"JDC" (space) message & send to 7575

صرف دفاعی پوزیشن میں

مڈل ایسٹ کے کئی ممالک میں جنگ کا سماں ہے ۔شام میں خون آشام خانہ جنگی نے دو لاکھ سے زائد جانیں لے لیں اور آگ بجھ ہی نہیں رہی۔ عراق عملی طور پر تین حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے۔ لیبیا اور یمن میں کوئی مرکزی حکومت نہیں۔ جارج بش کے دور حکومت والے نئے قدامت پسند جنہیں عرف عام میں نیوکون Neo-Conکہا جاتا ہے ان کا خواب یہی تھا کہ مڈل ایسٹ کے ممالک کی اسرائیل کو چیلنج کرنے کی استطاعت ختم کردی جائے لیکن مڈل ایسٹ کو اس حال تک پہنچانے میں وہاں کے حکمرانوں اور تشدد پسند تنظیموں کا بھی ہاتھ ہے، اس لیے وہ اپنی تباہی کی ساری ذمہ داری صرف امریکہ پر نہیں ڈال سکتے۔
26مارچ کو سعودی عرب اور اس کے حلفا نے صنعا یعنی یمن کے دارالحکومت پر بمباری کی۔ اس سے پہلے حوثی باغی صدر منصور ہادی کو قصر صدارت میں قید کرچکے تھے ،وہ کسی طور بھاگ کر پہلے عدن پہنچے اور پھر سعودی عرب اور اس کے بعد شرم الشیخ والی عرب لیگ سمٹ میں بھی شریک ہوئے۔ اس عرب سربراہ کانفرنس میں مشترکہ عرب عسکری فورس بنانے کا فیصلہ ہوا۔ حوثی بغاوت کو غیر قانونی قرار دیاگیا اور صدر منصور ہادی کی مکمل حمایت کااعلان کیا گیا۔
اسی تناظر میں برادر ملک سعودی عرب نے پاکستان سے درخواست کی کہ وہ یمن کے معاملے میں مکمل حمایت کرے۔ پاکستان میں رائے عامہ منقسم ہے۔ اپوزیشن کی کئی جماعتوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم یمن کی صورت حال پر بات چیت کے لیے ترکی روانہ ہوچکے ہیں۔ پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلالیاگیا ہے جو کہ خوش آئند ہے۔ اتنے اہم فیصلے باہمی مشورے سے اور سوچ سمجھ کر ہونے چاہئیں اور سب سے مقدم پاکستان کا قومی مفاد ہونا چاہیے۔
اور سب سے ضروری بات یہ ہے کہ اس مرتبہ ہم جو بھی فیصلہ کریں، اس پر یکسو اور متحد نظر آئیں۔ 1990ء والی صورت حال نہیں ہونی چاہیے جب فوج کے سربراہ مرزا اسلم بیگ صدام حسین کی حمایت میں بیان دے رہے تھے اور وزیراعظم نوازشریف سعودی عرب کی طرف مائل تھے۔ میں ان دنوں ریاض میں تھا اور مجھے علم ہے کہ جنرل بیگ کے بیانات سے پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا ۔گو کہ پاکستانی عوام میں جنرل صاحب والی سوچ مقبول تھی۔ اس زمانے میں ٹرکوں کے پیچھے صدام حسین کی تصویریں تھیں۔ لوگوں نے اپنے نوزائیدہ بیٹوں کے نام صدام حسین رکھے۔ آج بہت سارے پاکستانی صدام حسین جوان ہیں۔ اسلام آباد کے ایف ٹین سیکٹر میں جس دکان سے میں سبزی اور فروٹ لیتا ہوں ،اس کے مالک کا نام بھی صدام حسین ہے۔ یہ محل نظر رہے کہ پاکستان میں یہ رجحان امریکہ سے نفرت کا غماز تھا جس پر سیر حاصل بحث پھر کبھی ہوگی۔
برادر ملک سعودی عرب سے سپورٹ کی خواہش کو کئی زاویوں سے پرکھنا ضروری ہے۔ سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستان کسی ملک میں بیرونی مداخلت کا نہ سوچ سکتا ہے اور نہ خود مداخلت کرسکتا ہے۔ 1971ء میں پاکستان بیرونی مداخلت کے سبب دولخت ہوا تھا۔ ہم نے افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت کی ڈٹ کر مخالفت کی۔ شام کے مسئلہ میں ہمیں بارہا کہا گیا کہ اپوزیشن کا ساتھ دیں لیکن پاکستان نے ایسا نہیں کیا کیونکہ شامی اپوزیشن کو بیرونی امداد حاصل تھی اور وہ عسکری قوت سے دمشق کی حکومت بدلنا چاہتی تھی۔ پاکستان پر یہ دبائو بھی رہا کہ وہ فرینڈز آف سوریا کے اجلاس اٹینڈ کرے مگر پاکستان نے ایک بھی میٹنگ اٹینڈ نہیں کی۔ ہمارا موقف اصولی تھا کہ کسی بھی حکومت کو صرف دستوری اور قانونی طریقے سے ہی ہٹایا جاسکتا ہے۔
خارجہ امور اور خارجہ پالیسی پر جب بھی بحث ہوتی ہے تو اکثر کہا جاتا ہے کہ تمام فیصلے قومی مفاد میں ہونے چاہئیں۔ سعودی عرب میں تقریباً بیس لاکھ پاکستانی کام کررہے ہیں۔ زرمبادلہ کی ترسیل میں سعودی عرب پہلے نمبرپر ہے۔ پاکستان میں زلزلہ آیا یا طوفان ،سعودی قیادت نے سب سے پہلے امداد فراہم کی۔ 1998ء میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے اور ان کے نتیجہ میں اقتصادی پابندیاں لگیں۔ ہمارے مالی حالات مخدوش تھے۔ سعودی عرب نے لمبے عرصے تک ہمیں ادھار تیل دیا اور آخر میں اس کی قیمت بھی نہیں مانگی اور ان دنیاوی اعتبارات سے بالاتر ہمارا سعودی عرب سے وہ روحانی رشتہ ہے جو ابدی اور دائمی ہے۔
پاکستانی ایران سے بھی محبت کرتے ہیں۔ ایران سے ہمارا تاریخی ،ثقافتی اور روحانی تعلق ہے۔ ہمارے ایک سابق صدر اور ایک آرمی چیف اپنی وصیت کی وجہ سے مشہد مبارک میں مدفون ہیں لیکن بوجوہ ایران کی حکومت نے پاکستان کو نظر اندازکیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے عرب اور عجم کے درمیان توازن رکھنے کی کوشش کی لیکن جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہمارا جھکائو عربوں کی طرف زیادہ ہوگیا۔ شاہ ایران کے زمانے تک ہمارے تعلقات میں گرم جوشی تھی۔
مجھے یاد ہے کہ 1960ء کی دہائی میں لاہور میں خانم مریم بہنام خانہ فرہنگ ایران کی انچارج تھیں۔ لاہور کے لوگوں میں بے حد پاپولر ۔تھیں اکثر پڑھے لکھے لوگ مال روڈ پر واقع خانہ فرہنگ ضرور جاتے تھے۔ خانم ہر ایک کا خندہ پیشانی سے استقبال کرتیں ۔کئی لوگ وہاں بیٹھ کر ایرانی اخبار اور رسالوں کی ورق گردانی کرتے نظر آتے تھے۔
ایران میں اسلامی انقلاب آیا تو نئی حکومت کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک پاکستان تھا لیکن انقلابی حکومت کے تیور کچھ بدلے بدلے تھے۔ شاہ ایران کے زمانے میں پاکستان کو ایران سے مالی امداد ملتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ کل قرضہ آٹھ سو ملین ڈالر تھا۔ انقلابی حکومت آئی تو تقاضا کیا کہ یہ قرض نہ صرف فوراً واپس کیاجائے بلکہ یکمشت واپس ہونا چاہیے۔ پاکستان کو ایران کی بات ماننا پڑی لیکن بین الاقوامی حالات جامد نہیں رہتے۔ ایران اور چھ اہم ممالک کے مابین ایٹمی معاہدہ فریم ورک کی حد تک ہوگیا ہے۔ اقتصادی پابندیاں اٹھنے کے بعد ایران خوش حال ہوگا۔ گیس پائپ لائن کے امکانات بھی روشن ہیں۔ باہمی تجارت بڑھے گی۔ سعودی عرب کے ساتھ ساتھ ایران کے ساتھ تعلقات بھی بے حد اہم ہیں۔
ہمیں سعودی عرب اور یمن کو علیحدہ علیحدہ دیکھنا چاہیے۔ سعودی عرب کے دفاع کے لیے ہر پاکستانی بے تاب ہے لیکن ہم یمن کی خانہ جنگی کا حصہ نہیں بن سکتے۔ البتہ یہ ہمارا فرض ہے کہ یمن میں جو لوگ عسکری قوت سے اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں، ان کی بھرپور مذمت کریں۔ یہ ہمارا اصولی موقف ہوگا۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یمن میں مسالک کی جنگ ہے ،وہ اصلی پوزیشن کا ادراک نہیں رکھتے۔ یہ صرف حوثی قبائل جو شمال میں سعودی عرب کی سرحد کے ساتھ رہتے ہیں کے سیاسی حقوق اور خود مختاری کا معاملہ ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ حوثی نہ سنی ہیں اور نہ اثنا عشری شیعہ ،ان کا مسلک دونوں کے بین بین ہے۔
یمن افغانستان کی طرح قبائلی ہے۔ غربت عام ہے ۔لوگ بہادر ہیں۔ افغانستان کی طرح ہی پہاڑ بھی ہیں اور صحرا بھی۔ جس ملک نے بھی یمن میں زمینی فوج بھیجی وہ وہاں پھنس جائے گا۔ یمن مڈل ایسٹ کا افغانستان بن سکتا ہے۔
ہمارے وزیر دفاع کے مطابق ایک ہزار پاکستانی فوجی اس وقت سعودی عرب میں ہیں جو زیادہ تر میڈیکل کور کے ہیں۔ ہمیں کچھ مزید دستے وہاں بھیجنے چاہئیں جو صرف اور صرف سعودی عرب کے دفاع کے لیے ہوں اور کسی تیسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہوں ۔مشرق وسطیٰ کی جنگوں کو مسلکی رنگ دیا جارہاہے۔ پاکستان نہ سنی ملک ہے نہ شیعہ یہ فقط اسلامی جمہوریہ ہے اور ایران بھی اسلامی جمہوریہ ہے۔ عرب لیگ کے فیصلے پاکستان پر لاگو نہیں ہوتے۔ یمن میں امن کے لیے اقوام متحدہ کو آگے آنا چاہیے۔
پاکستان کے اندر مسلکی اتحاد اور یک جہتی ہمارا اولین مقصد ہونا چاہیے اور یہ مقصد برادر ملک سعودی عرب کی امداد کرکے بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ہمارا عسکری رول سعودی عرب تک محدود ہونا چاہیے اور ہماری پوزیشن وہاں صرف دفاعی ہونی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں