"JDC" (space) message & send to 7575

صحافت کا عجائب گھر

واشنگٹن ڈی سی کی سب سے معروف شارع پین سلوینیا ایوینیو ہے۔اس سڑک کے ایک طرف وائٹ ہائوس ہے اور دوسری طرف کیپٹل ہل جہاں امریکی کانگریس کے دونوں ایوان ہیں ۔ پین سلوینیا ایوینیو کو اسی مناسبت سے مرکزی قومی شاہراہ بھی کہا جاتا ہے ۔میری بہو لیلیٰ عادل حفیظ کا وعدہ تھا کہ جیسے ہی سکول میں موسم گرما کی تعطیلات ہوں گی،وہ مجھے واشنگٹن کے چند عجائب گھر دکھائے گی۔لیلیٰ کا تعلق قصور کی شیخ فیملی سے ہے مگر اس کی پیدائش امریکہ کی ہے۔لیلیٰ بیٹی چند برسوں سے فیئر فیکس کائونٹی کے سکول میں امریکن ہسٹری کی ٹیچر ہے۔جب سے معلوم ہوا کہ میں دو اخباروں کے لیے کالم لکھتا ہوں تو اس نے فوراً سوال کیا''ابو آپ صحافت کا میوزیم دیکھنا پسند کریں گے ‘‘ میں نے فوراً ہاں کر دی۔لیلیٰ چونکہ امریکی تاریخ سے خوب واقف ہے لہٰذا وہ میرے لیے اچھی گائیڈ بھی ثابت ہوئی۔
صحافت کا عجائب گھر جسے Newseumکا نام دیا گیا ہے، پانچ منزلوں پر مشتمل وسیع و عریض عمارت ہے ۔نیوزیم کا داخلہ ٹکٹ 22ڈالر ہے جو مجھے سینئر سیٹیزن ہونے کے ناتے 18ڈالرمیں مل گیا۔ٹکٹ پر لکھا ہوا تھا کہ آپ اسے دو د ن متواتر استعمال کر سکتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اس عجائب گھر کو ایک دن میں دیکھنا ممکن ہی نہیں۔یہ عجائب گھر اسی مرکزی قومی شاہراہ پر بنایا گیا ہے۔یہاں اس کے علاوہ آرٹ میوزیم بھی ہے ۔وہاں جا کر مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ ہماری مرکزی قومی شاہراہ یعنی شاہراہ دستور اسلام آباد پر کوئی قومی میوزیم نہیں۔جو بات نیوزیم کو باقی عجائب گھروں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کا مرکزی خیال صحافت ہے اور اس میں دور حاضر تک تمام دلچسپ خبروں اور شخصیات کو شامل کیا گیا ہے۔ 2013ء کی انعام یافتہ اخباری تصویر بھی ہے۔ 2012ء میں مارے جانے والے تمام صحافیوں کے نام بھی آویزاں ہیں جن میں باقی ملکوں کے علاوہ پاکستانی صحافی بھی شامل ہیں ۔وہ گاڑی بھی نیوزیم میں کھڑی ہے جو مختلف امریکی صحافیوں نے یوگو سلاویہ یعنی بلقا ن کی خانہ جنگی میں استعمال کی ۔گاڑی بلٹ پروف ہے لیکن گولیوں سے چھلنی ہے ۔یہ بات مجھے عجیب سی لگی لیکن عجائب گھر ہوتے ہی عجیب چیزوں کی نمائش کے لیے ہیں۔
نیوزیم کے آغاز میں ہی امریکہ کا اعلان آزادی تحریری شکل میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ امریکی دستور میں پہلی ترمیم ہے جس میں مذہبی آزادی کا ذکر سرفہرست ہے ۔اس کے بعد اس بات کی تاکید ہے کہ آزادی رائے اور آزادی صحافت پر امریکہ میں کوئی قدغن نہ ہو گی۔ لوگوں کو پرامن طور پر اکٹھے ہونے اور حکومت تک اپنے مسائل پہنچانے کا حق ہو گا۔ یہ وہ مشہور پانچ آزادیاں یا حقوق ہیں جن کا دفاع امریکی دستور کرتا ہے اور یہ عجائب گھر دراصل آزادی رائے اور آزادی صحافت کی داستان ہے کہ کس طرح امریکہ کے افتادگان خاک یعنی سیاہ فام لوگوں نے آزادی رائے اور آزادی صحافت کو اپنے اہداف حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا۔
نیوزیم دیکھنے کے بعد صحافت کے پیشے کا مثبت تاثر ذہن میں ابھرتا ہے ۔صحافی کا کام ہے صحیح خبر عوام تک پہنچانا اور اس مقصد کا حصول خطرات سے بھرا پڑا ہے۔نیوزیم میں ایک امریکی صحافی کی تباہ شدہ کار بھی رکھی ہوئی ہے جسے بم سے اڑایا گیا اور حملے میں صحافی لقمہ اجل بنا۔یہ واقعہ امریکہ کے اندر ہی پیش آیا تھا۔عام طور پرعجائب گھروں میں پرانے مجسمے برتن اور سکے دیکھ کر بوریت ہونے لگتی ہے مگر یہاں ایسا نہیں ۔نیوزیم میں جگہ جگہ ٹی وی لگے ہوئے ہیں۔ایک جگہ صدر جان کینیڈی کہہ رہے ہیں کہ ہم دس سال کے اندر چاند پر خلا باز بھیجیں گے تو دوسری جگہ صدر جارج بش جذباتی انداز میں کہہ رہے ہیں کہ ہم القاعدہ کا پوری دنیا میں تعاقب کریں گے۔ اور لیجیے اگر آپ امریکی لیڈروں کی تقریریں سن کر بور ہو چکے ہیں تو آپ خود بھی تقریر کر سکتے ہیں۔کیمرہ مین اور رپورٹر موجود ہیں وہ آپ کو آپ کے پسندیدہ موضوع پر سوال کرتے ہیں اور آپ کے جواب ریکارڈ ہو رہے ہیں آپ چاہیں تو انہیں یو ٹیوب پر بھی لگا سکتے ہیں۔
یہاں اس بات کا اقرار ضروری ہے کہ تین گھنٹوں میں نیوزیم کے میں چند حصے ہی دیکھ پایا۔جو حصہ میرے لیے زیادہ دلچسپی کا باعث بنا وہ 9/11سے متعلق تھا۔اس واقعے میں تباہ شدہ جہازوں کے حصے نیوزیم میں موجود ہیں۔تمام دہشت گردوں کی تصویریں آویزاں ہیں۔ان میں سے دو کے پاسپورٹوں کے ابتدائی صفحات بھی رکھے گئے ہیں۔تباہ شدہ عمارتوں میں سے ایک کے اوپر سیٹیلائٹ ٹاور تھا اسے بھی تباہ شدہ حالت میں رکھا گیا ہے۔دونوں عمارتوں کے ساتھ9/11کو ٹکراتے ہوئے جہاز ٹی وی سکرین پر بمع کمنٹری بار بار دکھائے جاتے ہیں۔لیکن میرے لیے لرزہ خیز تحریر وہ تھی جو کہ عربی میں ہاتھ سے ایک زرد کاغذ پر لکھی گئی اور اس میں دہشت گردوں کے لیے آخری ہدایات درج ہیں۔
نیوزیم میں ایک پورا سیکشن صحافت کے ارتقا سے متعلق ہے ۔ چھاپہ خانہ کی ایجاد سے لے کر عہد حاضر تک تمام منازل دکھائی گئی ہیں۔دنیا کا سب سے پہلا پرنٹ شدہ اخبار 1526ء میں جرمنی میں شائع ہوا۔اس زمانے میں زیادہ خبریں شاہی خاندانوں کے بارے میں ہوتی تھیں۔1660ء میں برطانیہ کے ایک اخبار میں اشتہار شائع ہوا کہ کنگ چارلس دوئم کا کتا گم ہو گیا ہے جسے ملے وہ فوراً اطلاع کرے۔شروع میں چھپنے والے اخباروں کا دورانیہ مقرر نہ تھا۔بس جب خبریں جمع ہو گئیں تو کتا بچے کی صورت میں چھاپ دی گئیں ۔یہ کتابچے کی شکل کے اخبار آج کے رنگین تصویروں والے اخباروں اور رسالوں کے مقابلے میں بہت سادہ تھے۔
نیوزیم کا ایک حصہ دیوار برلن سے متعلق ہے ۔دیوار برلن کے اصلی ٹکڑے یہاں رکھے گئے ہیں۔یہ دیوار 1961ء میں انہی اونچے لمبے ٹکڑوں کو جوڑ کر بنائی گئی تھی تاکہ مشرقی جرمنی سے کوئی مغرب کی طرف فرار نہ ہو سکے۔ٹکڑے اتنے بھاری بھرکم ہیں کہ انہیں انسان ایک انچ بھی نہیں ہلا سکتا۔دیوار کے اوپر کچھ کچھ فاصلے پر آبزرویشن ٹاور تھے۔جہاں مشرقی جرمنی کے حفاظتی گارڈ موجود ہوتے تھے۔ایک ایسا ہی آبزرویشن ٹاور نیوزیم میں رکھا گیا ہے۔
اور وہ دیکھئے سامنے ایف بی آئی کے اس ایجنٹ کی تصویر ہے جس نے صحافی بن کر صدام حسین سے جیل میں دوستی لگائی۔ جارج پیرو لبنانی اوریجن کا امریکی تھا اور عربی فر فر بولتا تھا۔وہ صدام کے لیے جیل میں کیک لے کر جاتا تھا کہ یہ خاص طور پر آپ کے لیے میری والدہ نے بھیجا ہے۔جارج نے صدام حسین سے کافی معلومات حاصل کیں۔صدام کے ہاتھ کی لکھی ہوئی عربی نظم بھی نیوزیم میں رکھی گئی ہے۔
جب برطانیہ، سپین ،ہالینڈ اور پرتگال کے بحری بیڑے دنیا کے طول و عرض میں پھرنے لگے تو بین الاقوامی تجارت میں بہت اضافہ ہوا ۔سب سے زیادہ مانگ تجارتی خبروں کی تھی۔ لندن کا تاجر جاننا چاہتا تھا کہ بمبئی اورکراچی میں کپاس کا بھائو کیا ہے ۔ 1837ء میں سیموئیل مورس Morseنے ٹیلیگراف کا آلہ تیار کیا۔یہ آلہ تاروں کے ذریعہ ایک منٹ میں دس الفاظ دنیا کے کسی بھی کونے میں بھیج سکتا تھا۔یہ آلہ امریکہ کی سول وار میں بھی استعمال ہوا اور ہندوستان میں 1857ء کی جنگ میں انگریزوں کی فتح کا سبب بھی بنا۔ٹیلیگرافی اگر دادی نانی تھی تو ٹیلیفون ریڈیو اور ٹی وی اس کے بچے تھے اور انٹرنیٹ اس کا پوتا ہے۔نیوزیم کی بدولت امریکی تاریخ سے متعلق بیش بہا معلومات چند گھنٹے میں مل جاتی ہیں۔کیا ہم اسلام آباد میں ایک نیوزیم بنا سکتے ہیں جہاں قائد اعظمؒ، قائد ملتؒجنرل ایوب خان ،شیخ مجیب الرحمن، ذوالفقار علی بھٹو ،جنرل ضیاء الحق ،بینظیر بھٹو اور جنرل مشرف کی تمام اہم تقاریر ہر وقت چل رہی ہوں۔وہاں1947ء کے بعد کی تمام تاریخی دستاویزات موجود ہوں ۔کیا ہم اپنا اصلی چہرہ آئینے میں دیکھنے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں