"JDC" (space) message & send to 7575

غیر سیاسی بھٹو

بھٹو قبیلہ بہت متنوع اور دلچسپ ہے۔ اس قبیلہ نے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو جنم دیا۔ جماعت اسلامی کے لیڈر اسد اللہ بھٹو بھی اسی قبیلہ سے ہیں۔ قبیلہ چونکہ خاصا بڑا ہے لہٰذا یہ ضروری نہیں کہ ہر بھٹو وڈیرا ہو۔ آج میں جس بھٹو کا ذکر کرنے جا رہا ہوں وہ بھی خاصے منفرد ہیں بلکہ اپنی ذات میں ادارہ ہیں۔1957ء میں ای ڈویژن کلرک سے کیریئر کا آغاز کرنے والا یہ شخص 2002ء میں بطور فیڈرل سیکرٹری ریٹائر ہوا یہ صحیح معنوں میں سیلف میڈ بھٹو ہے۔ ترقی کی تمام سیڑھیاں ایمانداری اور محنت کے زورپر چڑھنے والا یہ شخص نیشنل ڈیفنس کالج میں دس ماہ میرے ساتھ زیر تربیت رہا؛ لہٰذا میں دعویٰ کر سکتا ہوں کہ میں نے اُسے قریب سے دیکھا ہے۔
اپریل1942ء میں لاڑکانہ کے ولی محمد خان بھٹو کے گھر ایک نہایت ذہین بچہ پیدا ہوا۔ والدین نے اس کا نام جمیل احمد رکھا اور پیار سے اُسے گامو پکارنے لگے اس بچے کی ایک خاصیت یہ تھی کہ جب بھی وہ کسی مصلحت کے تحت سچ کو چھپانے کی کوشش کرتا تو اس کے کان احساس گناہ سے سُرخ ہو جاتے۔ اب والدین اُسے گامو سچار کہنے لگے یعنی سچ سے پیار کرنے کا والا گامو۔ پچھلے دنوں(جمیل)بھٹو صاحب کی تازہ ترین تصنیف A Political Bhuttoزیر مطالعہ رہی۔ جیسے جیسے کتاب پڑھتا گیا مجھے یقین ہوتا گیا کہ عنوان صحیح نہیں اس لیے کہ نصف کتاب تو پاکستان کی سیاسی تاریخ ہے پاکستان کی تمام اہم سیاسی شخصیات کے بارے میں جمیل بھٹو نے دو ٹوک رائے دی ہے۔ آخر میں پتہ چلا کہ جمیل بھٹو کا بطور سول سرونٹ کیریئر میں سیاست کا عمل دخل قطعاً نہ تھا یہ اُس قبیل کے 
بیورو کریٹ تھے جو اپنا کام ایمانداری سے کرتے ہیں۔ پورے قومی خلوص اور بے باکی سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ انہیں ذوالفقار علی بھٹو سے فائدے کی بجائے نقصان پہنچا لہٰذا وہ غیر سیاسی ہیں۔ جمیل بھٹو نے میٹرک کیا تو خاندان میںجائداد کے جھگڑے اور مقدمہ بازی شروع ہو چکی تھی اور نتیجہ معاشی عسرت کی صورت میں نکلا۔ جمیل بھٹو نے خاندان کی مالی معاونت کے لیے پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں ای ڈویژن کے کلرک کے طور پر ترانوے(93) روپے ماہوار کی تنخواہ سے ملازمت شروع کر دی۔ تنخواہ کا پہلا چیک آیا تو ساتھ ایک لفافہ بھی تھا۔ بھٹو صاحب کے بقول حیدر آباد میں اُن دنوں اسے ازراہ تفنن ''فضل ربی لفافہ‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس چھوٹے سے عہدے والے عظیم انسان نے وہ لفافہ لینے سے صاف انکار کر دیا اور ریٹائر ہونے تک یہی ایمانداری جمیل بھٹو کے ہمراہ رہی۔1992ء میں ہمارا کورس شروع ہوا، تب نیشنل ڈیفنس کالج راولپنڈی میں تھا۔ مرزا حامد حسن‘ جمیل بھٹو اور میں تینوں اسلام آباد میں رہتے تھے ہم تینوں کے پاس گزارے لائق کاریں تو تھیں لیکن تنخواہ اتنی اجازت نہیں دیتی تھی کہ روزانہ کار میں علیحدہ علیحدہ پنڈی جائیں چنانچہ ہم تینوں نے ''کارپول‘‘ بنایا۔ سب باری باری ایک ہفتہ کے لیے باقی دو دوستوں کو گھر سے پک کرتے اور نیول ہیڈ کوارٹر یعنی ای 8سیکٹر پہنچتے ۔ گاڑی پارک کر کے این ڈی سی کی کوسٹر میں سوار ہوتے اور لال کرتی کے لیے روانہ ہو جاتے۔ کئی مرتبہ بھٹو صاحب کا ایک بچہ بھی سکول جانے کے لیے لفٹ لے لیتا۔ تب مجھے پتہ چلا کہ بھٹو صاحب کے بچے اسلام آباد کے ماڈل سکولوں میں پڑھتے ہیں۔ انکم ٹیکس کمشنر کے بچوں کا عام سکولوں میں جانا حیران کن بات ضرور تھی۔
نیشنل ڈیفنس کالج یعنی این ڈی سی میں گزارے ہوئے لمحے اب بھی یادگار ہیں۔ بھٹو صاحب کا مسکراتا ہوا چہرہ روایتی سندھی خوش اخلاقی اور سیلف میڈ آدمی والی خود اعتمادی ان کی شخصیت کے نمایاں پہلو تھے۔ کورس کا آغاز ہوا تو چار افسروں پر مشتمل ایک ٹیم بنائی گئی جس نے قومی اہداف کی نشان دہی کرنا تھی۔ جمیل بھٹو کمیٹی کے چیئرمین تھے اور میں ممبر۔ اس کمیٹی نے مکمل اہداف کے تعین میں دو دن لگائے۔ ہماری گزارشات پر بحث ہوئی۔ بحث کے دوران معلوم ہوا کہ بھٹو صاحب انکم ٹیکس کے علاوہ قانون لیبر لاز اور انفارمیشن کا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست پر ان کی گہری نظر تھی اور اب بھی ہے اور یہ بات ان کی کتاب میں بھی عیاں ہے۔ کمیٹی کا کام بخیرو خوبی جمیل بھٹو کی زیر صدارت ختم ہوا تو میں نے انہیں چیئرمین بھٹو کہنا شروع کر دیا ایک دن گویا ہوئے کہ مجھے چیئرمین نہ کہا کرو میں فوراً سمجھ گیا کہ اس بات سے انہیں فوراً ذوالفقار علی بھٹو اوراُن کے عدالتی قتل کا خیال آتا ہے۔ جمیل بھٹو نے اس کیس کے سیاسی پہلو کا ذکر اپنی کتاب میں تفصیل سے کیا ہے۔
جمیل بھٹو نے دوران ملازمت کوئی سیاسی فائدہ نہ ذوالفقار علی بھٹو سے حاصل کیا اور نہ ہی بے نظیر بھٹو سے۔ بلکہ سینئر بھٹو صاحب کی حکومت میں تو جمیل بھٹو کو ملازمت سے نکال دیا گیا یہ 1976ء کا واقعہ ہے۔ مشہور وکیل اے کے بروہی سے مشورہ کیا۔ انہوں نے کیس کی تمام تفصیل جمیل بھٹو سے سُنی اور کہا کہ آپ قانون کی ڈگری رکھتے ہیں اور طرز استدلال بھی قوی ہے۔ میرا مشورہ ہو گا کہ آپ سروسز ٹریبیونل کے سامنے خود اپنا کیس لڑیں۔ جمیل بھٹو نے بطور وکیل اپنے آپ کو رجسٹر کرایا کیس لڑا اور سرخرو ہوئے۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ سیلف میڈ لوگ اپنا ماضی چھپاتے ہیں لیکن جمیل بھٹو نے اپنی کلرکی کا ذکر کھل کر کیا ہے۔ گاموسچار کے لیے کوئی چیز چھپانا ممکن ہی نہ تھا اور ویسے بھی یہ بات قابل فخر ہے کہ وہ اپنی محنت کے زور پر کہاں سے کہاں پہنچے۔ بی اے کے فائنل امتحان میں سندھ یونیورسٹی میں ٹاپ کیا۔ تقسیم اسناد کی تقریب میں گورنر مغربی پاکستان نواب کالا باغ مہمان خصوصی تھے۔ جمیل بھٹو کو سٹیج پر بلایا گیا تو سارا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ ذوالفقار علی بھٹو بھی ہال میں موجود تھے وہ تالی بجانے کی بجائے گم سم بیٹھے رہے۔ غالباً انہیں ایک اور بھٹو کا نمایاں ہونا اچھا نہیں لگا۔ سینئر بھٹو کے بارے میں جمیل صاحب کی رائے دو ٹوک ہے فرماتے ہیں''بھٹو کی انا اور جھوٹے تکبر نے اُسے دوستوں اور دشمنوں کے خلاف ظالمانہ کارروائی کی ترغیب دی‘‘ کتاب میں بھٹو کے تضادات کا تفصیل سے ذکر ہے اور 1957ء میں نیو یارک سے لکھے گئے ذوالفقار علی بھٹو کے سکندر مرزا کے اُس خط کا بھی جس میں کہا گیا ہے کہ تاریخ آپ کو قائد اعظم سے بڑا لیڈر لکھے گی۔ ایوب خان کو ڈیڈی کہنے کا بھی ذکر ہے۔
بطور فیڈرل سیکرٹری برائے مذہبی امور جمیل بھٹو نے اپنے تئیں کوشش کی کہ ملک میں مذہبی رواداری کو فروغ ملے وہ بڑے دکھ سے اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ اس مقصد میں کامیابی نہ ہو سکی۔جمیل بھٹو نے بطور فیڈرل سیکرٹری اقتدارکے ایوانوں کو بھی قریب سے دیکھا ہے اور وہاں ہونے والی غلام گردشوں کو بھی وہ اس بات کا بھی دکھ کے ساتھ ذکر کرتے ہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی زرداری صاحب سے شادی کے محترمہ کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔
جمیل بھٹو کا زیادہ کیریئر انکم ٹیکس میں گزرا ہے وہ اس بات کے داعی ہیں کہ پاکستان میں ڈائریکٹ ٹیکس کا تناسب بڑھنا چاہیے ٹیکس چوری کا رجحان کم ہونا چاہیے۔ پاکستان میں باسٹھ ہزار رجسٹرڈ کمپنیاں ہیں جن میں سے ایک تہائی گوشوارے داخل کرتی ہیں اور صرف تین ہزار کمپنیاں منافع ظاہر کرتی ہیں۔
جمیل بھٹو کی داستان حیات پانچ عشروں پر محیط ہے یہ ایک حساس اور درد مند پاکستانی کی کہانی ہے جو چھوٹے صوبوں اور عوام کے لیے انصاف چاہتا ہے۔ اُس شخص کی داستان ہے جس نے ثابت کر دکھایا کہ محنت کی جائے تو کامیابی قدم چومتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں