"JDC" (space) message & send to 7575

جاگتے رہنا

پشاور کے بڈھ بیر ایئر بیس پر دہشت گردوں کے حملے نے ہماری چوکسی کے بارے میں پھر کئی سوال اٹھا دیئے ہیں۔ حدیث شریف ہے: لایُلدغ المومنُ من جحر واحد مرتین۔ یعنی مومن ایک بل سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا اور ہم ہیں کہ ایک ہی بل سے درجنوں مرتبہ ڈسے گئے مگر سبق نہیں سیکھا۔ ایک بہت بڑے اینکر ٹی وی پر فرما رہے تھے کہ پچھلے پانچ چھ سال میں دہشت گردوں نے فوجی تنصیبات پر ہر حملے میں عسکری یونیفارم کا استعمال کیا۔ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ عسکری یونیفارم کا استعمال سب سے پہلے فلسطینی کمانڈوز نے 1986ء میں کراچی ایئر پورٹ پرکیا تھا اور پین ایم کے جہاز پر قبضہ کر کے بائیس لوگوں کو قتل کر دیا تھا۔ یہ جہاز انڈیا سے براستہ کراچی جرمنی جا رہا تھا۔ اس کے بعد کراچی ایئر پورٹ کی سکیورٹی کے حوالے سے سوال کھڑے ہوئے اور اب شاید ہی کوئی مغربی ایئر لائن کراچی آتی ہو۔ سب نے دبئی اور دوحہ کا رخ کر لیا کیونکہ وہاں چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی۔
پشاور کا حملہ علی الصبح ہوا۔ وقت کا انتخاب سوچ سمجھ کیا گیا۔ ایک تو اندھیرے میں ہتھیار لے کر حساس مقامات تک رسائی آسان ہوتی ہے، دوسرے لوگ نمازکی تیاری میں مصروف ہوتے ہیں اور گارڈ روم کے محافظ تمام رات ڈیوٹی دے کر تھکاوٹ کا شکار ہوتے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ کچھ سال پہلے جب اسلام آباد میں میریٹ ہوٹل پر حملہ ہوا تھا تو رمضان کا مہینہ تھا اور افطاری کا وقت تھا، اکثر سکیورٹی گارڈ روزہ افطار کرنے میں مصروف تھے۔ دشمن حملے کے وقت کا تعین سوچ سمجھ کر کرتا ہے اور کارروائی سے پہلے وہ کئی مرتبہ اس جگہ کا غور سے مشاہدہ کرتا ہے، جسے فوجی زبان میں ریکی کہتے ہیں۔
انگریزی کا محاورہ ہے کہ آزادی کو قائم رکھنے کے لیے ہمہ وقت چوکس رہنا ضروری ہے۔ یہ لڑائی صرف افواج پاکستان نے نہیں لڑنی، اس لڑائی میں سب سے اہم رول ہماری پولیس کا ہونا چاہیے۔ یہ لڑائی عوام نے بھی لڑنی ہے اور عوام کا رول مرکزی ہے۔ آپ پوچھیں گے کیسے؟ جب ہم کسی جگہ کوئی مشکوک لوگ دیکھیں تو ہمارا فرض ہے کہ پولیس کو اطلاع دیں۔ مالک مکان کا فرض ہے کہ وہ گھر یا دکان کرایہ پر دیتے وقت کوائف چیک کر کے پولیس تک پہنچا دے۔ ہر درجہ کے ہوٹل مالکان کا فرض ہے کہ کمرہ لینے والے تمام لوگوں کے کوائف تاریخ کے حساب سے رکھیں۔ مُستعمَل موبائل کا کاروبار کرنے والوں کا فرض ہے کہ فون خریدتے اور بیچتے وقت گاہک کے شناختی کارڈ کی کاپی ضرور حاصل کریں اور اپنے ریکارڈ میں رکھیں۔
یہ لیکچر لمبا ہو گیا اور میں کوئی پولیس افسر بھی نہیں ہوں، وہ لوگ اپنا کام بہتر جانتے ہوں گے، لیکن مجھے یہ ضرور پتا ہے کہ انڈین پنجاب میں دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں سب سے اہم رول وہاں کی پولیس کا تھا اور اس سلسلہ میں دو آئی جی بڑے مشہور ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک جولیو فرانسس رائیبیرو (Julio Fransis Ribeiro)تھے اور دوسرے کنور پال سنگھ گِل جنہیں مخفف کے طور پر کے پی ایس گل(KPS gill)کہا جاتا تھا۔ گِل صاحب کو پدما شری ایوارڈ ملا اور انہیں سپر کوپ (super Cop) یعنی شاندار پولیس آفیسر بھی کہا گیا۔ مسٹررائیبیرو کے سرکاری گھر پر جالندھر میں دہشت گردوں نے حملہ کیا اور ان کی بیوی زخمی ہوئیں، مگر ان دونوں افسروں نے ہمت نہ ہاری اور دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی۔
بطور قوم سکیورٹی کے بارے میں ہم بہت ہی تساہل پسند واقع ہوئے ہیں۔ ہماری پولیس کی ٹریننگ بھی واجبی سی ہے۔ اسلام آباد کا ریڈ زون حساس ترین علاقہ ہے، وہاں داخل ہونے سے پہلے ہوٹل سرینا کے قریب پولیس چیک پوسٹ آتی ہے۔ وہاں پر موجود عملہ عرصے سے ایک ہی احمقانہ سوال پوچھ رہا ہے کہ سر آپ نے کہاں جانا ہے؟ میں نے ایک دن کہا کہ میں پرائم منسٹر ہائوس جا رہا ہوں۔ اگلا سوال تھا وہاں کس کو ملنا ہے؟ میں نے جواب دیا میاں نواز شریف سے ملنا ہے۔ پولیس والا سمجھ گیا کہ مذاق ہو رہا ہے، ہنس کے کہنے لگا سر آپ جائیں۔ ان لوگوں کا اصل کام یہ ہے کہ گاہے بگاہے لوگوں کی شناخت چیک کریں، گاڑیوں کی نمبر پلیٹیں دیکھیں۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ایک ہی سڑک پر تمام اہم دفاتر ہیں۔ سپریم کورٹ بھی ہے اور اب ہائی کورٹ کی عمارت بھی وہیں بنے گی، گویا ہزاروں لوگ روزانہ وہاں جائیں گے۔ بالکل سامنے ڈپلومیٹک انکلیو ہے۔ سکیورٹی کے لحاظ سے یہ علاقہ نشانہ رہے گا۔
ہمارے ہاں اکثر کہا جاتا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح عمل نہیں ہو رہا، اس لیے حادثات ہو رہے ہیں۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے، لیکن ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ ابھی کئی سال تک پاکستان دہشت گردوں کے نشانے پر رہے گا اور وجہ افغانستان کی غیر مستحکم صورت حال اور پاک چائنا کوریڈور ہے، جو دشمن کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ ان غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے، مثلاً حساس ادارے اور دیگر سکیورٹی پر مامور لوگوں کے اس بات کی اتھارٹی ہونا چاہیے کہ وہ یونیفارم والوں کی شناخت بھی چیک کریں۔ پورے ملک میں درجنوں قسم کی یونیفارم والے ہزاروں لوگ پھر رہے ہیں، جب تک ایک عام پولیس مین کو ہر ایک سے سوال پوچھنے کا حق نہیں ہو گا ہماری سکیورٹی بہتر نہیں ہو گی۔
ہمارے ہی خطے کے ملک سری لنکا نے دہشت گردی کو بری طرح شکست دی ہے اور مجھے یقین ہے کہ پاکستان سری لنکا سے پیچھے نہیں رہے گا۔ یہ تو آپ کو علم ہو گا کہ سری لنکا کی کامیابی میں پاکستان کی مکمل سپورٹ کا بھی عمل دخل تھا۔ سری لنکا نے یہ جنگ تین محاذوں پر لڑی۔ سب سے اہم محاذ سیاسی تھا۔ سری لنکا کے لیڈر راجہ پاکسے نے الیکشن لڑتے وقت اپنی پارٹی کے منشور میں یہ بات شامل کی تھی کہ ہم دہشت گردوں سے کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ان کا نعرہ تھا کہ تامل دہشت گردوں کے ساتھ امن کرنا بزدلی ہے۔ چنانچہ دہشت گردی کی ستائی ہوئی قوم نے انہیں منتخب کیا کہ وہ ہر صورت عوام کے لیے امن کا حصول ممکن بنائیں گے۔ چنانچہ سری لنکا کی سیاسی قیادت میں ایک قوی ارادہ پیدا ہوا کہ دہشت گردوں کو ہر صورت شکست دینی ہے۔ دوسرا محاذ عسکری تھا۔ راجہ پاکسے نے منتخب ہوکر مناسب ترین افسر کو آرمی چیف بنایا۔ ہمارے ہاں یہ عمل جنرل راحیل شریف کی شکل میں ہو چکا ہے۔ سری لنکا کا تیسرا محاذ سفارتی تھا۔ دنیا کے تمام اہم ممالک کولمبو کی حکومت کے ساتھ تھے، حتیٰ کہ راجہ پاکسے انڈیا کی سپورٹ حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوئے۔
ہمیں دہشت گردی کے خلاف انٹرنیشنل حمایت حاصل کرنے میں چنداں دشواری نہیں ہونی چاہیے۔ امریکہ‘ چین‘ روس‘ یورپی ممالک، ایران اور سعودی عرب سب دہشت گردی کے مخالف ہیں، لیکن سب سے اہم ملک اس سلسلہ میں افغانستان ہے۔ کابل اور اسلام آباد میں مکمل تعاون اور ہم آہنگی ہی وہ ذریعہ ہے جو دہشت گردی کو دونوں ملکوں میں شکست دے گا۔ دونوں ممالک کو مل کر بارڈرکنٹرول بہتر کرنا چاہیے۔ ہمیں پتا ہونا چاہیے کہ وہ لوگ جو بارڈر کراس کرتے ہیں وہ کون ہیں۔ اس طویل جنگ میں سب سے اہم فیکٹر معلومات کا بر وقت حصول ہے۔ اس عمل کے لیے مالی وسائل درکار ہوںگے، اعلیٰ ترین ٹریننگ کی ضرورت ہو گی۔ یہ ایک طویل قومی جنگ ہے جس سے سیاسی اور عسکری قیادت کے علاوہ عوام کا سہ جہتی تعاون ہمیں کامیابی سے ہمکنارکرے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں