"JDC" (space) message & send to 7575

امریکہ اور مڈل ایسٹ

سلطنت عثمانیہ بیسویں صدی کے آغاز میں ختم ہوئی تو مڈل ایسٹ کے بیشتر علاقے برطانوی اور فرانسیسی تسلط میں آ گئے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کا استعماری رول امریکہ کو منتقل ہوا۔ مشرق وسطیٰ میں تیل دونوں عالمی جنگوں کے درمیان دریافت ہوا۔ مغربی استعمار نے مڈل ایسٹ کو سب سے پہلا تحفہ اسرائیل کی شکل میں دیا۔ امریکہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والا سب سے پہلا ملک تھا ۔امریکہ کے لیے مڈل ایسٹ کی پالیسی میں تین محور نمایاں رہے ہیں ۔سب سے زیادہ فوقیت اسرائیلی سکیورٹی کی رہی۔ دوسرے نمبر پر مڈل ایسٹ کا تیل تھا کیونکہ مغربی ممالک کی صنعتی سرگرمی بڑی حد تک تیل کی سستے داموں اور بلاتعطل ترسیل کے مرہون منت تھی۔ اس پالیسی کا تیسرا سبب مڈل ایسٹ کا اہم محل وقوع ہے۔ بقول صدر آئزن ہاور مڈل ایسٹ دنیا کا اسٹرٹیجک لحاظ سے اہم ترین خطہ ہے۔ یاد رہے کہ ایران‘ پاکستان اور افغانستان بھی وسیع تر مڈل ایسٹ میں شمار ہوتے ہیں۔ 
یوں تو مڈل ایسٹ میں امریکہ فوجی طور پر کئی ملکوں میں موجود ہے۔ خلیجی ممالک میں بھی اس کے اڈے ہیں لیکن خطے میں امریکہ کا سب سے بڑا ملٹری بیس اسرائیل میں ہے۔ پچھلے دنوں اسی موضوع پر مڈل ایسٹ کے ایک ایکسپرٹ سے بات ہو رہی تھی‘ وہ از راہ تفنن کہنے لگے کہ پورے کا پورا اسرائیل خطے میں امریکہ کا فارورڈ بیس ہے۔
ماضی قریب میں امریکہ کا مڈل ایسٹ آئل پر انحصار کم ہوا ہے ‘اس کی بڑی وجہ تو شمالی امریکہ میں شیل گیس کے وسیع ذخائر کی دریافت تھی لیکن ساتھ ہی ساتھ پوری دنیا اب توانائی کے روایتی وسائل یعنی تیل اور کوئلے کو چھوڑ کر متبادل ذرائع کی جانب رواں دواں ہے۔ امریکہ میں بہت سی کاریں بجلی پر چل رہی ہیں۔ لیکن ان تمام حقائق کے باوجود مڈل ایسٹ کے انرجی کے وسائل پوری دنیا کے لیے پرکشش ہیں اور ایک وجہ تیل کی قیمتوں کی موجودہ گراوٹ بھی ہے۔
خطے سے تیل کی برآمدات کے لیے آبنائے ہرمز بے حد اہم ہے۔ اس کے بعد خلیج عدن اور نہر سویز کا نمبر آتا ہے۔ مڈل ایسٹ ایشیا ‘جنوبی یورپ اور شمالی افریقہ کے سنگم پر واقع ہے ۔اس خطے کے بارے میں امریکی پالیسی پر اسرائیل اور امریکہ میں موجود یہودی لابی کا واضح اثر نظر آتا ہے۔ القاعدہ کے معرض وجود میں آنے سے بہت پہلے صدر رچرڈ نکسن نے کہا تھا کہ مغربی تہذیب کو سب سے بڑا خطرہ سیاسی اسلام سے درپیش ہو گا۔ ان کا واضح اشارہ اخوان المسلمین جیسی سیاسی قوتوں کی طرف تھا۔ 
امریکہ کے لیے جمال عبدالناصر جیسے نیشنلسٹ عرب لیڈر بوجوہ ناپسندیدہ ٹھہرے۔ ایک تو وہ اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکاری تھے‘ دوسرے وہ عرب وسائل پر امریکہ کے تسلط کے خلاف تھے۔ امریکی لیڈر شپ کی سوچ میں رعونت اور تکبر تو ایک زمانے سے تھے مثلاً صدر کارٹر کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر برزنسکی نے تیسری دنیا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان لوگوں کو قتل کرنا انہیں قائل کرنے سے آسان تر ہے۔ عندیہ تیسری دنیا کے حکمرانوں کی طرف تھا۔ ترقی پذیر ممالک میں اپنی پسند کے حکمران لانا امریکی پالیسی کا حصہ رہا ہے ۔یہ کام امریکی حکومت نے اپنی ایجنسیوں کے ذمہ لگایا ہوا تھا کہ وہ ٹیڑھی انگلی سے دودھ میں سے بال نکالنے کی ماہر ہیں۔
دور حاضر میں صدام حسین اور معمر قذافی امریکہ کے ناپسندیدہ عرب لیڈر تھے۔ اسرائیل کو ان کا وجود کھٹکتا تھا۔ عراق پر جس طرح بھونڈے بہانے بنا کر حملہ کیا گیا وہ ہم سب جانتے ہیں۔ جب عراق اور لیبیا پر حملہ کیا گیا تو نہ صدام حسین مغرب کے لیے کوئی خطرہ رہے تھے اور نہ ہی کرنل قذافی...مگر پھر بھی ضروری سمجھا گیا کہ ان دونوں لیڈروں کو سین سے ہٹایا جائے ۔جس دن معمر قذافی کو قتل کیا گیا ‘امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ ہیلری کلنٹن نے کہا :''ہم آئے ہم نے دیکھا اور وہ مر گیا‘‘ ۔ذرا ملاحظہ فرمائیے ‘اس بیان میں کس قدر رعونت اور تکبر نظر آتا ہے ۔لیڈروں کو ختم کرنے اور حکومتیں تبدیل کرنے کا یہ شوق امریکہ کو خاصا مہنگا پڑا ہے ۔گزشتہ دس سال میں امریکہ کی طاقت کم ہوئی ہے‘ عالمی طاقت کا مرکز ثقل مغرب سے ایشیا کی جانب شفٹ ہوا ہے۔
پچھلے دنوں اسلام آباد میں اسی موضوع پر ایک نشست ہوئی۔ مجھے بھی شرکت کی دعوت ملی۔ مرکزی سپیکر نے امریکہ کے خوب لتے لیے۔ عام تاثر یہی ابھرا کہ مڈل ایسٹ کے موجودہ مسائل میں سے ننانوے فیصد امریکہ کے پیدا کردہ ہیں ۔میں امریکہ کا حمایتی نہیں لیکن سچ پوچھئے تو مجھے امریکہ پر ترس آنے لگا۔ سازشی نظریہ مڈل ایسٹ اور پاکستان میں بہت مقبول ہے‘یہاں تک کہ آج بھی کئی پڑھے لکھے لوگ کہتے ہیں کہ نائن الیون امریکی یہودی سازش تھی تاکہ مڈل ایسٹ پر حملے کا جواز پیدا ہو اور اسرائیل مخالف ممالک کے حصے بخرے کئے جائیں۔
میری باری آئی تو میں نے کہا کہ آج اکثر لوگوں نے امریکہ کو مڈل ایسٹ کا شیطان کبیر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ‘ لہٰذا میں ضروری سمجھتا ہوں کہ امریکہ کے چند مثبت اقدام کا ذکر کیا جائے جو تاریخ کا حصہ ہیں ‘ہم نے خود دیکھے ہیں اور کوئی ان کی نفی نہیں کر سکتا۔ 1956ء میں جب برطانیہ اور فرانس نے مل کر مصر پر حملہ کیا تو امریکہ نے ڈٹ کر اس جارحیت کی مخالفت کی۔ 1990 ء میں جب صدام حسین نے کویت پر قبضہ کیا تو کویت کو آزاد کرانے میں امریکہ کا بنیادی کردار تھا۔ امریکہ دیگر ممالک کی طرح اپنی خارجہ پالیسی اپنے قومی مفاد کو دیکھ کر بناتا ہے۔ اگر عرب حکمران آج بھی امریکی اسلحہ کے سب سے بڑے خریدار ہیں تو اس میں امریکہ کا کیا قصور ہے۔ اگر زین العابدین بن علی ‘حسنی مبارک ‘علی عبداللہ صالح ‘حافظ الاسد‘ صدام حسین‘ معمر قذافی‘ بشار الاسد جیسے ڈکٹیٹروں نے عرب دنیا میں اصلی جمہوریت نہیں آنے دی تو اس بات کا ذمہ دار امریکہ اور مغربی ممالک تو نہیں ہیں۔ کیا امریکہ نے صدام حسین کو کہا تھا کہ وہ کویت پر فوجی قبضہ کر لے اور کیا امریکہ نے بشارالاسد کو اجازت دی تھی کہ وہ تیس لاکھ معصوم شامیوں کو ہلاک کر دے۔
سازشی نظریے سے نجات اور معروضیت پر یقین صحیح تجزیے کے لیے ضروری ہیں ‘ہم کب تک اپنی حماقتیں دوسروں کے کھاتے میں ڈالتے رہیں گے۔ مڈل ایسٹ کے قائدین اور عوام دونوں کو اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہو گاورنہ وہ امریکہ اور اسرائیل کے نشانے پر بھی رہیں گی اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیمیں بھی جان نہیں چھوڑیں گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں