"JDC" (space) message & send to 7575

انڈیا کیا چاہتا ہے

انڈین سورمائوں نے پاک فوج کے دو جوانوں کو دھوکے سے مارا اور معذرت تک نہیں کی۔ایسا تو حالت جنگ میں بھی نہیں کیا جاتا۔انڈین لوک سبھا نے حال ہی میں ذکی الرحمن لکھوی کی ضمانت کے خلاف قرار داد پاس کی ہے۔پشاور کے واقعہ کے بعد وزیر اعظم مودی نے اپنے ہم منصب کو اسلام آباد فون ضرور کیا لیکن اس کے چند روز بعد سیالکوٹ بائونڈری پر گھٹیا حرکت کر دی۔لگتا ہے کہ بمبئی کا دہشت گرد حملہ‘ جو یقینا افسوس ناک تھا اب تک انڈین ذہن پر سوار ہے۔ ہماری قومی اسمبلی نے تو کوئی قرار داد پاس نہیں کی کہ سمجھوتہ ایکسپریس پر 2007ء کے حملے میں ملوث کرنل کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ہندوستان کے تیور یقینا بدلے ہوئے ہیں اور یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ پاکستان کے بارے میں کیا سوچ رکھتا ہے۔
میں نے پہلے بھی کسی کالم میں لکھا تھا کہ انڈین اسٹریٹجک سوچ کے مطابق افغانستان سے لے کر برما تک کا علاقہ بھارت کے زیر اثر رہنا چاہیے۔اس سوچ پر کاری ضرب1947ء میں لگی جب پاکستان بنا اوربعض بھارتیوں کے مطابق گائو ماتا کے ٹکڑے ہو گئے؛ حالانکہ جنوب ایشیا کی یہ پہلی تقسیم نہ تھی۔گزشتہ ڈھائی ہزار سال میں ہندوستان کا نقشہ درجنوں مرتبہ تبدیل ہوا۔لیکن یہ تقسیم کاری تھی۔ہندو مت کی دیو مالا وادی مہران میں پروان چڑھی تھی۔ سکھوں کے کئی مقدس مقامات پاکستان میں ہیں ۔سندھ سے بھارت جانے والے ہندو انڈیا میں متمول بھی ہیں اور اثرورسوخ بھی رکھتے ہیں وہ بین الاقوامی سطح پر سندھی نیشنلزم کی حمایت کرتے تھے۔آج کا سندھ قومی دھارے کا حصہ ہے لہٰذا وہ کوشش کمزور پڑ گئی۔ادھر پنجاب سے جانے والے ہندو سکھ بھی لمبے عرصے لاہور سیالکوٹ اور راولپنڈی کو یاد کرتے رہے۔خشونت سنگھ اور کلدیپ نیئر کی تحریروں میں اس سوچ کی جھلک ملتی ہے۔یونان میں میرے ہم منصب (سفیر) انڈین سردار گوردیپ سنگھ بیدی تھے۔راولپنڈی کے معروف سکھ خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔کلّر بیدیاں کو اکثر یاد کرتے تھے اور اس بات کا انہیں بہت دکھ تھا کہ 1947ء میں پنجاب کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ میں انہیں چھیڑا کرتا تھا کہ آپ نے تو اپنے پنجاب کے تین ٹکڑے کر دیے۔
یہ بات یقینی ہے کہ بھارت نے پاکستان کو ذہنی طور پر تسلیم کرنے میں بہت وقت لگایا۔ اور میرے خیال میں پاکستان کا ایٹمی قوت بننا اس سلسلہ میں ممدو معاون ثابت ہوا۔اب بھارت نے یہ سوچا کہ پاکستان کو فتح کرنا تو ممکن نہیں رہا لہٰذا امن اور بھائی چارے کی بات کی جائے۔بھارت کو اس بات کا بھی احساس تھا کہ ہمسایوں سے تعلقات ٹھیک کئے بغیر نہ اقتصادی ترقی ممکن ہے اور نہ ہی سپر پاور بننے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے؛ چنانچہ ایٹمی دھماکوں کے چند ماہ بعد ہی انڈین وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی لاہور آئے۔جب میں مسقط میں سفیر تھا تو وہاں انڈین سفیر اشوک کمار تھے اور پنجاب سے تھے ان کی شریمتی اوشاجی امرتسر سے تھیں۔اوشاجی ہر محفل میں مجھ سے اور میری بیوی سے پنجابی میں بات کرتیں اور دوسرے حاضرین کو فخرسے بتاتیں کہ پاکستانی سفیر کی بیوی لاہور سے ہیں اور میں امرتسر سے۔دونوں شہروں کی زبان بلکہ لہجہ بھی ایک ہے۔
اب ہم ماضی سے حال میں آتے ہیں۔بی جے پی کے پاور میں آنے کے بعد ہندوستان کی پاکستان پالیسی میں واضح تبدیلی آئی۔ کولڈ سٹارٹ قسم کے جنگی نظریات کی باتیں ہو رہی ہیں۔یہ جنگ محدود ایریا میں ہو گی اور تھوڑے وقت میں ختم ہو جائے گی۔اور اسی نظریے کو اب بہت محدود پیمانے پر ورکنگ بائونڈری پر استعمال کیا جا رہا ہے۔چند ماہ پہلے مجھے ایک انڈین سفارت کار نے ریاض میں بتایا تھا کہ بھارت میں ایک طبقے کی سوچ اب یہ ہے کہ پاکستان صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے۔یہ بھی محل نظر رہے کہ مودی سرکار جاندار فارن پالیسی کی حامی ہے اور ایسے وقت میں جب پاکستانی افواج کا بڑا حصہ مغربی سرحد کے آس پاس ملٹری ایکشن کر رہا ہے بھارت اس سنہری موقع کا خوب فائدہ اٹھا رہا ہے۔بھارت افغانستان سے برما تک بلا شرکتِ غیرے علاقائی چودھری بننا چاہتا ہے مگر اس خواہش کی تکمیل میں اگر کوئی ملک حائل ہیں تو وہ ہیں چین اور پاکستان۔
میر ے چند دوست بھارت کی تازہ ترین سوچ کے بارے میں بتاتے رہتے ہیں۔ان میں کچھ انڈیا میں بطور سفارت کار رہ چکے ہیں کچھ کا تعلق ٹریک ٹو ڈپلومیسی سے ہے۔ان میں سے ایک یہ خبر لائے ہیں کہ انڈیا والے کہتے ہیں کہ ہم پاکستان سے بہت آگے ہیں۔ہندوستان پاکستان سے اقتصادی طور پر سبقت لے گیا ہے۔روایتی ہتھیاروں اور دفاعی بجٹ کے لحاظ سے بھی بہت آگے ہے؛ لہٰذا ہم اب پاکستان کو خاطر میں ہی نہیں لاتے۔اپنے مسائل میں الجھا ہوا پاکستان ہمارا کیابگاڑ سکتا ہے۔ دوسرے دوست یہ خبر لائے ہیں کہ بھارتی اب پاکستان کو ختم کرنے کا بابکل نہیں سوچتے۔ان کا اپنا ملک بہت وسیع و عریض ہے اور اب وہاں سوچ یہ ہے کہ بھارتی مسلمان ہی ہمارے لیے کیا کم درد سر ہیں کہ ہم کچھ اور مسلمانوں کو بھی اپنی آبادی کا حصہ بنائیں۔یہی طبقہ یہ سوچ بھی رکھتا ہے کہ اچھا ہوا پاکستان بن گیا ورنہ ہم ہندو مسلم چپقلش میں ہی پھنسے رہتے اور انڈیا اتنی ترقی نہ کر پاتا جتنی اس نے 1992ء کے بعد کی ہے۔
میں اس بیانیے سے اتفاق نہیں کرتا کہ آج کا انڈیا پاکستان سے بے نیاز ہے۔اگر واقعی ایسا ہوتا تو اتنے ڈویژن بھارتی فوج ہمارے بارڈر پر نہ ہوتی۔ اور یہ بات بھی مسلمہ ہے کہ انڈیا پاکستان کی جغرافیائی اہمیت سے کوشش کرے بھی تو انکار نہیں کر سکتا۔افغانستان اور سنٹرل ایشیا کے ساتھ تجارت کے پاکستانی روٹ نزدیک ترین ہے۔
دوسری سوچ کہ انڈیا پاکستان کو بڑی اکائی میں ضم کرنے کا نہیں سوچ رہا خاصی قرینِ قیاس لگتی ہے۔لیکن یہ سوچ کہ پاکستان کو آہستہ آہستہ کمزور کیا جائے۔بہرحال انڈیا میں موجود ہے۔کئی انڈین یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمیں پاکستان کو کمزور کرنے کی ضرورت نہیں یہ کام پاکستانی خود کر لیں گے۔ایک کمزور پاکستان بھارت کے علاقائی عزائم میں حائل نہیں ہو سکے گا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کا راشٹریہ سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس سے جنم جنم کا ساتھ ہے۔پرافل بدوائی بھارتی کالم نگار ہیں تو پاکستانی اخبار میں بھی لکھتے ہیں وہ بھارت میں سیکولرازم کے حامی ہیں اور پاکستان کے ساتھ امن کے داعی۔بی جے پی سرکار کے آنے کے بعد وہ خاصے غصے بھرے کالم لکھ رہے ہیں اور اس غصہ کی وجہ سے مودی سرکار کی پالیسیاں ہیں جو انڈیا کو واضح طور پر ہندوتوا کی طرف لے جا رہی ہیں۔
پہلی پالیسی تو سکولوں کا نصاب بدلنے کی کوشش کی شکل میں نظر آئی ہے۔بدوائی کو افسوس ہے کہ آج کے بھارت میں گاندھی جی کے قاتل نتھو رام گاڈسے کا نام احترام سے لیا جانے لگا ہے۔مودی سرکار سیکولر اندازسے لکھی گئی انڈین ہسٹری کو بھی بسنتی رنگ میں رنگنا چاہتی ہے۔پروین سنلکر کو کونسل آف انڈین ریسرچ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے ان کا قصور سیکولر نظریہ کے مطابق سلیبس ترتیب دینا تھا۔اسی طرح گریش چندرا تری پاتھی کو بنارس ہندو یونیورسٹی کا وائس چانسلر لگانے پر کافی لے دے ہو رہی ہے۔ موصوف کے پاس دکھانے کے لیے ایک بھی ریسرچ پیپر نہیں جو انہوں نے خود لکھا ہو ان کی واحد کوالیفکیشن یہ ہے کہ موصوف آر ایس ایس سے قریبی تعلقات رکھتے ہیں۔
میرے ایک دوست جو بھارتی معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں آج کل نریندر مودی کے خاصے مشکور نظر آتے ہیں۔وہ اکثر کہتے ہیں کہ مودی سرکار نے دو قومی نظریہ میں نئی جان ڈال دی ہے۔یہاں یہ بات بھی محل نظر رہے کہ ہندوتوا کی پالیسی سے انڈین مسلمان اور عیسائی بہت نالاں ہیں۔
اب ہم پھر اسی سوال کی طرف لوٹتے ہیں کہ انڈیا آخر پاکستان سے چاہتا کیا ہے ۔سارے آپشنز کو دیکھنے کے بعد یہ بات منطقی لگتی ہے کہ انڈیا کمزور اور تابع فرمان پاکستان چاہتا ہے ایسا پاکستان جو انڈیا کو علاقائی اثرورسوخ بڑھانے میں ممدو معاون ہو جو بیجنگ کی طرف دیکھنے کی بجائے صرف نئی دہلی کی سمت دیکھے۔ بھارت کے علاقائی چودھراہٹ کے خواب میں کوئی رخنہ نہ ڈالے اور عظیم بھارت کا کاسہ لیس ہو وہ عظیم بھارت جو سلامتی کونسل کا مستقل ممبر ہو لیکن فی الحال ایسا ہونا دشوار لگتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں