"JDC" (space) message & send to 7575

شہرت‘ دولت اور تنہائی

پچھلے دنوں ایک عظیم فنکار اس دنیا سے رخصت ہوا۔ پاکستانی فلم بین اسے لارنس آف عریبیہ کے شیخ شریف علی اور ڈاکٹر زواگو جیسی عالمی شہرت یافتہ فلم کے مرکزی کردار کے طور پر جانتے ہیں۔ لیکن کم لوگ جانتے ہیں کہ عمر شریف ایک ذہین اور فطین طالب علم بھی تھا‘ اس کے پاس ریاضی میں ماسٹرز کی ڈگری تھی۔ تاش کے عالمی کھیل برج Bridge کا مشہور کھلاڑی تھا۔ اس کھیل کے بارے میں اس نے متعدد کالم امریکی اخباروں میں لکھے۔ خوش شکل ایسا تھا کہ ہالی وڈ کی کئی اداکارائوں کو مسحور کر گیا‘ ان میں صوفیہ لورین بھی تھی۔ گھوڑوں کی ریس ہو یا کاسینو (Casino) وہ شرط لگائے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ اس نے اربوں کمائے اور اربوں لٹائے۔ زندگی کے آخری دو تین عشرے پیرس کے ہوٹلوں میں سکونت پذیر رہا اور اس قدر دولت اور شہرت کے باوجود احساس تنہائی نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا۔ مائیکل شہوب 1932ء میں اسکندریہ میں عمارتی لکڑی کے بڑے تاجر کے گھر پیدا ہوا۔ اسے اسکندریہ کے مشہور تعلیمی ادارے وکٹوریہ سکول میں داخل کرایا گیا۔ ہر کلاس میں فرسٹ آنا اس کی عادت تھی۔ 12 سال کی عمر میں اپنے سکول ہی سے ڈراموں میں حصہ لینا شروع کیا اور زندگی کے آئندہ 60 سال ایکٹنگ اس کا اوڑھنا بچھونا رہی۔ سکول کے زمانے میں ایک یونانی ماہر نجوم خاتون سے رجوع کیا‘ اس نے پیش گوئی کی کہ تم مصر میں بہت کم رہو گے‘ دولت اور شہرت تمہارے قدم چومیں گی۔
مائیکل تعلیم سے فارغ ہوا تو بزنس میں والد کا ہاتھ بٹانے لگا۔ وہ دن کو بزنس کرتا اور شام کو تھیٹر کے ڈرامے... اس زمانے میں فرنچ زبان کے کھیل... اس کی توجہ کا مرکز رہے کہ فرانسیسی زبان مصری اشرافیہ میں مقبول تھی۔ مائیکل کی پہلی عربی فلم صراع فی الوادی تھی اور پہلی فلم میں ہی اسے ہیرو کارول ملا‘ فاتن حمامہ اس فلم کی ہیروئن تھی۔ فاتن عرب دنیا کی سب سے مشہور اداکارہ تھی اور اس کے کچھ اصول تھے مثلاً وہ بولڈ سین کرنے سے صاف انکار کر دیتی تھی۔ اسی فلم میں جو 1955ء میں مکمل ہوئی مائیکل اور فاتن کا ایک سین روایت سے ہٹ کر تھا۔ فلم بین بے حد حیران ہوئے۔ اصل بات یہ تھی کہ اسی فلم کی شوٹنگ کے دوران مائیکل اور فاتن کی محبت پروان چڑھی اور پھر شادی ہو گئی۔ مائیکل نے اسلام قبول کر لیا اور عمر شریف بن گیا۔ عمر شریف نے ہالی وڈ جانے سے پہلے 26 عربی فلموں میں کام کیا۔
ہالی وڈ میں عمر شریف نے مشہور ہدایتکار ڈیوڈ لین (David Lane) کے ساتھ کام شروع کیا۔ لارنس آف عریبیہ 1962ء میں فلمائی گئی اور پوری دنیا میں ہٹ ہوئی۔ یہ جنگ عظیم اول کے زمانے کی کہانی ہے۔ عرب دنیا سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھی۔ مغربی طاقتیں عربوں کو ترکوں کے خلاف اکسا رہی تھیں۔ کرنل لارنسس کو برطانوی انٹیلی جنس نے عرب قبائل کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بھیجا۔ لارنس فر فر عربی بولتا تھا اور اس کا ہدف وہ ریلوے لائن تھی جو مدینہ منورہ سے شام تک جاتی تھی۔ یہ ریلوے لائن جسے حجاز ریلوے کہا جاتا تھا ترک فوج کے لیے اہم سپلائی روٹ تھا۔ کرنل لارنس نے کئی مرتبہ اس ریلوے پٹڑی کو اپنے عرب دوستوں کی مدد سے اڑا دیا تھا۔ انگریزوں نے عربوں کی وفا کا صلہ اسرائیل کی شکل میں دیا۔ اسے یقینا تاریخی بے وفائی کہا جا سکتا ہے۔
لارنس آف عریبیہ میں عمر شریف کا ہیرو انتھونی کوئن تھا جس نے کرنل لارنس کا رول کیا تھا۔ عمر شریف کو سپورٹنگ رول کے لیے اکیڈمی ایوارڈ ملا۔ اس کے بعد کامیابی گویا اس کی باندی تھی۔ ڈاکٹرزواگو میں اسے ہیرو کا رول ملا‘ یہ انقلاب روس کے زمانے کی کہانی ہے۔ بنیادی آئیڈیا اشتراکیت کی مخالفت ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار بیک وقت طبیب بھی ہے اور شاعر بھی۔ یہ ناول 1956ء میں مکمل ہوا مگر سوویت یونین میں اس کے چھپنے پر پابندی لگی۔ ایک سال بعد یہ ناول اٹلی میں چھاپا گیا اور ناول نگار پاسٹر میک (Pastermek) کو نوبل ایوارڈ ملا۔
عمر شریف کی تیسری بڑی فلم نائٹ آف دی جنرلز (Night of the generals) تھی۔ یہ نازی جرمنی کے زمانے کی کہانی ہے۔ عمر شریف کا رول جرمنی کے پولیس افسر کا تھا۔ اس فلم میں مشہور ایکٹر پیٹرا وٹول اور مشہور اداکارہ ایوا گارڈنر نے بھی کام کیا۔ اب عمر اس قدر مصروف اداکار تھا کہ اس کے پاس مصر جانے کے لیے بھی وقت نہ تھا۔ اس دور کے بارے میں اس نے کہا کہ مجھے اتنی زیادہ کامیابیاں ملیں کہ میں ان کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا‘ لیکن میری ذاتی زندگی ان کامیابیوں کی نذر ہو گئی۔
عمر شریف مہینوں مغربی ممالک میں شوٹنگ میں مصروف رہتا تھا جبکہ فاتن مصر میں رہتی تھی۔ اس صورت حال کا ان کی شادی پر منفی اثر پڑا۔ 1974ء میں ان کی طلاق ہو گئی۔ عمر شریف نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ طلاق کی صرف ایک ہی وجہ تھی اور وہ تھی اس کی لمبے وقفوں کے لیے مصر سے غیر حاضری۔ طلاق کے بعد فاتن نے اور شادی کر لی اور عمر نے فراخدلی سے کہا کہ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ فاتن کو مجھ سے بہتر رفیق حیات مل گیا۔ البتہ عمر شریف نے دوبارہ شادی نہیں کی حالانکہ بے شمار خواتین اس ہر فریفتہ تھیں۔ جب اس سے دوبارہ شادی نہ کرنے کا سبب پوچھا گیا تو جواب یہ تھا کہ شادی صرف اس خاتون سے کر سکتا ہوں جس سے مجھے دلی محبت ہو اور سچ پوچھیں تو فاتن کے بعد مجھے کسی عورت سے محبت نہیں ہوئی۔ عمر اور فاتن کا اکلوتا بیٹا طارق شریف سپین میں رہتا ہے اور کامیاب بزنس مین ہے۔
میں نے عمر شریف کی ذاتی زندگی کے بارے میں ریسرچ کی کوشش کی تو ایک عربی رسالے سے اس کا طویل انٹرویو مل گیا۔ جب اس سے یہ پوچھا گیا کہ فاتن حمامہ کے بارے میں اس کے کیا جذبات ہیں تو جواب دیا فاتن میری سابقہ بیوی ہے‘ میرے اکلوتے بیٹے طارق کی ماں ہے‘ میرے پوتے عمر شریف جونیئر کی دادی ہے‘ ہماری عمر بھر کبھی لڑائی نہیں ہوئی۔ کیا یہ سب باتیں کافی نہیں کہ میں اس فاضل خاتون کی عزت کرتا رہوں۔ یہ جواب عمر شریف کی اعلیٰ ظرفی ظاہر کرتا ہے۔
عمر شریف کو اپنی والدہ سے بہت محبت تھی۔ جب وہ مصر سے باہر رہنے لگا تو والدہ سے دوری فاتن کا فراق اور غریب الوطنی نے اس کا برا حال کر دیا۔ اس نے کئی مرتبہ اس بات کا اقرار کیا کہ شہرت اور دولت احساس تنہائی کا علاج نہیں۔ وہ شوٹنگ سے واپس اپنے ہوٹل کے کمرے میں آتا تو تنہائی اسے ڈسنے لگتی‘ آنکھوں سے نیند کافور ہو جاتی اور وہ گھنٹوں ام کلثوم کے گانے سنتا رہتا۔ وہ ایک موہوم احساس پیدا کرنا چاہتا تھا کہ مصر میں موجود ہے‘ لیکن حقیقت کب بدلتی ہے۔ پھر وہ ہارس ریس میں جانے لگا‘ ساری ساری رات برج کھیلنے لگا۔ عمر شریف کے پاس دولت کی ریل پیل تھی۔ اب اسے شوق چرایا کہ دوسروں کے گھوڑوں پر پیسے لگانے کی بجائے کیوں نا اپنے گھوڑوں کا اصطبل بنایا جائے؛ چنانچہ یہ شوق بھی پورا کر لیا لیکن گھوڑوں کے اس کھیل میں اسے بہت مالی نقصان ہوا۔ پیرس میں اس کا محل نما گھر بھی بک گیا۔ جب مالی حالات زیادہ خراب ہوئے تو اس کے ایک لبنانی دوست نے مشورہ دیا کہ جو پیسے باقی بچے ہیں ان کی چاندی خرید لو۔ عمر نے دو لاکھ ڈالر کی چاندی خریدی جو بہت نفع بخش ثابت ہوئی۔
شاہ خرچ عمر شریف کو پیسوں کی ہمیشہ ضرورت رہتی تھی۔ سر کے بال سفید ہو چکے تھے‘ اب ہیرو کا رول ملنا ممکن نہ تھا ممکن نہ تھا؛ چنانچہ اس نے چھوٹے موٹے فلمی رول بھی قبول کرنے شروع کر دیئے۔ نوبت یہاں تک آئی کہ ایک دن عمر شریف جونیئر نے کہہ دیا کہ دادا ابو اب آپ کی فلمیں فلاپ ہو رہی ہیں‘ لہٰذا اب بس کر دیں۔ لیکن اس نابغہ روزگار ایکٹر میں جو فنکار چھپا ہوا تھا وہ تاحیات ساتھ رہا۔ 72 سال کی عمر میں اسے ایک فرنچ فلم موسیو ابراہیم میں ترک دکاندار کا رول ملا۔ یہ رول عمر شریف نے ایسے شاندار طریقے سے کیا کہ لوگ عش عش کر اٹھے۔ اس رول سے اسے کئی عالمی ایوارڈ ملے۔
عمر شریف کی عظمت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ کبھی ایک طرح کے رولز میں قید نہیں ہوا۔ لارنس آف عریبیہ میں وہ عرب شیخ ہے۔ ڈاکٹر زواگو میں روسی ڈاکٹر ہے۔ نائٹ آف جنرلز میں جرمن پولیس افسر ہے۔ عمر شریف کو چھ زبانوں پر مکمل عبور تھا۔ اس کے بارے میں ایک ناقد نے یہ لکھا ہے کہ وہ مشرقی پلے بوائے تھا لیکن یہ لیبل لگانا بھی زیادتی ہے۔ عمر شریف بے پناہ صلاحیتوں کا مالک عظیم فنکار تھا‘ ایک بے چین روح تھا‘ ایک ایسا شخص تھا جسے بے پناہ شہرت اور دولت ملی مگر تنہائی سے نجات نہ پا سکا۔ اسے پچھلے سال چھپنے والی آل ٹائم گریٹ ایکٹرز کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ اگر مجھے کہا جائے کہ عمر شریف پر بنائے جانے والی فلم کا نام تجویز کروں تو وہ ہو گا شہرت دولت اور تنہائی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں