"JDC" (space) message & send to 7575

اسلام آباد بلدیاتی الیکشن‘ چند ذاتی مشاہدات

1960ء کی دہائی کی بات ہے کہ ایک امریکی سفارت کار نے‘ جو پاکستان میں متعین تھا‘ کہا تھا کہ اسلام آباد نیویارک کے قبرستان سے آدھا ہے اور اُس سے دوگنا بے جان۔ اگرچہ آج صورتحال بہت مختلف ہے لیکن سیاسی اعتبار سے یہ اب بھی خاصا بے جان ہے گوکہ بڑے بڑے قومی اور انٹرنیشنل فیصلے یہیں ہوتے ہیں لیکن اسلام آباد کے باسیوں نے پانچ عشروں بعد پہلی مرتبہ اپنے لوکل نمائندے منتخب کئے ہیں۔ میں نے اپنی فیملی سمیت حق رائے دہی استعمال کیا اور ووٹ مسلم لیگ (ن) کو دیئے حالانکہ قومی اسمبلی کے الیکشن میں ہمارے ووٹ تحریک انصاف کو گئے تھے۔ اس تبدیلی کی توضیح آگے آئے گی۔ بہرحال اس الیکشن سے اسلام آباد کے عام شہری میں کُچھ سیاسی جان ضرور آئی ہے‘ کیونکہ لوکل یا بلدیاتی الیکشن سڑک‘ سیوریج اور سکول جیسے بنیادی مسائل کے گرد گھومتے ہیں۔ قومی انتخابات اس سے ذرا مختلف ہوتے ہیں۔ گزشتہ نو دس ماہ سے ہمارا سیکٹر جی 13 فیڈرل ہائوسنگ فائونڈیشن کے مکمل کنٹرول میںہے یعنی سی ڈی اے کا یہاں کوئی اختیار نہیں۔ تب سے سیکٹر کے حالات مزید خراب ہوئے ہیں۔ فائونڈیشن کے پاس نہ کوئی انجینئرنگ ونگ ہے اور نہ ہی سیکٹر چلانے کا تجربہ۔اب یہ سیکٹر اسلام آباد کا حصہ نہیں لگتا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سے شرفا سیکٹر چھوڑ کر چلے گئے۔ لیکن جن لوگوں نے ذاتی گھر یہاں تعمیر کر لئے ہیں اُن کے لیے مکان بیچ کر پھر سے نئی تعمیر کسی صورت آسان نہیں جبکہ اکثر باسی ریٹائرڈ شدہ ہیں اور میری طرح عمر عزیز کے آٹھویں عشرے میں قدم رکھ رہے ہیں۔ میرے لیے مسئلے کا ایک ممکنہ حل یہ تھا کہ لاہور میں اپنے گھر میں شفٹ ہو جائیں مگر فیملی اسلام آباد میں ہی رہنے پر مصر تھی اور آج کے جمہوری دور میں فیصلے گھروں میں بھی ووٹوں پر منحصر ہیں۔
تین چار ماہ قبل جب سیکٹر کے حالات بہت گمبھیر ہو گئے تو وزیراعظم سیکرٹریٹ میں خواجہ ظہیر صاحب کو فون کیا کہ موصوف اہم عہدے پر فائز‘ اور زیرک انسان ہیں‘ بہت عرصہ پہلے اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر بھی رہے ہیں۔ خواجہ صاحب نے بات غور سے سُنی اور کہا کہ آپ کا سیکٹر آنے والے لوکل الیکشن میں کسی اچھے شخص کو یونین کونسل کا چیئرمین منتخب کرے‘ یہ شخص اتنی صلاحیت کا مالک ہو کہ اسلام آباد کارپوریشن کا عہدے دار منتخب ہو کر آپ کے لوکل مسائل کا حل نکالے۔ ہم خواجہ صاحب کا جواب سُن کر وقتی طور پر خوش ہو گئے‘ بعد میں پتہ چلا کہ تجویز کردہ حل قابل عمل نہیں۔ لوکل الیکشن میں ہمارا حلقہ یوسی 39 بنتا ہے اس میں جی 13 کے ووٹ صرف دس فیصد ہیں جبکہ نوے فیصد ووٹ میر اجعفر یعنی جی 12 والوں کے ہیں جو پرانی آبادی ہے۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ دیہاتی اور پرانی آبادیوں والے حکومتی پارٹی کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ ان کے اکثر کام تھانہ کچہری سے متعلق ہوتے ہیں۔ دوسری مسلمہ بات یہ ہے کہ پرانی آبادیوں والے برادری کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں‘ لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ جی 13 کا کوئی پڑھا لکھا شخص میراجعفر کی اعوان برادری کا مقابلہ کر سکے۔ اس الیکشن کے بعد میں مسلم لیگ (ن) کی الیکشن لڑنے کی صلاحیت کا قائل ہو گیا ہوں۔ یہ پارٹی برادریوں کی قوت کا ناپ تول کرتی ہے اور پھر ٹکٹ دیتی ہے۔ الیکشن کے عمل کو مسلم لیگ (ن) نے سائنس بنا دیا ہے۔ تحریک انصاف الیکشن کے بندوبست میں ابھی طفل مکتب ہے۔ اپنی مرضی کی حلقہ بندیاں بااثر برادری کا 
انتخاب‘ پرزور ڈور ٹو ڈور مہم اور الیکشن والے دن ٹرانسپورٹ بلکہ کھانے تک کا بندوبست مسلم لیگ کا طرہ امتیاز ہے۔ تحریک انصاف کو اگلے انتخابات میں درجنوں جہانگیر ترین درکار ہوںگے۔
اور پھر وہ ماسٹر سٹروک کہ 30 نومبر کو اسلام آباد کے دفتر معمول کے مطابق کام کر رہے تھے کیونکہ سرکاری ملازمین بھی زیادہ تر تحریک انصاف کے ووٹر ہیں اور برادریوں کے چنگل سے آزاد۔ یہ ماسٹر سٹروک بھی صرف مسلم لیگ کھیل سکتی تھی۔ اگر اس دن اسلام آباد کے دفاتر بند ہوتے تو شاید نتائج مختلف ہوتے۔ دوسرا ماسٹر سٹروک الیکشن سے دو دن پہلے ڈاکٹر طارق فضل چودھری کو وزیر مملکت بنا کر اسلام آباد کے امور انہیں سونپنا تھا۔
اور اب آتے ہیں اس سوال کی جانب کہ میری فیملی اور سیکٹر کے ہم خیال دوستوں نے مسلم لیگ کو ووٹ کیوں دیا۔ اس کا سب سے آسان جواب تو یہ ہے کہ ہم نے آج تک پی ٹی آئی کے امیدوار جمشید مغل کی شکل نہیں دیکھی جبکہ مسلم لیگ کے امیدوار ساجد محمود ملک ہمارے سیکٹر کے ایک معتبر آدمی کے ساتھ ہمارے گھر آئے‘ وہ اس علاقے میں عرصے سے آباد ہیں۔ سیکٹر کے مسائل کی بھی انہیں سوجھ بوجھ ہے۔ ساتھ ہی کہنے لگے کہ طارق فضل چودھری نے سی ڈی اے کا بھی چارج لے لیا ہے اگر میں کامیاب ہو گیا تو کوشش کروں گا کہ آپ کا سیکٹر بھی سی ڈی اے کے پاس چلا جائے۔ بات ان کی معقول تھی۔ اس دفعہ تحریک انصاف کو ووٹ نہ دینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہمارے ایم این اے اسد عمر کا اپنے حلقہ نیابت سے تعلق نہ ہونے کے برابر ہے۔ 
اسلام آباد کے مسائل بہت بڑھ گئے ہیں‘ تجاوزات بے شمار ہیں۔ سعودی عرب اور ایران میں کوئی حکومت کی مرضی کے بغیر مسجد نہیں بنا سکتا۔ ہمارے ہاں گرین بیلٹوں میں مساجد بن گئی ہیں۔ کیا اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے؟ اس سوال کا جواب علماء پر چھوڑتا ہوں۔ اسلام آباد میں جگہ جگہ ماسٹر پلان کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ چائنا کٹنگ صرف کراچی کا ہی مسئلہ نہیں۔ E الیون میں سینئر پولیس افسر چائنا کٹنگ کر کے پارک ہڑپ کرنے والے تھے مگر اعلیٰ عدلیہ آڑے آ گئی۔ ای الیون کے شادی گھر اور بلند و بالا عمارتیں اصلی نقشے کا منہ چڑھا رہے ہیں۔ جی 13 میں چائنا کٹنگ کے الزام میں حال ہی میں نیب نے ہائوسنگ فائونڈیشن کے تین افسر گرفتار کئے ہیں۔ اسی سیکٹر میں بلڈرز نے سینکڑوں گھر بنا کر بطور پلاٹ بیچے ہیں۔ ایسی صورت میں تکمیل کے پروانہ یعنی Completion Certificate کی ضرورت نہیں پڑتی۔ سی ڈی اے کے بلڈنگ کنٹرول رولز کا بری طرح مذاق اڑایا گیا ہے اور اس جرم میں ایک حکومتی ادارہ یعنی ہائوسنگ بلڈرز کے ساتھ شریک نظر آتا ہے اور اس سارے قبیح عمل کا نتیجہ ناقص کنسٹرکشن ہے۔ 
ان حالات میں ضروری تھا کہ اسلام آباد کو جرأت مند ایماندار اور معاملہ فہم میئر میسر آئے۔ اب دیکھیں ہماکس کے سر پر بیٹھتا ہے۔ پہلے امید تھی کہ ایف ٹین سے تحریک انصاف محترمہ سیمیں ایزدی کو ٹکٹ دے گی اور وہ میئر شپ کے لیے قوی امیدوار ہوں گی۔ سیمیں ایزدی چونکہ میرے کولیگ کی شریک حیات ہیں‘ لہٰذا میں انہیں جانتا ہوں۔ دونوں میاں بیوی ایماندار‘ نڈر پڑھے لکھے اور نفیس لوگ ہیں۔ ایف ٹین کے ہی ایک اور صاحب سے پوچھا کہ مسز ایزدی کو پی ٹی آئی کا یوسی چیئرپرسن کا ٹکٹ کیوں نہیں ملا؟ کہنے لگا کہ انہیں جہانگیر ترین کی بہن ہونے کی سزا ملی ہے میں نے کہا کہ مجھے بات سمجھ نہیں آئی کہنے لگے کہ پارٹی میں تنقید ہو سکتی تھی کہ کنبہ پروری ہو رہی ہے۔ بات کچھ بھی رہی ہو اسلام آباد ایک اچھے میئر سے محروم ضرور ہو گیا۔ ووٹ دے چکے تو ایک سابق سفیر سے ملاقات ہوئی جو عرصے سے اسلام آباد میں مقیم ہیں اور خاصے باخبر ہیں۔ پوچھنے لگے: ووٹ کس کو دیا؟ میں نے کہا: مسلم لیگ (ن) کو۔ ذرا حیران ہوئے اور مزید پوچھا کہ کیوں؟ میں نے کہا: ڈاکٹر طارق فضل چودھری کیڈ کے وزیر مملکت بن گئے ہیں‘ شاید اُن کے توسط سے ہمارے سیکٹر کے ناگفتہ بہ حالات ٹھیک ہو سکیں۔ اب استفسا ہوا کہ تمہیں ڈاکٹر چودھری کی بیک گرائونڈ معلوم ہے؟ میں نے نفی میں جواب دیا‘ کہنے لگے: تم قبل از الیکشن دھاندلی کا شکار ہو گئے ہو‘ مسلم لیگ والے تمہیں بھی ماموں بنا گئے ہیں۔ اور میں اپنا منہ لے کر رہ گیا۔ تحریک انصاف والے اگر عقلمندی سے اور برادریوں کے تناسب کو دیکھ کر ووٹ دیتے تو اسلام آباد میں آسانی سے جیت سکتے تھے۔ تحریک انصاف کو عوام دوست امیدوار آگے لانے کی ضرورت ہے۔ بہرحال اس الیکشن کی بدولت سیکٹر والوں کی آپس میں ملاقاتیں ہوئیں‘ سیاسی شعور بڑھا اور مسلم لیگ نے ڈیلور نہ کیا تو آئندہ انہیں کم ووٹ ملیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں