہ انہیں مرسی حکومت کی برطرفی اور آئین کی معطلی پر تشویش ہے۔ ساتھ ہی اوباما نے کہا کہ صدر مرسی اور ان کے حامیوں کو گرفتار نہ کیا جائے اور جلد از جلد شفاف الیکشن کرایا جائے جس میں تمام پارٹیاں حصہ لیں۔ فوجی حکومت نے نہ صرف صدر مرسی کو گرفتار کیا بلکہ ان کی سیاسی پارٹی کو بھی سیاسی عمل سے باہر کر دیا لیکن مصر اور امریکہ کے تعلقات پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔ 
امریکی قانون کے مطابق اگر کسی ملک میں فوج منتخب حکومت کے سربراہ کو برطرف کر دے تو امریکی امداد اس ملک کے لیے روک دی جاتی ہے۔ لیکن مصر کے بارے میں کچھ اس قانون پر عمل کچھ بے دلی سے ہوا ہے۔ بڑے اسلحے مثلاً ٹینکوں اور لڑاکا ہوائی جہازوں کو مصر کو ترسیل روک دی گئی ہے لیکن فاضل پُرزے سپلائی کئے جا رہے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ کیری نے مصر جا کر بیان دیا کہ اسلحہ کی امداد کو روکنے کے فیصلے کو سزا نہ سمجھا جائے۔ ابھی پچھلے ہفتے امریکہ نے فیصلہ کیا ہے کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے مصر کو دس حملہ آور آپاچی ہیلی کوپٹر دیے جانے چاہئیں۔ امریکہ کو بخوبی علم ہے کہ مصر میں اصل طاقت فوج کے پاس ہے اور فوج ہی کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی پاسداری کرا سکتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں مصر کے بغیر نہ جنگ ہو سکتی ہے اور نہ امن۔ امریکہ کو مصر کی اسٹریٹجک پوزیشن کا مکمل ادراک ہے۔ 
سیاسی عدم استحکام اور سکیورٹی کے خراب حالات کی وجہ سے مصری معیشت کی حالت دگر گوں ہے۔ مصری معیشت کا ایک بڑا سیکٹر ٹورازم یعنی سیاحت ہے۔ اچھے وقتوں میں یہ سیکٹر چار ارب ڈالر سالانہ کماتا تھا۔ اب سیاحت ٹھپ پڑی ہے۔ سیاحت سے وابستہ لاکھوں لوگ بے روزگار ہیں۔ غالباًاسی وجہ سے ایک طبقہ دانستہ طور پر مضبوط حکومت چاہتا ہے جو آہنی ہاتھوں سے سکیورٹی اور تحفظ فراہم کرے۔ سویلین ہونے کا تاثر دینے کے لیے اب عبدالفتاح السیسی کے نام کے ساتھ فیلڈ مارشل کی بجائے مسٹر یا السید کا سابقہ استعمال ہونے لگا ہے۔ مصر آگے جانے کے بجائے پیچھے کو جا رہا ہے۔ عوام کی جمہوری خواہشات اگر حُسن یوسف ہیں تو مصر کا چند روز بعد لگنے والا بازار یعنی الیکشن اُن کے بغیر لگے گا اور نامکمل ہی تصور کیا جائے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں