"JDC" (space) message & send to 7575

چین کو چلیے……(3)

22 اپریل کو ہم بیجنگ کے لئے عازم سفر ہوئے‘ چائنا ایئر کی یہ پرواز اسلام آباد سے بیجنگ براستہ کراچی تھی اس لیے پرواز کا دورانیہ خاصا طویل ہو گیا‘ یوں سمجھئے کہ پوری رات حالت سفر میں گزری۔ بیجنگ ایئرپورٹ پر سفیر لوشومن ہمارے استقبال کے لئے موجود تھے۔ مادام ڈو ان کی معاونت کر رہی تھیں ۔ لوشومن پچھلے سال CPIFA کے وفد کے لیڈر کے طور پر پاکستان آئے تھے اور مادام ڈو‘ ان کے وفد میں شامل تھیں لہٰذا ہمارے لئے دونوں چہرے شناسا تھے۔ وی آئی پی روم پہنچے توسفیر لوشومن پروگرام کی تفاصیل بتانے لگے‘ کہنے لگے آپ لوگ لمبا سفر کر کے آئے ہیں ہفتہ کا دن ہے، دفاتر بند ہیں، آپ ہوٹل پہنچ کر آرام کریں ،کل ہم آپ کو تاریخی مقامات کی سیر کرائیں گے۔ سوموار کو آپ کی ملاقات فارن آفس میں ڈی جی ایشیا سے ہے۔ دو تھنک ٹینکس کے نمائندے آپ سے تبادلہ خیالات کریں گے۔
بیجنگ کی کچھ چیزیں بہت نمایاں ہیں ہر طرف ہریاول ہی ہریاول اور لمبی لمبی عمارتیں دو کروڑ کی آبادی کا شہر مگر صفائی شاندار‘ ٹریفک بے تحاشا ہے لیکن بدنظمی نظر نہیں آتی ۔ہوٹل پہنچے تو ایمبیسیڈر قاضی ہمایوں کہنے لگے‘ یہاں سوٹ اچھے ملتے ہیں بازار جا کر کپڑے کا انتخاب کریں‘درزی پاس ہی ہے وہ ناپ لے کر چوبیس گھنٹوں میں آپ کا سوٹ ہوٹل پہنچا دے گا؛ چنانچہ ایمبیسیڈر عارف ایوب سے درخواست کی کہ ہماری قیادت کریں کہ موصوف بائیس (22) مرتبہ چین جا چکے ہیں اور بیجنگ کے گلی کوچوں سے خوب واقف ہیں۔ بیجنگ کا موسم اپریل میں اچھا ہوتا ہے اسلام آباد سے درجہ حرارت چار پانچ ڈگری کم لیکن سردی نہیں تھی۔
بیجنگ میں ہمارا قیام گرینڈ ہوٹل میں تھا یہ ٹیانا نمن Tiananmen سکوائر کے پاس ہی ہے گرینڈ ہوٹل شہر کا قدیم ترین فائیو سٹار ہوٹل ہے۔ آپ سمجھ لیں کہ یہ شہر کا دل ہے۔ ہوٹل سے نکل کر ٹیکسی لی اور کوئی بیس منٹ میں سلک مارکیٹ پہنچ گئے۔ میرا خیال تھا کہ مارکیٹ میں صرف کپڑے کی دکانیں ہونگی مگر وہاں انواع واقسام کی شاپس تھیں۔ چین میں سودے بازی یعنی بارگیننگ بہت ہوتی ہے۔ دکاندار جس چیز کی قیمت سو یوآن بتائے تو آپ دس کہیں پچیس تیس پر سودا ہو جائے گا اور جب تک آپ چیز خرید نہیں لیں گے سیلز مین یا سیلز گرل گفت گو کا سلسلہ ٹوٹنے نہیں دیں گے ۔کیلکولیٹر کے ذریعے نئی سے نئی آفر لگاتے رہیں گے۔ قاضی صاحب نے سوٹ کا آرڈر دیا اور میں نے بلینرز کا۔ ایمبیسیڈر عارف ایوب کی شاپنگ لسٹ کچھ لمبی تھی ؛چنانچہ فیصلہ ہوا کہ ٹھیک دو گھنٹے بعد مارکیٹ کے مین گیٹ کے سامنے ملیں گے۔ ہمارا کام جلدی ہوگیا تو سڑک کے کنارے ایک اطالوی کافی شاپ میں انتظار کی غرض سے آ بیٹھے‘دکان کا مالک اٹالین تھا۔ قاضی صاحب نے اُس سے اطالوی زبان میں گفتگو کی کیونکہ یہ روم میں ایک پوسٹنگ کے دوران اطالوی زبان کے چند جملے سیکھ چکے تھے۔ کافی شاپ کا مالک بڑا خوش ہوا۔ بیجنگ صحیح معنوں میں انٹرنیشنل شہر بن رہا ہے۔ دنیا جہاں سے چھوٹی اور بڑی بھی انویسٹمنٹ آ رہی ہے۔ کوئی مغربی برانڈ نہیں جو چین میں نہ ہو اور یہ صورتحال کپڑوں سے لے کر کاروں تک ہے ‘سورج غروب ہو رہا تھا‘ ٹیکسی لی اور ہوٹل پہنچے۔ سفیر پاکستان جناب مسعود خالد نے وفد کو ڈنر کے لئے بلایا ہوا تھا۔ معلوم ہوا کہ سینیٹ چیئرمین رضاربانی کی قیادت میں بھی ایک وفد آیا ہوا ہے اور وہ لوگ بھی ڈنر پر مدعو ہیں۔ پاناما پیپرز کا قصہ شروع ہو چکا تھا۔ خیال تھا کہ اس سلسلہ میں سینیٹرز سے دلچسپ گفتگو ہو گی۔ سفارت خانہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ رضاربانی صاحب ملکی حالات کے پیش نظر چائنا نہیں آئے وفد کے باقی لوگ آئے ہیں؛چنانچہ تھوڑی دیر میں سینیٹر طاہر مشہدی اور مشاہد اللہ آ گئے۔ دونوں میں پاناما لیکس کے حوالے سے دوستانہ نوک جھونک جاری رہی۔ مسعود خالد منجھے ہوئے سفارتکار ہیں ‘ان کی نمبر ٹو ممتاز زہرہ بلوچ بھی موجود تھیں ‘ہیڈ آف چانسری خالد مجید بھی تھے اور فرسٹ سیکرٹری شاہ زیب عباس بھی۔ موخر الذکر دونوں اصحاب میرے ساتھ منسٹری میں کام کر چکے تھے سروسز کی ایک روایت ہے کہ اگر کسی افسر کے انڈر آپ نے کام کیا ہے تو وہ ہمیشہ کے لئے آپ کا ''سر‘‘ ہو جاتا ہے۔ میں نے ان دونوں افسروں کو بہت مودب اور خوش اخلاق پایا۔ بار بار پوچھتے رہے کہ سر ہم آپ کے لئے کیا کر سکتے ہیں۔
آپ جب بھی بیجنگ جائیں پانچ جگہ ضرور جائیں ایک شہر ممنوع Forbiden City‘ دوسرے عظیم دیوار چین ‘تیسرے سمر پیلس‘ چوتھے ٹمپل آف ہیون Temple of heaven اور پانچویں ٹیانامن سکوائر۔ شہر ممنوع بادشاہوں کی رہائش گاہوں اور رائل کورٹ یعنی دیوان خاص جیسی عمارتوں پر مشتمل ہے۔ عام لوگوں کا یہاں داخلہ ممنوع تھا اسی لئے اس پورے کمپلیکس کو شہر ممنوع کہا جاتا ہے۔ اتوار کے روز ہم سمر پیلس گئے۔ موسم گرما میں بادشاہ سمر پیلس میں منتقل ہو جاتے تھے ‘یہ وسیع و عریض باغات کا سلسلہ ہے‘درمیان میں بہت بڑی جھیل ہے۔ سمر پیلس اٹھارہویں صدی میں تعمیر ہوا‘یہاں انواع و اقسام کے پھول ہیں‘ درمیان میں ایک چھت والا لمبا کوریڈور ہے ‘ یہاں بادشاہ سیر بھی کرتے تھے اور اردگرد کے نظاروں سے لطف اندوز بھی ہوتے تھے۔ سمر پیلس میں رہائشی عمارتیں بھی ہیں اور دفتر بھی‘ یونیسکو نے سمر پیلس کو بین الاقوامی ثقافتی ورثے میں شامل کر لیا ہے۔ قابل ذکر جگہ Garden of harmonious interests ہے۔ مہاتما بدھ کی عبادت کے لئے ایک معبد بھی ہے اور وہاں طویل العمری کا ایک ہال بھی ہے جسے شہنشاہ چیانلاگ نے اپنی والدہ کی ساٹھویں سالگرہ کی خوشی میں تعمیر کروایا تھا۔ شام کو ٹمپل آف ہیون گئے ‘یہ عمارتیں چھ سو سال پرانی ہیں۔ قدیم چین میں بادشاہ کو دیوتائوں کا بیٹا سمجھا جاتا تھا۔ بادشاہ بمع اپنے حواریوں کے سال میں دو مرتبہ شہر ممنوع سے ٹمپل آف ہیون آتا تھا ۔مین ٹمپل ایک سو بیس فٹ اونچا ہے۔ یہاں اچھی فصل کے لئے دعا مانگی جاتی تھی ایک اور جگہ جانوروں کی قربانی دی جاتی تھی۔ دعا مانگنے سے پہلے بادشاہ خاص قسم کے کپڑے زیب تن کرتا تھا۔ بادشاہ کا چینجنگ روم بھی موجود ہے۔ مادام ڈو مسلسل ہمارے ساتھ رہیں اور گائیڈ کی مدد سے ان عمارتوں کی اہمیت اور تاریخی تفاصیل بتاتی رہیں۔
سوموار کا دن بہت مصروف گزرا۔ سب سے پہلے فارن آفس میں ڈی جی ایشیا ایمبیسیڈر زیائو چیان سے ملاقات ہوئی۔ وہ علی الصبح بیرونی دورے سے واپس آئے تھے۔ سفر کے فوراً بعد ہمارے وفد سے ملاقات اس بات کا مظہر تھی کہ پاکستان کا چینی خارجہ پالیسی میں خاص مقام ہے ۔فارن آفس کے بعد ہم CPIFA کے دفتر گئے جو کہ شہر ممنوع کے ساتھ ہی ہے۔ یہاں پرتکلف ظہرانے کا بندوبست تھا۔ کھانے کی میز پر ہی تبادلہ خیالات ہوا۔ CPIFA والے چونکہ ہمارے میزبان تھے لہٰذا دونوں جانب سے پرتپاک الفاظ کہے گئے۔ لنچ کے بعد ہم ایک اور تھنک ٹینک Chinese Institute of International Studies یعنی Ciis گئے۔ یعنی مختلف موضوعات پر سیر حاصل گفتگو ہوئی اُسی شام ہمیں شیان کی طرف پرواز کرنا تھا۔(جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں