"JDC" (space) message & send to 7575

امریکی طرزِ زندگی

1970ء کے آس پاس نوجوانوں میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد پاکستان سے مغربی ممالک مائیگریٹ کرنے کا رواج شروع ہوا تو اکثر دوستوں کی پہلی منزل انگلینڈ ہوتی تھی۔ مگر پھرکچھ ڈائریکٹ امریکہ جانے لگے۔ وہاں جاکر وہ جلد ہی چمکدار سی کار کے ساتھ تصویر بھیجتے تھے۔ سال دو سال میں اچھے سے گھر اور اس کے ڈرائنگ روم کی شاندار رنگین تصویریں آتی تھیں۔ پاکستان میں بیٹھے اکثر لوگ سمجھتے تھے کہ امریکہ جاتے ہی ڈالروں کی بارش ہونے لگتی ہے۔ ابھی انٹرنیشنل ٹریول بھی عام نہیں ہوا تھا۔ دور کے ڈھول بہت ہی سہانے لگتے تھے۔ خیر وہ زمانہ آسان بھی تھا۔ آج کے امریکہ میں قدم جمانا خاصا مشکل ہوگیا ہے اور ہاں یہ بھی بتادوں کہ وہ تصویریں جو یار لوگ امپریس کرنے کے لیے بھیجتے ہیں‘ سب قرض پر خریدے گئے گھروں کی ہوتی ہیں۔ امریکہ میں بینک قرض دینے کے لیے بیتاب رہتے ہیں مگر مورٹ گیج یعنی بینک کے قرضے پر خریدا گیا گھر پوری عمر قسطیں ادا کرنے کے بعد ہی آپ کی ملکیت بنتا ہے۔
میں نے اکثر لوگوں سے امریکہ میں سوال کیا کہ یہاں کی زندگی میں آپ کو سب سے اچھی بات کیا لگتی ہے۔ میرے بیٹے کا کہنا تھا کہ امریکہ میں سب لوگ ایک دوسرے کی پرائیویسی کا احترام کرتے ہیں۔ کوئی بغیر اجازت آپ کے گھر نہیں آتا۔ میری بہو کا کہنا تھا کہ مرد اور عورت دونوں کام کرتے ہیں اور حقوق بھی دونوں کے مساوی ہیں۔ بیوی آرام سے خاوند کو کہتی ہے کہ آج کپڑے استری کرنے کی آپ کی باری ہے اور خاوند بے چارہ اف تک نہیں کرتا۔ میرے گورنمنٹ کالج لاہور کے دوست سرور ناصر کو امریکہ میں چالیس سال سے اوپرہوگئے ہیں۔ سرور نے جی سی سے فزکس میں ماسٹرز کیا تھا اور امریکہ جاکر انڈسٹریل انجینئرنگ میں ماسٹرز کی ایک اور ڈگری لی۔ میں واشنگٹن سے خاص طور پر سرور کو ملنے لنکاسٹرگیا۔ تین گھنٹے کی ڈرائیور جون کے مہینے میں بہت ہی روح پرور تھی۔ ہر طرف بادل ہی بادل۔ راستے میں Gettysburgکا وہ مقام بھی آیا جہاں امریکن سول وار کی تاریخی لڑائی ہوئی تھی۔
لنکاسٹر کے ساتھ ہی آمیش لوگ رہتے ہیں۔ Amishآج کے زمانے میں عجیب و غریب مخلوق لگتے ہیں۔ یہ لوگ بجلی استعمال نہیں کرتے‘ کار نہیں چلاتے‘ آٹھویں کلاس سے آگے نہیں پڑھتے۔ ان کا انحصار زراعت پر ہے۔گھوڑے کو جوت کر ہل چلاتے ہیں۔ خیربات موضوع سے ہٹ رہی ہے۔ میں نے سرور سے پوچھا کہ امریکن زندگی کی سب سے اچھی بات کیا ہے تو جواب ملا کہ آگے بڑھنے کے برابر مواقع یعنی میرٹ سسٹم اور رول آف لا۔ قانون کے سامنے سب برابر ہیں۔ کمزور کو یہ ڈر نہیں کہ پولیس اسے غلط کیس میں دھرلے گی۔ سرور ناصر اپنے لمبے تجربے کی بنا پر صحیح بات کررہا تھا کہ وہ امریکہ میں خوش اور آسودہ ہے لیکن پاکستان کے سحر سے بھی نہیں نکل پایا۔ ہر سال سردیوں میں لاہور ضرور آتا ہے اور گورنمنٹ کالج کے پچاس سال پہلے کے کلاس فیلو اس کی آمد پر لاہور جم خانہ میں ایک یا دو مرتبہ ضرور اکٹھے ہوتے ہیں۔ پچاس سال کا لمبا عرصہ نوجوانی کی دوستیوں کو مدھم نہیں کرسکا۔ ہم اب بھی مل کر نیوہاسٹل کی شرارتوں کو یاد کرتے ہیں۔
میں نے اپنی بہو سے پھر سوال کیا کہ امریکہ کی اور کونسی ایسی چیز ہے جسے محاسن میں شمار کیا جاسکے۔ کہنے لگی۔ یہاں لوگ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں‘ دوسروں کی زندگی میں مداخلت نہیں کرتے۔ فرد کو اپنے پیشے اور شادی سے متعلقہ امور میں فیصلے خود کرنے کا اختیار ہے۔ میں نے پوچھا کہ امریکی سسٹم میں برائیاں بھی تو ہوں گی تو جواب ملا کہ یہاں کا سکول سسٹم روبزوال ہے اور ٹیکس بے شمار ہیں۔
آپ نے شاید جارج آر ویل کا مشہور ناول 1984ء پڑھا ہوگا۔ یہ سوشلسٹ نظام کے بارے میں تھا کہ وہاں شخصی آزادیاں بہت محدود تھیں۔ ہر سوشلسٹ ملک میں جاسوسی کا وسیع نیٹ ورک تھا۔ جارج آر ویل کا کہنا تھا کہ 1984ء تک سوشلسٹ حکومتوں کو ہر فرد کے بارے میں پتا ہوگا کہ وہ کس وقت کیا کررہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آر ویل کی پیشین گوئی امریکہ جیسے ممالک میں سچ ثابت ہورہی ہے۔ عام امریکن کہتے ہیں کہ گوگل والے آپ کے بارے میں جتنی معلومات رکھتے ہیں وہ شاید آپ کی بیوی کو بھی معلوم نہ ہوں اور 9/11کے بعد تو ریاست کو جاسوسی کا قانونی جواز بھی مل گیا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی سے فرد کی زندگی مکشوف ہوگئی ہے۔ لیکن ایک بات کا کریڈٹ امریکی حکومت کو جاتا ہے کہ وہ افراد کے بارے میں بے شمار معلومات رکھنے کے باوجود انہیں صرف قومی مفاد میں استعمال کرتی ہے۔ افراد کو بے جا ہراساں نہیں کرتی۔
سچ پوچھیے تو یہ منکر نکیر والا معاشرہ ہے لیکن فرشتے راہ راست پر چلنے والے یعنی قانون کا احترام کرنے والوں کو تنگ نہیں کرتے۔ کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا نیویارک میں انڈر ورلڈ تھی۔ ہارم کا علاقہ خطرناک تصور کیاجاتا تھا‘ یہ نیویارک کا لیاری تھا۔ صحافت کے میوزیم میں ایک خاتون کی جیکٹ اور پستول آج بھی رکھا ہوا ہے جس نے1947ء میں سان فرانسسکو کے بینک میں ڈاکہ ڈالا تھا۔ آج کے امریکہ میں جرائم کی شرح کم ہے۔ سڑکیں محفوظ ہیں۔ لوگ سہمے ہوئے نہیں لگتے۔ گویا بہتری آئی ہے۔
میں نے اپنے بیٹے سے پوچھا کہ یہاں کا سسٹم لوگوں کو کیسے کنٹرول کرتا ہے انہیں کیسے ڈسپلن کرتا ہے اس کا جواب مفصل تھا۔ کہنے لگا کہ یہاں ہر شخص کی تین طرح کی ذاتی ہسٹری ہوتی ہے۔ نمبر ایک کریڈٹ ہسٹری یعنی اس شخص نے تمام قرضوں کی قسطیں وقت پر ادا کی ہیں یا نہیں۔ اس کا کوئی چیک تو بائونس نہیں ہوا۔ دوسرا نامہ اعمال ڈرائیونگ کے بارے میں ہے کہ کتنے چالان ہوئے اور کب اور تیسرا نامہ اعمال پولیس ہسٹری ہے یعنی جرائم کی تفصیل اور سسٹم اتنا شفاف ہے کہ آپ معمولی فیس دے کر کسی بھی شخص کا ہر طرح کا نامہ اعمال حاصل کرسکتے ہیں۔ جب بھی کوئی شخص جاب کے لیے اپلائی کرتا ہے تو انٹرویو سے پہلے کمپنی اس کے ماضی کے بارے میں معلومات منکر نکیر سے حاصل کرلیتی ہیں۔ اتنے مستعد اور شفاف سسٹم میں ہیرا پھیری کے امکانات کم ہی رہ جاتے ہیں اور دوسرے یہ کہ امریکی سسٹم ایمان داری کی قدر کرتا ہے۔ جس شخص نے باقاعدگی سے ٹیکس دیا ہے۔ اسے ریٹائرمنٹ کے وقت فائدہ بھی ہوتا ہے۔ سان فرانسسکو سے سینٹ لوئس جانے کے لیے ہوائی جہاز میں بیٹھا ہوں۔ میری ساتھ والی سیٹ پر نوجوان خاتون این بیٹھی ہوئی ہے۔ میرے استفسار پر این بولی کہ میں ہائی سکول میں ہسٹری پڑھاتی ہوں۔ اب میں نے اپنا پاکستانیوں والا سوال کیا کہ تم شادی شدہ ہو؟ جواب ملا نہیں میرا اگلا پاکستانیوں والا سوال تھا کہ کیا تم اپنے والدین کے ساتھ رہتی ہو؟ جواب ملا‘ میں اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ رہتی ہوں۔ یہاں یہ چیز قطعاً معیوب نہیں۔ چند سالوں میں این اور اس کے بہن بھائی اپنے والدین کو کسی اولڈ ایج ہوم کے حوالے کردیں گے۔ یہاں زندگی بہت تیز رفتار ہے۔ بس یوں لگتا ہے کہ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔ 
امریکہ میں نوکر تقریباً ناپید ہے۔ ہمہ وقت نوکرانی میں نے صرف ایک پاکستانی ڈاکٹر کے گھر دیکھی۔ اکثر لوگ اپنا کام خود کرتے ہیں اور کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ سسٹم سوشل سکیورٹی اور ہیلتھ کیئر کے ذریعہ غریبوں اور بزرگ شہریوں کی مدد ضرور کرتا ہے۔ جی ہاں ٹیکس بہت ہیں۔ زندگی کی رفتار تھکا دینے والی ہے لیکن گڈ گورننس اور ریاستی شفقت کمزوروں کا سہارا ضرور ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں