"JDC" (space) message & send to 7575

کینیڈا میں خوشگوارزندگی

کینیڈا میں 43سالہ جسٹن ٹروڈو نے ایک تجربہ کار وزیر اعظم کا الیکشن کے ذریعے تختہ الٹ دیا ۔ سٹیفن ہارپر نو سال سے وزارت عظمیٰ پر فائز تھے۔ وہ کنزرویٹو یعنی قدامت پسند پارٹی کے سربراہ تھے جبکہ جسٹن ٹروڈو لبرل پارٹی کے ۔ سٹیفن ہارپر البرٹا سے اپنی سیٹ جیت گئے ہیں لیکن پارٹی کی شکست کی وجہ سے وہ جماعت کی لیڈر شپ سے مستعفی ہو گئے۔ کاش ہمارے ہاں جمہوریت کا راگ الاپنے والے بھی اس جمہوری روایت پر عمل کرتے۔ مثلاً زرداری صاحب اور چوہدری شجاعت حسین 2013ء کے الیکشن کے بعد پارٹی قیادت سے علیحدہ ہو جاتے‘ لیکن ہمارے ہاں ابھی جمہوریت آئی ہی کہاں ہے۔
میری ٹورنٹو میں پاکستانی کینیڈین دوستوں سے بات ہوئی ہے ‘وہ بے حد خوش ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ لبرل پارٹی نئے پُرانے سب کینیڈین شہریوں کو ایک آنکھ سے دیکھتی ہے جبکہ قدامت پسند پارٹی اصلی اور گورے کینیڈین شہریوں کو زیادہ پسند کرتی ہے‘ وہ مسلمان خواتین کے حجاب کے حق میں بھی نہیں۔ سٹیفن ہارپر نے صاف کہا کہ وہ شامی مہاجرین کو کینیڈا میں بسانے کے خلاف ہیں۔ اس کے مقابلے میں لبرل پارٹی ملٹی کلچرازم یعنی متنوع ثقافت کے حق میں ہے۔ الیکشن میں کامیابی کے بعد جسٹن ٹروڈو 
نے سکھوں کے ساتھ بھنگڑا ڈالا‘انڈین لوگوں کے ساتھ بریانی کھائی اور پھر پاکستانی لباس پہن کر ایک مسجد چلے گئے۔ لبرل پارٹی کے ٹکٹ پر کئی ہندو اور مسلمان الیکشن جیتے ہیں۔
میں 1978ء میں کینیڈا پہنچا تو جسٹن ٹروڈو کے والد پیئر ٹروڈو وزیر اعظم تھے ‘وہ اس عہدے پر پندرہ سال متمکن 
رہے۔ بہت متلون مزاج شخصیت کے مالک تھے۔ پچاس سال کی عمر تک کنوارے رہے‘ پلے بوائے کے طور پر مشہور ہوئے‘ شخصی آزادیوں کو انتہا تک لے گئے۔ ان کے زمانے میں خواتین کا اسقاط حمل کا حق تسلیم کیا گیا اورہم جنس پرستی کے خلاف قوانین نرم کئے گئے۔ سینئر ٹروڈو کا کہنا تھا کہ شہری اپنے بیڈ روم میں کیا کرتے ہیں ‘اس بات کا کھوج لگانا ریاست کا کام نہیں۔ پیئر ٹروڈو بے حد پاپولر وزیر اعظم تھے ‘وہ اپنی ذاتی زندگی میںجتنے کھلنڈرے تھے بطور وزیر اعظم اتنے ہی محنتی اور سنجیدہ تھے۔ اُن کے دور میں دو اہم اور دور رس واقعات ہوئے جو ان کی ذاتی زندگی اور کینیڈا کی تاریخ کا رُخ موڑ گئے۔
تقریباً پچاس سال کی عمر میں سینئر ٹروڈو نے ایک ایسی لڑکی سے شادی کی جو عمر میں اُن سے تیس سال چھوٹی تھی۔ کینیڈا کی کئی خواتین ٹروڈو سے شادی کی خواہش مند تھیں۔ جہاں اس شادی نے درجنوں خواتین کے دل توڑے وہاں یہ بندھن قومی یک جہتی اور اتحاد کے لیے بے حد مفید ثابت ہوا۔ ٹروڈو فرانسیسی نسل سے تعلق رکھتے تھے مگر کینیڈا کے اتحاد پر اُن کا ایمان راسخ تھا۔ ان کی دلہن مارگریٹ کا تعلق انگریز خاندان سے تھا جو برٹش کولمبیا میں آباد تھا۔ ایسے میں یہ شادی فرنچ اور انگلش کینیڈین لوگوں کو ایک لڑی میں پرو گئی‘ کینیڈین اتحاد کی علامت بن گئی ‘پوری کینیڈین قوم اس نئے بندھن پر بے حد خوش تھی۔ ٹروڈو کے عہد میں کیوبک کی علیحدگی کی تحریک زورشور سے چلی۔ ٹروڈو کا اپنا تعلق بھی کیوبک سے تھا ۔وزیر اعظم نے اس علیحدگی یا آزادی کی تحریک کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اسے کامیاب نہ ہونے دیا۔
اور اب واپس آتے ہیں جسٹن ٹروڈو کی جانب۔1948ء میں والدین کی طلاق ہو گئی تو تینوں بیٹے والد کے پاس رہے۔ اُس سال پیئر ٹروڈو نے وزارت عظمیٰ یہ کہہ کر چھوڑ دی کہ یہ اہم عہدہ اور بچوں کی تربیت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ اس سے کینیڈین لوگوں کے دلوں میں سینئر ٹروڈو کا احترام پیدا ہوا اور آج دیکھیں تو یہ فیصلہ واقعی صائب تھا کہ پیئرٹروڈو نے مستقبل کے وزیر اعظم کی تربیت کرنا تھی اور یہ ہمہ وقت کام تھا۔ سینئر ٹروڈو2000ء میں انتقال کر گئے۔ جسٹن نے ایک مشہور ٹی وی چینل پر اپنے والد کے جنازے کی کمنٹری کی اورقوم کے دل جیت لئے۔ جسٹن اُس وقت ہائی سکول ٹیچر تھے۔ اس واقعے کے بعد وہ اپنے والد کی سیاسی پارٹی میں شامل ہو کر قومی پولیٹکس میں فعال ہو گئے۔ 
جسٹس ٹروڈو نے الیکشن جیتنے کے ساتھ ہی کئی اہم اعلان فارن پالیسی کے حوالے سے کئے ہیں۔ کینیڈا پچیس ہزار شامی مہاجرین کو فوری طور پر قبول کرلے گا۔ سب سے پہلے آنے والے شامی مہاجرین میں ایلان کُردی کی فیملی ہو گی۔ یہ وہ بچہ ہے جو یونانی ساحل پر ملا تھا مگر سمندری لہروں سے زندگی ہار چُکا تھا۔ اسلامک سٹیٹ یعنی ISکے خلاف بمباری میں کینیڈا شریک نہیں رہے گا۔ ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات فوری طور پر بحال کئے جائیں گے ‘گویا آنے والے لبرل پارٹی کے دور میں بین الاقوامی تعاون میں کینیڈا شامل ہو گا اور جنگ جوئی سے دور رہے گا۔ شخصی آزادیوں کا احترام ہو گا۔ مسلمان خواتین کو حجاب لینے سے بھی نہیں روکا جائے گا۔
انٹر نیٹ پر کینیڈا کے مستقبل کے 
وزیر اعظم کے کئی کلپ موجود ہیں۔ نتائج آتے ہی جسٹن نے مونٹریال کی میٹرو کا رُخ کیا۔ کئی ریلوے سٹیشنوں پر مسافروں سے ہاتھ ملایا اور اُن کا شکریہ ادا کیا۔ جسٹن ٹروڈو اپنے والدین کی طرح خوش شکل اور ہنس مُکھ ہے۔ اس الیکشن میں 68فیصد لوگوں نے حق رائے دہی استعمال کیا اور دو سو ممبران کی پارلیمنٹ کا انتخاب کیا۔ جسٹن ٹروڈو کی لبرل پارٹی کی فتح اسلامو فوبیا کی شکست بھی ہے‘ مستقبل کے کینیڈا میں تعصب کم ہو گا۔ کالے گورے ‘ہندو ‘سکھ ‘مسلمان‘ کرسچین ‘یہودی سب برابر کے شہری ہونگے۔ یہ تکثیریت یعنی Pluralismکی فتح ہے۔ معیشت کی ریکوری جسٹن ٹروڈو کا ہدف اول ہے ۔نئے لیڈر نے اعلان کیا ہے کہ وہ بجٹ خسارے کی پروا کئے بغیر انفراسٹرکچر کے کئی نئی پراجیکٹ شروع کرے گا۔
یہاں اس دلچسپ واقعے کا ذکر بھی ہو جائے جو اپریل1973ء میں پیش آیا ۔امریکہ کے صدر رچرڈ نکسن کینیڈا کے سرکاری دورے پر تھے۔ وزیر اعظم نے ان کے لیے اپنے گھر پر لنچ کااہتمام کیا۔مارگریٹ ٹروڈو نے چار ماہ کے جسٹن کو گود میں اٹھایا ہوا تھا۔ مغربی ممالک میں کھانے کے بعد ٹوسٹ تجویز کرنے کا رواج عام ہے۔ صدر نکسن نے اپنا ٹوسٹ ننھے مُنے جسٹن کے نام تجویز کیا اور ساتھ ہی کہا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ آئندہ کا کینیڈین وزیر اعظم ہو۔ صدر نکسن کی پیش گوئی سچ ثابت ہوئی ہے۔ کینیڈا رقبے کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے‘ اس کے پاس تیل اور گیس کے ذخائر بھی ہیں اور یہ ہمارے لیے اس وجہ سے بھی اہم ہے کہ وہاں کئی پاکستانی آباد ہیں۔ خدا کرے کہ جسٹن ٹروڈو کی قیادت میں کینیڈا اقوام عالم میںامن ‘ترقی اور تعاون کی علامت بن کر ابھرے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں