"JDC" (space) message & send to 7575

پاک ہند افغان مثلّث

حال ہی میں پاک انڈیا تعلقات پھر ایک بہتر نہج پر آ گئے‘ اور یہ سب کچھ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے دوران ہوا‘ جو کہ بنیادی طور پر افغان امن اور خطے کے ممالک میں روابط کے فروغ کے لیے تھی۔ پاکستان اور انڈیا نے دو طرفہ بات چیت پھر سے شروع کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ ڈائیلاگ ممبئی کے حوادث کے بعد سے بند ہیں۔ سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ پاک انڈیا کُٹّی کیسے ختم ہوئی اور آئندہ دو طرفہ تعلقات کس طرف جائیں گے۔ ان دو طرفہ تعلقات میں ایک اہم مطالبہ انڈیا کی طرف سے آیا ہے کہ پاکستان ہمیں افغانستان کے ساتھ تعلقات کے لیے برّی راستہ دے۔ اس طرح یہ ایک دلچسپ مثلث کی شکل بن گئی ہے اور اس مثلث میں پاکستان کا مقام مثلث کے عمودی زاویہ والا ہے۔
پاک ہند تعلقات میں بہتری لانے والا پہلا عنصر بیرونی دبائو ہے۔ امریکہ نے سب سے پہلے دو طرفہ بات چیت شروع کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا‘ اس سے صاف ظاہر ہے کہ امریکہ نے وزیر خارجہ شسما سوراج کے پاکستان آنے کے لیے بھی کام کیا ہو گا ورنہ وہ اپنے سیکرٹری خارجہ کو بھی انڈیا کی نمائندگی کے لیے بھیج سکتی تھیں۔
مقبوضہ کشمیر بہار اور گجرات میں الیکشن ہو چکے۔ ہر انتخاب میں بی جے پی نے یہ کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ سختی سے نمٹ رہے ہیں۔ لیکن پاکستان مخالف نعروں کی ویسے بھی افادیت کم ہو چکی ہے۔ کچھ مغربی مبصرین کا کہنا ہے کہ انڈیا تب تک عظیم عالمی قوت نہیں بن سکتا جب تک اس کے اپنے تمام ہمسایوں کے ساتھ تعلقات دوستانہ نہیں ہوتے اور ان ہمسایوں میں پاکستان سب سے اہم ہے۔
دوسری جانب امن پاکستان کی بھی اشد ضرورت ہے۔ دو محاذوں پر ہمہ وقت نظر رکھنا پاکستان کے لیے مشکل ہے اور اگر پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری لانی ہے تو لازم ہے کہ ملک کی سرحدوں پر اور داخلی محاذ پر امن ہو۔ نان سٹیٹ ایکٹرز کا خطے میں وجود دونوں ملکوں کے لیے خطرناک ہے۔ یاد رہے کہ ہمارے خطے میں نان سٹیٹ ایکٹرز کی روایت سب سے پہلے انڈیا نے ڈالی تھی‘ اور مکتی باہنی کے ذریعے پاکستان کو دولخت کیا تھا۔ پھر پاکستان‘ امریکہ اور بعض عرب ممالک نے نان سٹیٹ ایکٹرز کے ذریعے یعنی افغان جہادی تنظیموں کی مدد سے سوویت یونین کو افغانستان سے نکالا۔ ہمارا خیال تھا کہ شاید اس پالیسی کے تسلسل سے ہم کشمیر آزاد کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن یہ ہماری خام خیالی تھی۔ بین الاقوامی فضا ہمارے خلاف تھی۔ کارگل کی جنگ ہوئی تو دنیا کے اہم ممالک پھر ہندوستان کے ساتھ کھڑے تھے۔ ہمارے ایئر چیف کو علم نہیں تھا کہ جنگ شروع ہو گئی ہے۔ یہی صورتحال سفارت خانوں کی تھی۔ میں اس وقت یونان میں سفیر تھا۔ ایک عجیب قسم کا کنفیوژن تھا۔ بالآخر 6جنوری 2004ء کو لاہور ڈیکلریشن پر دستخط کر کے ہم نے اپنی غلط کشمیر پالیسی کا اقرار کر لیا۔
دو ہفتے پہلے میری ایک انڈین سفارت کار سے ملاقات ہوئی ۔ یہ صاحب آج سے دس سال پہلے اسلام آباد میں خدمات سرانجام دے چکے تھے۔ جب میری ملاقات ان سے ہوئی تو حالات خاصے مایوس کن تھے۔ یہ صاحب بھی مستقبل سے زیادہ پُرامید نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ممبئی کے دہشت گرد حملوں کے بعد انڈین رائے عامہ بہت بدلی ہے عام آدمی کا خیال ہے کہ پاکستان سے بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں۔ میں نے کہا: جناب ممبئی کے حملوں میں بھی نان سٹیٹ ایکٹرز ملوث تھے۔ حکومت پاکستان کو تو ان حملوں کا علم تک نہیں تھا۔ پھر یہ صاحب کہنے لگے کہ دو طرفہ اسٹیبلشمنٹ تمام اہم فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ میں نے کہا کہ آپ کے ہاں بھی سیاچن پر کیا گیا دو طرفہ معاہدہ انڈین ملٹری کی مخالفت کی نذر ہو گیا تھا۔
انڈین پاکستانی تعلقات کتنے بھی خراب ہوں انٹرنیشنل کمیونٹی دونوں ممالک کی غیر حکومتی لیول پر بات چیت کرانے کی کوشش میں مصروف رہتی ہے۔ اسی مہینے کے اوائل میں تھائی لینڈ میں انڈیا اور پاکستان کے میڈیا کے لوگوں کی چائو پھرایہ کے خوبصورت مقام 
پر ملاقات ہوئی۔ پاکستان کی جانب سے سابق سفیر عزیز احمد خان‘ مشرف زیدی‘ سیرل المیڈا‘ ڈاکٹر معید پیرزادہ‘ مہر بخاری‘ مہر تارڑ اور فہد ہمایوں گئے۔ یاد رہے کہ چائو پھرایہ کے مقام پر مختلف سطح پر چند سالوں سے انڈو پاک ملاقاتیں وقفے وقفے سے ہوتی رہی ہیں۔ یہ دو طرفہ ملاقات 17واں اجلاس تھا۔ جب سے دونوں ملکوں کے پاس ایٹمی ہتھیار آئے ہیں۔ بین الاقوامی کمیونٹی کی جنوبی ایشیا کے امن میں دلچسپی بڑھی ہے‘ جو کہ خوش آئند بات ہے۔
یہاں اس بات کا اقرار بھی ضروری ہے کہ ممبئی کے حملوں کے بعد بھی بین الاقوامی رائے عامہ انڈیا کے ساتھ تھی۔ آپ کو یاد ہو گا کہ ممبئی حملوں میں امریکی برطانوی اور اسرائیلی شہری بھی ہلاک ہوئے تھے۔ انڈیا کا دوسرا اہم مطالبہ یہ ہے کہ ذکی الرحمن لکھوی اور اس کے ساتھیوں کا ٹرائل تیز کیا جائے‘ جسے پاکستان نے تسلیم کر لیا ہے۔
اور اب آتے ہیں افغانستان کی جانب ۔ صدر اشرف غنی غالباً یہ تہیہ کر کے آئے تھے کہ پاکستان میں بالکل نہیں مسکرائیں گے‘ لیکن ایئرپورٹ پر انہیں جس طرح کا پروٹوکول ملا اس سے ان کا موڈ قدرے بہتر ہو گیا۔ افغانستان کے پاکستان سے دو بڑے مطالبے ہیں: اولاً‘ حقانی گروپ سے سختی سے نپٹا جائے ثانیاً طالبان کو کابل میں مذاکرات کی میز پر لایا جائے۔ ان مطالبات کو مکمل طور پر پورا کرنا پاکستان کے لیے مشکل ضرور ہو گا۔ حقانی گروپ افغان طالبان کا حصہ ہے‘ اگر پاکستان اس گروپ کے خلاف ملٹری ایکشن کرتا ہے تو پھر طالبان کو مذاکرات کے لیے کیسے آمادہ کرے گا؟ یہ ہمیں اچھی طرح علم ہے کہ افغان طالبان آزاد منش لوگ ہیں کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیتے۔ اور اگر افغانستان کے مطالبات ماننا مشکل ہے تو انڈیا کی ڈیمانڈ پوری کرنا بھی آسان نہیں۔
اگر ذکی الرحمن لکھوی کے ساتھیوں کا ٹرائل تیز ہوتا ہے تو پاکستانی پبلک حکومت سے یہ پوچھ سکتی ہے کہ انڈیا میں سمجھوتہ ایکسپریس کے کیس کا کیا بنا۔ اسی طرح سے انڈیا اور افغانستان کو باہمی تجارت کے لیے راہداری دینا بھی اتنا آسان نہیں ہو گا۔ سوال یہ پیدا ہو گا کہ پاکستان کو بدلے میں کیا ملے گا؟ چلیں فی الحال کشمیر نہ سہی مگر سرکریک اور سیاچن کے مسئلے تو حل کئے جا سکتے ہیں۔
افغان حکومت کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ جب تک دونوں حکومتوں کا بارڈر کراسنگ پر مکمل کنٹرول نہیں ہوتا دہشت گردی اور سمگلنگ پر قابو پانا مشکل ہو گا اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ بارڈر کا بیشتر حصہ پر بار یعنی Fence لگائی جائے۔
سشما جی کہتی ہیں کہ بین الاقوامی برادری کو تینوں ملکوں سے امیدیں وابستہ ہیں‘ ہمیں انہیں مایوس نہیں کرنا چاہیے۔ بالکل صحیح فرمایا آپ نے‘ لیکن خطے میں مکمل امن لانے کے لیے آپ کو بھی پاکستان کے چند مطالبات ماننا ہوں گے۔ افغانستان کو بھی خیال خاطر احباب رکھنا ہو گا۔ یہاں تالی تین ہاتھوں سے ہی بج سکے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں