"JDC" (space) message & send to 7575

چند غلط مفروضے

ہمارے ملک میں امور خارجہ اس غریب کی جورو کی طرح ہیں جو سب کی بھابھی ہوتی ہے۔ چنانچہ تمام ٹی وی اینکر اپنے آپ کو خارجہ پالیسی کا ایکسپرٹ سمجھتے ہیں اور اس موضوع پر خوب مباحثے کراتے ہیں۔ درمیان میں اپنی عالمانہ رائے سے بھی ناظرین کو مستفید کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔ ہمارے وزراء اپنے دائرہ اختیار کی بجائے دوسرے ممالک کے بارے میں اپنی قیمتی آراء دینا فرض سمجھتے ہیں۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ ان آرا کی بدولت غلط فہمیوں نے جنم لیا۔ چونکہ دوسروں کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھنا اور اخلاقی فیصلے صادر کرنا ہماری سوسائٹی کا خاصا رہا ہے لہٰذا سپرپاور سے لے کر دیگر ممالک کو مفت نصیحت اور مشورے ہم تواتر سے دیتے ہیں۔ لیکن مشاہدے میں آیا ہے کہ یہ آرا خاصی سطحی ہوتی ہیں اور اکثر جذباتیت کا شکار ہوتی ہیں اور پھر ہمارے تعصبات اور خواہشات تجزیہ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں امور خارجہ کا صحیح ادراک اور تجزیہ تقریباً ناممکن ہوجاتے ہیں۔
میں اپنی بات کو واضح کرنے کے لیے چند مثالیں دینا چاہوں گا۔ آج کل یہ رائے بہت زور شور سے دی جارہی ہے کہ امریکہ تیزی سے روبزوال ہے اور چند برسوں میں اس کی عالمی چودھراہٹ ختم ہوجائے گی اور پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ افغانستان اور عراق میں مسلمانوں نے امریکہ کا غرور خاک میں ملا دیا اور اسے دوبارہ ابھرنے کے قابل نہیں چھوڑا۔ یہاں تک تو بات درست ہے کہ ان دونوں ملکوں میں امریکہ اپنے اہداف حاصل نہیں کرسکا۔ لیکن دوسری بات کہ امریکہ اب دوبارہ نہیں ابھر سکے گا‘ استدلال سے عاری ہے۔
یہ بات البتہ درست لگتی ہے کہ کچھ عرصے بعد امریکہ دنیا کی اکلوتی سپر پاور نہیں رہے گا بلکہ چین ، روس، برازیل، بھارت اور جنوبی افریقہ اقتصادی اور عسکری طور پر خاصی اہمیت حاصل کرلیں گے۔ لیکن ہم پھر بھی نہیں کہہ سکتے کہ امریکہ کی ترقی رک جائے گی۔ بلکہ اس بات کا روشن امکان ہے کہ اقتصادی اور عسکری طور پر امریکہ پھر سے آگے بڑھنا شروع کردے۔ امریکی معیشت میں بہتری کے امکانات نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ دنیا کی دس اعلیٰ ترین یونیورسٹیز میں سے سات امریکہ میں ہیں۔ اچھی سے اچھی ریسرچ وہاں ہوتی ہے۔ پچھلی صدی کی بیشتر سائنسی ایجادات امریکہ میں ہوئیں اور سائنس سے متعلقہ ریسرچ کی بدولت ہی وہاں بجلی والی کار اب عام چل رہی ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کے کم ہونے کا بڑا سبب امریکہ میں شیل گیس کی دریافت ہے۔ یہ جو ہاٹ میل، مائیکرو سائٹ، یاہو اور گوگل کے ذریعہ ہم روزانہ پوری دنیا سے ہم کلام ہوتے ہیں‘ ان کے ہیڈ کوارٹر امریکہ ہی میں ہیں۔ کیا آپ کو پتا ہے کہ پاکستان میں بھی شیل گیس کے ذخائر ہیں مگر پہاڑوں سے تیل نکالنے کی یہ ٹیکنالوجی صرف امریکہ کے پاس ہے۔ تو کیا ہماری یہ خواہش نہیں ہونا چاہیے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات پہلے والے نہ بھی ہوں مگر ورکنگ ریلیشن شپ قائم رہے۔
ہمارے ہاں ایک اور غلط مفروضہ یہ ہے کہ پوری دنیا عمومی طور پر اور مغربی ممالک خاص طور پر پاکستان کے خلاف ہیں۔ ہمارے ایک سیاسی لیڈر نے حال ہی میں بیان دیا ہے کہ پاکستان میں ہر قسم کی ترقی کو ختم کرنا عالمی ایجنڈا ہے۔ اشارہ غالباً ایٹمی پروگرام کی طرف تھا۔ پچھلے مہینے صدر اوباما بھارت آئے اور امریکہ کی طرف سے بھارت کے لیے سلامتی کونسل کی دائمی نشست کی پھر سے حمایت کا اعلان ہوا۔ ہمارے دو لیڈران نے بیان دیا کہ ایسی صورت میں پاکستان کو اقوام متحدہ سے کنارہ کشی کرلینی چاہیے۔ سبحان اللہ کیا سوچ ہے یعنی دنیا کے اہم ترین فورم میں بھارت کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیاجائے۔
مجھے اس بات کا بھی ادراک ہے کہ 1971ء میں پاکستان کو دو لخت کرنے میں بعض عالمی قوتوں کا ہاتھ تھا لیکن یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ مشرقی پاکستان میں انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرکے ہم نے بیرونی مداخلت کے لیے دروازہ خود کھولا۔ یہاں اس حقیقت کا بھی اعادہ ہوجائے کہ صدر نکسن نے مشرقی پاکستان کی ہزیمت کے فوراً بعد اندرا گاندھی کو فون کرکے کہا کہ بھارت اب مغربی پاکستان کی جانب للچائی نظروں سے نہ دیکھے۔ عالمی امور میں اصل اہمیت قومی مفادات کی ہوتی ہے۔ یہاں نہ کوئی دائمی دوست ہوتے ہیں اور نہ ہی دشمن۔
بڑے عرصے سے ہم اس خام خیالی میں بھی مبتلا رہے ہیں کہ بھارت نے ہمارے وجود کو ختم کرنے کی کوشش کی تو ہمارے دوست مدد کو آئیں گے۔1971ء میں ہم ساتویں بحری بیڑے کے منتظر رہے پھر ہمارا خیا ل تھا کہ چین مدد کو آئے گا مگر وہ بھی نہ ہوا۔ ہمیں اس بات کا یقین کرلینا چاہیے کہ پاکستان کا دفاع ہم خود ہی کریں گے۔ دوسرے ممالک ہماری مدد کو نہیں آئیں گے۔ جب پچھلے عشرے میں عراق پر ناحق حملہ ہوا تو کیا کوئی ہمسایہ یا دوست ملک اسے بچانے آیا؟ کیا او آئی سی عراق کی مدد کرسکی؟ آج بھی داعش نے عراق کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ دوست ممالک ہوائی بمباری تک تو مدد کررہے ہیں لیکن زمینی دستے بھیجنے کے بارے میں متذبذب ہیں۔ عراق کو بچانے کے لیے بھی ان کی نظریں امریکہ کی طرف لگی ہوئی ہیں۔
ہمارے ہاں فارن پالیسی کے بزعم خود ایکسپرٹ ایک اور نسخہ پاکستان کے لیے تو اتر سے تجویز کرتے ہیں اور وہ ہے او آئی سی کو مضبوط بناکر پاکستان کے لیے ایک موثر عالمی پلیٹ فارم مہیا کرنا۔ یہی نسخہ پچھلے دنوں ایک پروفیسر صاحب نے اسلام آباد میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں تجویز کیا۔ اتفاق سے جو صاحب کانفرنس کے اس اجلاس کی صدارت کررہے تھے وہ او آئی سی میں اہم عہدے پر فائز رہے ہیں۔ وہ گویا ہوئے کہ پاکستان تو 1969ء سے او آئی سی کو مضبوط کرنے کی کوشش میں ہے مگر باقی ممالک ساتھ چلنے کو تیار نہیں اور پھر فرمایا کہ جس بین الاقوامی تنظیم کے ممبران کی اکثریت سالانہ چندہ ہی نہ دیتی ہو وہ مضبوط کیسے ہوگی۔
آپ کو یاد ہوگا کہ صدر اوباما نے دہلی میں واضح طور پر کہا کہ بحرالکاہل کے پانیوں تک بھارت کا کردار ہونا چاہیے۔ امریکہ کی شدید خواہش ہے کہ بھارت اس کے ساتھ مل کر بڑھتے ہوئے چینی اثرورسوخ کا سدباب کرے۔ اس کے جواب میں چین نے بھارت کو پیغام دیا کہ کسی قسم کی مسابقت اور مقابلے میں پڑنے کی بجائے ہمیں باہمی تعاون بڑھانا چاہیے۔ وقت گزرنے کے ساتھ چینی سوچ میں گہرائی اور ٹھہرائو نمایاں ہوگئے ہیں۔
اور ادھر ہمارے ہاں یار لوگوں نے بے پرکی اڑائی کہ 23مارچ کی پریڈ میں چینی صدر اسلام آباد میں شرکت فرمائیں گے۔ تاثر یہ دیا گیا کہ ایسا کرکے پاکستان بھارت اور صدر اوباما کو ترکی بہ ترکی جواب دے گا۔ کتنی جذباتی اور سطحی سوچ ہے ہماری۔ اب باخبر ذرائع یہ کہہ رہے ہیں کہ چینی صدر پاکستان ضرور آئیں گے لیکن ہمارے قومی دن پر نہیں بلکہ دوسری تاریخوں میں آئیں گے۔
ایک غلط مفروضہ ہمارے ہاں یہ پھیلایا گیا کہ اسلام اور جدید یت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے اور اس سے بڑی قباحت یہ ہے کہ جدیدیت اور مغربیت کو ایک ہی مفہوم دے دیا جاتا ہے۔ اسلام اور جدیدیت ایک دوسرے کی قطعاً ضد نہیں۔ جدید تعلیم اور ٹیکنالوجی اپنا کر ہی ترکی ، ملائشیا اور انڈونیشیا آگے نکلے ہیں۔ طرز کہن پر اڑنا نہ علامہ اقبالؒ کو پسند تھا اور نہ ہی ہمیں مرغوب ہوناچاہیے۔ اس لیے کہ جہاں تازہ پیدا کرنے کے لیے نئے افکار اور نئی سوچ ضروری ہیں۔ سرسید احمد خان قائداعظم ؒ اور علامہ اقبال سب اس جدید سوچ کے داعی تھے اور مغربی ناقص رائے میں اگر علی گڑھ یونیورسٹی نہ بنتی تو نہ ہی مسلم لیگ تشکیل پاتی اور نہ ہی پاکستان۔
لہٰذا قومی امور کا عمومی طور پر اور خارجہ تعلقات کا خاص طور پر صحیح ادراک کرنے کے لیے ہمیں نظریہ سازش کی بیساکھی دور پھینک کر اپنی عقل و فہم کا استعمال کرنا ہوگا۔ اپنے ذہن کو کشادہ رکھنا ہوگا۔ تازہ ترین علمی معلومات کا حصول کرنا ہوگا۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے روابط مضبوط کرنے ہوں گے۔ یاد رہے کہ چین کی ترقی بھی جدید علوم اور ٹیکنالوجی کی مرہون منت ہے۔ لاکھوں چینی لڑکے لڑکیاں مغرب سے تعلیم یافتہ ہیں۔
عباسی عہد تک مسلمان جدید علوم اور سائنسی ایجادات میں پیش پیش ر ہے اس لیے کہ وہ فرقان الحمید کے احکام کے مطابق ہر چیز کے بارے میں سوچتے تھے۔ اس زمانے میں ارسطو کی منطق مدارس کی تعلیم کا حصہ تھی۔ عرب ارسطو کو المعلم الاول کہتے تھے۔ جدید فلسفہ اور سائنس کی تعلیم آج کے پاکستانی نوجوان کے لیے بھی بے حد ضروری ہے ورنہ ہم پسماندہ رہ جائیں گے اور اپنی ہر بیماری کا ذمہ دار اغیار کو ٹھہرائیں گے اور نظریۂ سازش میں گرفتار رہ کر اپنی سوچ کو محدود کرلیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں