"JDC" (space) message & send to 7575

سر سید اور غالب کی تقریظ

سر سید احمد خان کی عظمت سے ہم سب بخوبی واقف ہیں ۔وہ ایک عظیم ریفامر بھی تھے اور شاندار رائٹر بھی۔ سر سید مسلمانوں میں سائنٹیفک سوچ پیدا کرنا چاہتے تھے۔ ان کا مشہور قول ہے:''سائنس اور ٹیکنالوجی کا علم حاصل کرنا مسلمانوں کے مسائل کا واحد حل ہے‘‘۔ لیکن ساتھ ہی سر سید کو مسلمانوں کی عظمت رفتہ کو یاد کرنے اور یاد دلانے کا بھی شوق تھا۔ ابو الفضل نے آئینِ اکبری1590ء میں لکھی تھی‘ سر سید نے ڈھائی سو سال بعد اس کی تدوین نو کی۔ آئین اکبری اکبر نامہ کا اہم ترین حصہ ہے اور مغل اعظم کے زمانے کے طرز حکومت اور قوانین کے بارے میں مستند کتاب ہے ۔اس طرح سے آئینِ اکبری کوئی مذہبی کتاب نہیں جس پر رجعت پسندی کا ٹھپہ لگا دیا جائے۔
یوں تو سرسید کی تحریریں کئی ہیں اور بڑے پائے کی ہیں لیکن آئینِ اکبری کی نئی شکل ان کا اہم کارنامہ تھا۔ تاریخ کی تدوین کے حوالے سے سر سید نے اصل نسخہ میں شامل فارسی، عربی، سنسکرت اور ترکی الفاظ کی تشریح بھی فرمائی۔ اصل مقصد یہ بھی تھا کہ قلمی نسخہ جدید پرنٹنگ پریس میں چھپ کر ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائے۔ سر سید نے غالب سے آئینِ اکبری کی تقریظ یعنی پیش لفظ لکھنے کو کہا۔ غالب نے تقریظ تو لکھ دی لیکن اس کے مندرجات سر سید کو بالکل اچھے نہ لگے ۔دونوں کے ذاتی تعلقات بھی متاثر ہوئے اور سر سید نے آئینِ اکبری غالب کی تقریظ کے بغیر ہی چھپوا دی۔ یہ ہماری ادبی تاریخ کا اہم واقعہ ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ غالب نے تقریظ میں کیا لکھا تھا جو سر سید کی طبع پر گراں گزرا۔ تقریظ کی اصل عبارت تو فارسی میں ہے لیکن 
شمس الرحمن فاروقی کا انگریزی ترجمہ انٹر نیٹ پر دستیاب ہے۔ اس کا اردو میں خلاصہ کچھ یوں ہے:''سر سید نے قدیم جسم سے پرانے کپڑے اتار کر نیا لباس پہنا دیا ہے۔ میں اس کام کی تعریف کر کے منافق نہیں بننا چاہتا۔ مجھے ریا کاری پسند نہیں‘ مجھے اپنی سچائی پر فخر ہے۔ جو علم و ادب کو نہیں جانتے انہیں میری علمی حیثیت کا کیا معلوم۔ ویسے بھی علم و ادب کے خریدار دنیا میں کم کم ہیں۔ پرانی چیزوں کو دیکھنے میں کیا رکھا ہے‘ ذرا انگریز صاحبوں کی طرف دیکھیے‘ انہوں نے کیا کیا قوانین اور علوم دریافت کر لیے ہیں۔ سائنس اور ہاتھوں کی مہارت انگریز جانتے ہیں‘ وہ اسلاف کے علماء سے آگے نکل گئے ہیں۔ انہوں نے عقل اور انصاف کو یکجا کر دیا ہے۔ ہندوستان کو سینکڑوں قوانین دیے ہیں۔ وہ آگ جو پتھر رگڑ کر لگائی جاتی تھی‘ یہ لوگ ماچس کی تیلی سے لگا لیتے ہیں۔ بھاپ کے ذریعہ یہ لوگ پانیوں پر جہاز چلاتے ہیں۔ بھاپ کی طاقت نے انگریزوں کو لہروں اور ہوا کے رُخ سے بے نیاز کر دیا ہے ۔ان کے آلات موسیقی تاروں سے بے نیاز ہیں‘ ان کے الفاظ پرندوں کی طرح اڑتے ہیں‘ ان کی خبریں چند سکینڈ میں میلوں کا سفر طے کرتی ہیں۔ آپ لندن جا کر دیکھیں ‘وہاں کی سڑکیں رات کو موم بتیوں کے بغیر روشن ہوتی ہیں۔ انہوں نے ہر میدان میں سینکڑوں موجد پیدا کیے ہیں۔ پرانے قوانین فرسودہ ہو چکے ہیں ۔کیا آپ کی کتاب (آئین اکبری) میں ایسے اچھے اور شاندار قوانین ہیں؟ آپ کا انداز خوب ہے لیکن خوب کے بعد خوب تر بھی ہوتا ہے۔ فوتیدہ رفتگان کی پرستش کوئی اچھی بات نہیں۔ یہ محض الفاظ ہی الفاظ ہیں۔ سائنس کے قوانین مجھے اچھے لگتے ہیں۔ غالب تم نے سچائی کُھل کر بیان کر دی ہے۔ اس دنیا میں تمہارا مذہب اہل بیت کی مدحت ہے۔ سر سید احمد خان کے لیے دعا کرو کہ عقل و شان کا پیکر ہیں۔ اللہ ان کی مرادیں بر لائے اور روشن ستارہ ان کی رہنمائی کرے‘‘۔
میرے خیال میں غالب کی سرسید پر تنقید کچھ زیادتی ہے۔ آئین اکبری کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ قدیم جسم سے پرانے کپڑے اتار کر نیا لباس پہنانے کی کوشش ہے‘ انصاف نہیں۔ غالب نے صریحاً یہ کہا ہے کہ ماضی کی ریسرچ میں زیادہ وقت ضائع نہ کریں۔ سائنسی علوم اور جدید قوانین پر توجہ مرکوز کریں کیونکہ انگریز سائنس اور ٹیکنالوجی میں بہت آگے نکل گئے ہیں اور یہی ان کی طاقت کا راز ہے۔
لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ غالب ایک ایسے شخص پر تنقید کر رہے ہیں جو خود مسلمانوں میں منطقی سوچ اور سائنسی فکر کی ترویج چاہتا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ تقریظ لکھتے وقت غالب پر منفی موڈ طاری ہو گا۔ آئین اکبری کی تدوینِ نو تقریباً ڈھائی سو سال بعد ہوئی‘ لہٰذا اکبر کے عہد کا انگریزوں کے انیسویں صدی کے ہندوستان سے موازنہ کرنا بھی برمحل نہیں۔ دراصل غالب نے ہوش سنبھالا تو مغلیہ سلطنت سخت زوال اور انحطاط کا شکار تھی۔ مغربی اقوام ایک دوسرے کی مسابقت میں مشرقی ممالک پر تیزی سے حاوی ہو رہی تھیں اور اس کامیابی میں بنیادی کردار نیول طاقت کا تھا۔ غالب نے کلکتہ کے قیام کے دوران سمندری جہاز دیکھے جو بھاپ سے چلتے تھے اور بادبان کے محتاج نہ تھے۔ یہ مناظر غالب کی نظر کو خیرہ ضرورکر گئے ہونگے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ غالب کو اپنے اسلاف پر غصہ آنے لگا۔ سلطنت مغلیہ کے عیش و عشرت کے قصّے مشہور تھے ‘جب مغرب میں عظیم الشان یونیورسٹیاں بن رہی تھیں تو ہمارے ہاں تاج محل اور شالا مار باغ تعمیر ہو رہے تھے۔
غالب نے تقریظ میں یہ بھی لکھا کہ انگریز ہوا میں آگ لگاسکتے ہیں۔ ان کا اشارہ انگریزوں کے توپ خانہ کی طرف تھا۔ پلاسی کی جنگ میں انگریزوں کی فتح کی ایک وجہ توپ خانہ کا استعمال تھا۔ یہ جنگ غالب کی ولادت سے پہلے ہو چکی تھی۔ ٹیلی گرافی ایجاد ہو چکی تھی۔ غالب جب کہتے ہیں کہ انگریزوں کے الفاظ پرندوں کی طرح اڑتے ہیں تو اشارہ واضح طور پر ٹیلی گرافی کی طرف ہے۔
ایک سوال جو ذہن میں ابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ سر سید احمد خان تو خود بہت بڑی شخصیت تھے اور غالب کے خاندان سے ان کے مراسم بھی تھے تو غالب نے ان کے علمی کام یعنی آئین اکبری کی نئی شکل کو در خور اعتنا کیوں نہیں سمجھا اور اسے وقت ضائع کرنے کے مترادف کیوں قرار دیا۔ میرے ذہن میں تو اس کا جواب یہی بنتا ہے کہ 1855ء میں سر سید کا وہ قد کاٹھ نہ تھا جو بعد میں بنا۔ جنگ آزادی آئین اکبری چھپنے کے دو سال بعد ہوئی۔ علی گڑھ یونیورسٹی بھی بعد میں بنی۔ سر سید کے علمی ادبی مقام کے برعکس 1855ء تک غالب اپنا مقام ہر خاص و عام سے تسلیم کروا چکے تھے۔ ''جو علم و ادب کو نہیں جانتے انہیں میری علمی حیثیت کا کیا معلوم‘‘ ایک تفاخر کو ظاہر کرتا ہے جو غالب کو اپنے ادبی مقام پر تھا۔
سر سید احمد خاں برصغیر کے مسلمانوں کے بہت بڑے محسن ہیں۔ بیسویں صدی میں علامہ اقبال اور محمد علی جناح نے سر سید کی سوچ کو تصور پاکستان اور تشکیل پاکستان کی صورت میں پیش کر کے عظیم کارنامے سرانجام دیئے۔ سر سید کا دوسرا کمال یہ ہے کہ وہ دین اور دنیا دونوں کی اہمیت کا ادراک رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک اپنی تاریخ کو یاد رکھنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ اچھے مستقبل کے لیے کاوش۔
سر سید احمد خان کی شخصیت کا ایک اور پہلو عشق رسولؐ بھی ہے۔ ان کی ایک اہم کتاب' خطبات احمدیہ‘ ہے جو سیرت سے متعلق ہے۔ سید ابوالاعلیٰ نے' خطبات احمدیہ‘ کو سیرت کے میدان میں پہلا بڑا علمی کارنامہ قرار دیا ہے۔ سر سید کی زندگی میں ایک انگریز مصنف سرولیم میورWilliam Muirنے رسول اللہؐ پر چند الزامات لگائے۔ ولیم میور کی کتاب اور اس سے متعلقہ حوالوں کے بارے میں تحقیق کے لیے سر سید انگلستان گئے اور الزامات کا مدلّل جواب دینے کے لیے تحقیق شروع کر دی۔ جب لندن کے قیام کے دوران پیسے ختم ہو گئے تو ہندوستان میں فیملی کو پیغام بھجوایا کہ پیسے بھیجے جائیں خواہ مالی وسائل کے حصول میں گھر کی چیزیں ہی کیوں نہ بیچنی پڑیں۔ سر سید صحیح معنوں میں عاشق رسولؐ تھے ‘وہ ان نام نہاد عاشقان کی طرح نہ تھے جو اپنے ہی ملک کی املاک کو تباہ کرتے ہیں اور دعویٰ یہ ہے کہ یہ آگ ‘یہ بربادی عشق رسولؐ کے اظہار میں کی گئی ہے۔ یقین مانئے اسلامی اور عرب ممالک بھی ہماری حماقتوں پر ہنس رہے ہیں۔ اللہ ہم سب کو سر سید احمد خان جیسا عاشق رسولؐ بنائے۔ آمین

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں