"JDC" (space) message & send to 7575

کھسیانی بلی کھمبا نوچے

سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کا کہنا ہے کہ 2003ء میں عراق پر حملہ غلط انٹیلی جنس معلومات کا نتیجہ تھا، یعنی موصوف اب بھی اپنی غلطی پوری طرح نہیں مان رہے۔ اس بات میں اب شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ بے گناہ عراقیوں کا خون دو بے رحم مغربی لیڈروں یعنی جارج بُش اور ٹونی بلیئر کے سر ہے۔ کسی ملک پر فوج کشی صرف یو این سکیورٹی کونسل کی منظوری سے ہو سکتی ہے۔ عراق کے بارے میں سکیورٹی کونسل کی قرارداد نمبر 1441میں کوئی ایسی اجازت نہ تھی۔ جنگ سے قبل امریکہ اور برطانیہ نے خوب پروپیگنڈا کیا کہ عراق کے پاس ایٹمی اور کیمیائی ہتھیار ہیں۔ عراقی حکومت نے انٹرنیشنل اٹامک ایجنسی کے انسپکٹرز کا خیر مقدم کیا۔ معائنہ کار عراق آئے اور کونے کونے کو چھان مارا مگر مہلک ہتھیار نہ ملے۔ پھر پروپیگنڈا شروع ہوا کہ صدام حسین کا القاعدہ سے گٹھ جوڑ ہے اور یہ بھی سفید جھوٹ تھا۔ خوئے بدرا بہانہ بسیار ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر عراق کا قصور کیا تھا؟ صدام حسین کا بڑا گناہ یہ تھا کہ وہ اسرائیل مخالف تھا اور اس کا ملک تیل کی دولت سے مالا مال۔ مغربی ممالک کی نظریں تیل پر مرکوز تھیں۔ امریکہ کے نیو کون مشرق وسطیٰ میں جمہوریت پھیلانے کے بہانے نئے زمینی حقائق پیدا کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ عراق پر حملے کا فیصلہ تو 9/11کے جلد ہی بعد کر لیا گیا تھا، مگر دیر اس وجہ سے ہوئی کہ 9/11کے حملوں کی منصوبہ سازی افغانستان میں ہوئی تھی لہٰذا عراق میں فوجی مداخلت کے لیے امریکی اور برطانوی رائے عامہ کو ہموار کرنے میں کچھ وقت لگا، ورنہ2002ء میں بُش اور بلیئر کے درمیان عراق پر فوج کشی کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ 
اب اس فیصلے کے حق میں ووٹ لینے کے لیے اقوام متحدہ سے رجوع کیا گیا۔ یہاں جرمنی اور فرانس ڈٹ کر ملٹری آپشن کی مخالفت کر رہے تھے۔ فرانس نے تو اس بات کی دھمکی بھی دی کہ اگر فوج کشی کا معاملہ سکیورٹی کونسل میں آیا تو وہ ویٹو کا حق استعمال کرے گا؛ چنانچہ امریکی کانگریس اور برطانوی ہائوس آف کامنز کی قرار دادوں کی بنیاد پر یہ جنگ شروع کی گئی جس میں صرف چار ممالک یعنی امریکہ ‘برطانیہ ‘ آسٹریلیا اور پولینڈ کی افواج شامل تھیں۔ پولینڈ کے فوجیوں کی کل تعداد دو سو سے کم تھی یعنی یہ ملک انگلی کو خون لگا کر شہیدوں میں شامل ہو رہا تھا۔ لندن اور روم سمیت پوری دنیا میں جنگ مخالف مظاہرے ہو رہے تھے۔ روم کے مظاہرے میں تیس لاکھ مظاہرین شامل ہوئے اور اس مظاہرے کا ذکر سب سے بڑے مظاہرے کے طور پر گینز بک آف ریکارڈز میں کیا گیا۔
عراق سب حکمرانوں کے لیے چیلنج رہا ہے۔ کربلا سے لے کر زمانہ حاضر تک اس سرزمین نے بہت ظلم دیکھا ہے۔ مسلمانوں کے دونوں بڑے مسالک یہاں شدو مد سے موجود ہیں۔ شمال مغربی علاقہ کردوں کا ہے۔ میں جب عرب دنیا میں تھا تو کئی لوگ کہتے تھے کہ عراق کو دو ہی حکمران کنٹرول کر سکے ہیں ایک حجاج بن یوسف اور دوسرے صدام حسین۔ مسلمانوں کے علاوہ عیسائی بھی عراق میں موجود ہیں۔ سابق وزیر خارجہ طارق عزیز عیسائی تھے۔ عرب ممالک میں عیسائی پڑھے لکھے اور بااثر ہیں۔ اگرچہ صدام عقیدے کے لحاظ سے سُنی مسلمان تھا لیکن دراصل وہ سیکولر بعث پارٹی کا لیڈر تھا ۔ بعث پارٹی عقائد کی بحث میں الجھنے کے بجائے عرب نیشنلزم پر یقین رکھتی تھی۔ اس پارٹی نے عراق اور شام میں آہنی ہاتھ سے حکومت کی۔ یہ دونوں ممالک اصلی جمہوریت سے بہت دور تھے۔لیکن مغربی مداخلت کے بعد کی جمہوریت بھی لنگڑی لولی جمہوریت تھی۔ نوری المالکی کا طویل عہد حکومت عراق میں گہرے مسائل چھوڑ گیا ہے ۔نوری المالکی نے یُو ٹرن لیا اور اپنے مسلک ( اہل تشیع) کے لوگوں کو ہر طرح سے نوازا۔ یہ حقیقت ہے کہ صدام حسین کے زمانے میں عراق میں القاعدہ کا کوئی وجود نہ تھا۔ القاعدہ کی نشو و نما مغربی حملے کے بعد شروع ہوئی۔ اسی طرح داعش کی نشو و نما میں نوری المالکی کی یک طرفہ پالیسی کا کافی ہاتھ ہے۔ آج داعش کا اژدھا پوری دنیا پر پھنکار رہا ہے۔
اب موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔ سی این این پر فرید زکریا کو دیئے گئے انٹرویو میں ٹونی بلیئر نے صرف جزوی طور پر تسلیم کیا ہے کہ داعش کے ظہور پذیر ہونے میں مغربی عسکری مداخلت کا بھی عنصر شامل ہو سکتا ہے۔ اپنے جواب کے حق میں موصوف نے دلیل یہ دی ہے کہ داعش کی جڑیں دراصل شام میں تھیں۔ یہ ایک بودی دلیل ہے۔ داعش کی جڑیں عراق اور شام دونوں ممالک میں ہیں اور داعش کے لیڈر ابوبکر البغدادی ہیں جو اپنے آپ کو خلیفہ المسلمین تصور کرتے ہیں۔ ابوبکر البغدادی عراقی ہیں۔
ٹونی بلیئر اب بھی بضد ہیں کہ صدام حسین کو ہٹانا ایک اچھا قدم تھا۔ میں خود کبھی بھی صدام کے حق میں نہیں رہا۔ صدام حسین نے 1979ء میں ایران پر ناحق حملہ کیا اور 1990ء میں کویت پر غاصبانہ قبضہ کیا لیکن اکثر مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ آج کا عراق عہد صدام سے بدتر ہے۔ آدھا ملک ایک ظالم انتہا پسند تنظیم کے کنٹرول میں ہے۔ کرد عملی طور پر خود مختارہیں۔ بغداد کی کمزور حکومت اس غریب کی جو رو کی مانند ہے جسے سب بھابھی کہتے ہیں۔ کل کے جاہ و جلال والا عراق جہاں کی سڑکیں تعلیم اور صحت کی سہولتیں اعلیٰ قسم کی تھیں، جس کے پاس بہت بڑی فوج تھی، آج واشنگٹن کے علاوہ ماسکو اور تہران کو بھی بڑے ادب اور احترام سے سلام کرتا ہے ع
بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے
جب فرید زکریا نے ٹونی بلیئر سے پوچھا کہ اگر آپ کو جنگی مجرم کہا جائے تو آپ کیسا محسوس کریں گے؟ اس کا موصوف کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ 
قارئین کے لیے یہ امر دلچسپی کا باعث ہو گا کہ 2004ء میں پاکستان سے بھی عراق فوج بھیجنے کا کہا گیا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ عراق لیڈر ایاّد علاوی نے جنرل مشرف سے رابطہ کیا تھا۔ میں ان دنوں فارن آفس میں ایڈیشنل سیکرٹری تھا۔ فارن آفس نے اس تجویز کی مخالفت کی۔ عبوری وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین نے بھی یہی موقف اختیار کیا؛ چنانچہ پاک فوج عراق نہیں گئی اور یہ ایک صائب فیصلہ تھا۔
اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ بارہ سال گزرنے کے بعد ہی ٹونی بلیئر کو اپنی صفائی پیش کرنے کا خیال کیوں آیا؟ بات کچھ یوں ہے کہ سر جان چلکوٹ۔ Sir Johan Chilcotکی سربراہی میں قائم کی گئی کمیٹی کی رپورٹ چند ماہ میں متوقع ہے۔ اغلب خیال یہی ہے کہ بش اور بلیئر کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا، لیکن اس سے کیا لاکھوں عراقیوں کی زندگیاں واپس آ سکیں گی جو بُش اور بلیئر کے غلط فیصلوں کی وجہ سے اپنی جان سے گئیں؟آخر میں نوٹ فرما لیں کہ پچھلے کالم کا عنوان ''کینیڈا میں خوشگوار تبدیلی‘‘ تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں