"JDC" (space) message & send to 7575

پاک ہند چین مثلث

ایک معاصر کالم نگار نے فرمایا ہے کہ پاک چین دوستی کی بنیاد پاک بھارت تعلقات میں تنائو ہے۔2014ء میں یہ استدلال بہت ہی عجیب لگتا ہے یوں معلوم ہوتا ہے کہ موصوف کا ذہن بیسویں صدی میں اٹکا ہوا ہے جبکہ آج کے معروضی حالات بہت مختلف ہیں۔تجارت کے لحاظ سے چین پوری دنیا میں پاکستان کا تیسرا بڑا پارٹنر ہے۔ پاک بھارت تجارت کے مقابلے میں چین کے ساتھ پاکستانی تجارت کا حجم کہیں زیادہ ہے اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ بھارت اور چین کی تجارت بھی ستر بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔آج کا چین پہلے والے چین سے بہت مختلف ہے ۔وہ تمام ہمسایوں سے دوستانہ تعلقات چاہتا ہے ۔اس بات کا واضح ثبوت چینی صدر کا بھارت کا دورہ ہے۔چینی صدر نے اس دورے کے لیے ایسے دنوں کا انتخاب کیا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی سالگرہ بھی انہوں دنوں میں تھی اور موصوف دہلی سے پہلے احمد آباد گئے۔یہ بات حقیقت ہے کہ چین بھارت اور پاکستان کے علاوہ تمام ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات چاہتا ہے۔
وقت حاضر میں پاک چین تعلقات نہایت دوستانہ ہیں ،بقول شخصے یہ سمندروں سے زیادہ گہرے اور ہمالیہ سے زیادہ اونچے ہیں۔حکومتیں بدلنے کا ان پرکوئی اثر نہیں پڑتا،مگر بھارتی پالیسی سازوں کے ذہن میں پاک چین تعلقات کیوں کھٹکتے ہیں؟اس کے لیے ہمیں 2300سال پہلے کے سیاسی فلاسفر چانکیہ کے افکار کو دیکھنا ہو گا۔چانکیہ ٹیکسلا یونیورسٹی میں پڑھا اور پھر اسی یونیورسٹی میں اقتصادیات اور سیاسیات کا استاد رہا ۔وہ چندر گپت موریہ کا سیاسی مشیر تھا۔موریہ سلطنت نے چانکیہ کے صائب مشورہ پر عمل کر کے اپنے علاقے کو وسیع تر کیا۔فارن پالیسی کے حوالے سے چانکیہ کی سوچ واضح تھی۔اس کا خیال تھا کہ ہندوستان کے لیے یا کسی بھی بڑے ملک کے لیے اپنے جغرافیائی ہمسایوں سے تعلقات اچھے رکھنا مشکل امر ہے۔ایک تو بڑے ملک چاروں طرف اپنی برتری قائم کرنا چاہتے ہیں،دوسرے ہمسایہ ممالک کے ساتھ سرحدی اور دوسرے تنازعات بھی ہو سکتے ہیں ؛لہٰذا ہمسائے کے ہمسائے سے دوستی رکھنا زیادہ سو د مند ہو گا ۔اسی سوچ کی جھلک ہزاروں سال گزرنے کے بعد ہمیں بھارتی فارن پالیسی میں آج بھی نظر آتی ہے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں ذرا بھارت کی افغان پالیسی کو دیکھ لیجیے ۔ 
اور اب آتے ہیں موجودہ زمانے کی طرف۔بھارت کوہ ہندو کش سے لے کر تھائی لینڈ کے بارڈر تک کے علاقے کو اپنا پائین باغ سمجھتا ہے ۔ بھارتی سوچ کے مطابق اس خطہ کے تمام ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات دوستانہ رکھیں اور دوستانہ تعلقات کی تعریف کا حق صرف بھارت کو حاصل ہو۔حال ہی میں جب چینی صدر نے کولمبو میں یہ کہا کہ چین سری لنکا کے اندرنی معاملات میں کسی ملک کی دخل اندازی کو پسند نہیں کرتا تو بھارتی مبصرین نے خوب تنقید کی حالانکہ چینی صدر نے عام بات کی تھی ،کسی ملک کا نام نہیں لیا تھالیکن بھارت کی داڑھی میں تنکا جلد ہی ظاہر ہو گیا۔بالکل اسی سوچ کے مطابق بھارت کو چین اور پاکستان کے درمیان سٹرٹیجک تعاون پر اعتراض ہے۔بھارتی سوچ کے مطابق چین کے ساتھ ہر اہم معاملہ طے کرنے سے پہلے پاکستان کو بھارت سے این او سی لینا چاہیے۔
1995ء کی بات ہے ،میں تاجکستان میں پاکستان کا پہلا سفیر متعین ہوا۔ ایک غیر ملکی ریڈیو سروس کا نمائندہ مجھے اور چند دوسرے سفراء کا انٹرویو کرنے دوشنبے آیا۔اس نے بھارتی سفیر بھارت راج کا بھی انٹرویو کیا۔مجھے پوچھا گیا پہلا سوال یہ تھا کہ پاکستان کو دوشنبے میں سفارت خانہ کھولنے کا خیال کیسے آیا۔میں نے جواب دیا کہ تاجکستان ہمارا ہمسایہ ملک ہے۔ واخان کی چھوٹی سی پٹی دونوں ممالک کے درمیان ضرور ہے لیکن ہمارے تاریخی اور ثقافتی رشتے صدیوں پرانے ہیں۔ریڈیو سروس کے نمائندے کا کہنا تھا کہ بھارت کے سفیر نے بھی مجھے آپ سے ملتا جلتا جواب دیا ہے۔میں نے کہا کہ دیوار پر نقشہ لگا ہوا ہے ،آپ غور سے دیکھ لیجیے۔دراصل بھارتی سفیر کے جواب کے پیچھے ایک تو وہی سوچ تھی کہ بھارتی اثرورسوخ کو اس ایریا میں برتری حاصل ہو ،دوسری وجہ غالباً یہ تھی کہ ہمارے شمالی علاقہ جات کو بھارت متنازعہ علاقہ کہتا آیا ہے۔
معاف کیجئے تمہید لمبی ہو گئی۔1948ء میں کشمیر کی جنگ ہوئی۔1949ء میں بھارت نے اپنا روپیہ ڈی ویلیو کیا اور پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ بھی ایسا کرے۔پاکستان نے انکار کر دیا تو بھارت نے تجارتی پابندیاں لگا دیں ۔ایک نوزائیدہ ملک کے لیے یہ کافی بڑا صدمہ تھا۔ان حالات میں پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی کا بہت عقل مندی سے جائزہ لیا اور 1950ء میں چین کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کئے۔ اس صائب فیصلے کا سہرا شہیدِ ملت لیاقت علی خان کے سر ہے۔مغربی دبائو کے باوجود پاکستان نے تائیوان کے ساتھ تعلقات منقطع کئے اور بیجنگ میں اپنا سفارت خانہ کھولا۔اس اچھے فیصلے کے پیچھے یہ سوچ کارفرما تھی کہ چین کبھی نہ کبھی سلامتی کونسل کا دائمی رکن ضرور بنے گا اور ہو سکتا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کو سپورٹ کرے اور دوسرے یہ کہ چین کے ساتھ دو طرفہ تجارت کے امکانات روشن تھے جبکہ بھارت کے ساتھ پاکستانی تجارت کے امکانات معدوم ہو رہے تھے۔
پاک چین تعلقات نے تیزی سے ترقی کی کیونکہ یہ دونوں ممالک کی ضرورت تھی ۔حالیہ امریکہ اور بھارت کے بڑھتے ہوئے سٹرٹیجک تعاون نے پاک چین دوستی کو مزید مستحکم کیا ہے۔آپ کو یاد ہو گا چند سال پہلے ہلیر ی کلنٹن نے کلکتہ میں کہا تھا کہ بھارت کا اثرورسوخ بحرالکاہل تک ہونا چاہیے۔امریکہ کا خیال ہے کہ چین چند سالوں میں سپر پاور بن جائے گااور بحرالکاہل میں امریکی نیوی کی پاور کو چیلنج کرنے کے قابل ہو جائے گا ،لہٰذا امریکہ نے بھارت کو اپنا سٹرٹیجک حلیف بنانے کا فیصلہ کیا۔اب آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ بحرالکاہل میں امریکہ اور بھارت کا گٹھ جوڑ کس کے خلاف ہے۔
بات ذرا موضوع سے ہٹ گئی۔چین کی مڈل ایسٹ،افریقہ اور یورپ سے تجارت بحرالکاہل اور بحر ہند کے راستے ہوتی ہے۔چین کے پالیسی سازوں نے یہ ضرور سوچا ہو گا کہ یہ تجارتی راستہ بہت لمبا ہے اور دوسرے امریکہ اور بھارت مستقبل میں مل کر بحرالکاہل کے تجارتی راستوں پر اپنا تسلط جمانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔دوسری طرف گوادر اور KKHیعنی کراکرم ہائی وے سے نہ صرف تجارتی راستہ بہت مختصر ہو جاتا ہے بلکہ یہ دوست ملک پاکستان سے بھی گزرتا ہے۔میں پچھلے سال سنکیانگ گیا تھا۔ وہاں آئندہ پانچ دس سال میں اتنی ترقی ہو گی کہ وہ خطہ پہچانا نہیں جائے گا۔اس ترقی اور آئندہ صنعتی پیداوار کے لیے انرجی کی ضرورت ہے اور پاکستان اس لحاظ سے بہت ہی اچھا راستہ ہے۔دوسرے بحرالکاہل میں ممکنہ خطرات کے پیش نظر گوادر اور کاشغر کے درمیان تجارتی اور اقتصادی کو ریڈور بنانا دونوں ملکوں کے مفاد میں ہو گا۔اس سے چین اور پاکستان دونوں کے عوام کو فائدہ ہو گا۔ اب آپ خود فیصلہ کیجئے کہ اس دو طرفہ اقتصادی تعاون میں بھارت کہاں سے آ گیا۔ اب حقیقت یہ ہے کہ پاک چین تعاون صرف عسکری اور سیاسی نہیں رہا بلکہ اقتصادی تعاون اس کی روح ہے۔بھارت فیکٹر آج کے پاک چین تعلقات کا محور نہیں رہا۔
ماضی قریب میں بھارت نے خوب اقتصادی ترقی کی ہے لیکن چین کی نیشنل انکم آج بھی اس سے تین گنا ہے اور ترقی کی شرح بھی بھارت سے زیادہ ہے۔چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی طاقت بھارت اور امریکہ دونوں کے سر پر سوار ہے۔دونوں مل کر چین کے اردگرد اپنا اثرورسوخ قائم رکھنا چاہتے ہیں ۔اب اگر بھارت یہ کام امریکہ کے کندھوں پر بیٹھ کرکرنا چاہتا ہے تو اس میں چین سے مخاصمت صاف ظاہر ہے۔
ایٹمی قوت بننے کے بعد پاکستان بھارت میں ضم نہیں ہو سکتا۔اس حوالے سے بھارت کی سوچ میں تبدیلی ضرور آئی ہے لیکن بھارت کی یہ سٹرٹیجک سوچ اپنی جگہ شدو مد سے قائم ہے کہ پاکستان اس کے دائرہ اثر میں وقوع پذیر ہے ؛لہٰذا اسے پاکستان میں چینی اقتصادی سرگرمیاں بھی بری لگتی ہیں۔آپ خود سوچیں کہ اگر دس ہزار چینی پاکستان میں رہ کر کام کر رہے ہیں تو کیا وہ یہ کام پاک ہند تنائو کی وجہ سے کر رہے ہیں؟جی نہیں چینی کمپنیاں سود مند پراجیکٹس میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔آج کے دور میں پاک چین تعلقات نئی نہج پر چلے گئے ہیں ، اور وہ پاک ہند مخاصمت سے آزاد ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں