"JDC" (space) message & send to 7575

ہماری کشمیر پالیسی

کشمیر کے بارے میں پاکستان کی پوزیشن انٹرنیشنل لاء اور اخلاقی اعتبار سے بہت مضبوط ہے ۔انسانی حقوق میں سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہر انسان کا اولین حق ہے جو کہ کشمیریوں کو اب تک نہیں ملا۔ اتنی اچھی پوزیشن کے باوجود پچھلے پچیس سال سے ہماری کشمیر پالیسی کنفیوژن کا شکار رہی ہے۔ 1990ء کی دہائی میں ہم نے جہاد کشمیر کی پشتی بانی(حمایت) کی اور پھر 2006ء میں مشرف کے دور میں کشمیر کو اپنے حال پر چھوڑنے کے لیے تیار ہو گئے۔ میری نظر میں یہ دونوں مؤقف افراط و تفریط کا شکار تھے۔ پاکستان کو چاہیے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی حمایت پر مبنی اپنا اصولی مؤقف قائم رکھے۔
کشمیر برصغیر کی 1947ء میں آزادی کا نامکمل ایجنڈاہے۔ ہندوستان اور پاکستان آزاد ہو گئے لیکن کشمیر ابھی تک محکوم ہے۔ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی 1931ء سے جاری ہے۔ یہ شعلہ ہر چند سال کے بعد پھر سے بھڑکتا ہے۔ مقبول بٹ شہید افضل گرو شہید اور برہان وانی شہید سب اسی شمع کے پروانے ہیں ۔آج پھر کشمیری نوجوان بھارت کی بربریت کے خلاف سینہ سپر ہیں۔ ہر بھارت مخالف مظاہرے میں وہ پاکستانی پرچم بلند کرتے ہیں۔
افغانستان سے سوویت فوجوں کی واپسی ہوئی تو جہادی تنظیموں نے سوچا کہ اب کشمیر سے بھارت کو بھی نکالا جا سکتا ہے۔ 1989ء میں کشمیر میں پھرسے شروع ہونے والی بھارت مخالف تحریک بڑی حد تک لوکل تھی لیکن آزاد کشمیر اور پاکستان سے بھی اس کی مدد ہوئی۔ ہمارے لوگ وہاں جا کر لڑے۔ انڈیا نے ہر فورم پر خوب پراپیگنڈا کیا کہ یہ تحریک پاکستان کی دخل 
اندازی کی مرہون منت ہے حالانکہ یہ بات اصولی طور پر صحیح نہیں تھی میرے خیال میں یہ تحریک ستر سے اسی فیصد لوکل تھی اور باقی حمایت لائن آف کنٹرول سے اس طرف سے تھی۔ ہمارا بین الاقوامی مؤقف یہی تھا کہ پاکستان کشمیر میں ذرہ برابر دخل اندازی نہیں کر رہا۔ لیکن ساتھ ہی پاکستان کے شہروں اور قصبوں میں کشمیر میں شہید ہونے والوں کی تصویریں بھی لگتی تھیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں کوئی بات سیکرٹ نہیں رہ سکتی۔ بہر حال 1990ء کی دہائی میں ہماری کشمیر پالیسی کشمیر کاز کے لیے سود مند ثابت نہیں ہوئی۔ ایک لاکھ سے زائد جانیں گئیں اور کشمیر محکوم ہی رہا مقبوضہ ہی رہا۔ 1999ء میں ہم نے کارگل کی مہم جوئی کی تو ہماری پالیسی پھر سخت کنفیوژن کا شکار تھی۔ وزیر اعظم اور آرمی چیف ایک پیج پر نہیں تھے۔ ایئرچیف کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ بیرون ملک سفارت خانوں کو پتہ نہیں تھا کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے۔ انٹرنیشنل میڈیا انڈیا کی حمایت کر رہا تھا۔
یہ عجیب بات ہے کہ جو آرمی چیف 1999ء میں کارگل ہیرو بننا چاہتا تھا۔ اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد اس کی پالیسی واضح طور پر بدلی ہوئی تھی۔ امریکی حکومت پندرہ سال کے بعد اپنی سیکرٹ خط و کتابت کو ڈی کلاسیفائی کر دیتی ہے تا کہ عوام کو عمومی طور پر اور ریسرچ کرنے والے اداروں کو صحیح معلومات تک رسائی مل سکے۔ پچھلے سال سن 2000ء کے پیپرز برسرعام آئے تو معلوم ہوا کہ جنرل مشرف نے اقتدار میں آتے ہی کشمیر کے بارے میں یوٹرن کا سوچنا شروع کر دیا تھا۔ مئی 2000ء میں امریکہ کے امور خارجہ کے انڈر سیکرٹری تھومس پکرنگ Thomas Pickering پاکستان آئے۔ ان کی ملاقات وزیر خارجہ عبدالستار سے ہوئی۔ ستار صاحب نے تھومس پکرنگ کو بتایا کہ نئی پالیسی کے تحت اب حکومتِ پاکستان اقوام متحدہ کی کشمیر کے بارے میں قراردادوں پر عمل درآمد کرانے پر زیادہ زور نہیں دے گی تا کہ انڈیا کے ساتھ تعلقات بہتر کیے جا سکیں۔اور پھر 2006ء میں جنرل مشرف نے اپنی چار نکاتی کشمیر پالیسی کا اعلان کر کے سب کو حیران کر دیا۔ اس نئی پالیسی کے بارے میں نہ پاکستان میں ٹھوس مشاورت ہوئی اور نہ ہی حریت کانفرنس والوں کو اعتماد میں لیا گیا۔ سید علی گیلانی اس بات سے خاصے نالاں نظر آئے۔ مشرف کے چار نکات میں دونوں اطراف سے فوجوں کی بتدریج واپسی، سیلف گورننس، موجودہ بارڈر کا احترام اور کشمیر میں انڈیا اور پاکستان کا مشترک بندوبست شامل تھا۔ بڑا ہدف یہ تھا کہ دونوں اطراف کے لوگوں کو آنے جانے کی مکمل آزادی ہو گی اور بالآخر لائن آف کنٹرول بے معنی ہو جائے گی۔ مشرف کے چار نکات انڈین سوچ سے قریب تر تھے۔ لیکن انڈیا کا رد عمل پھر بھی محتاط تھا۔ انڈین میڈیا میں کئی لوگوں نے کہا کہ دونوں جانب سے سفر کی آزادی کی آڑ میں در اصل جہادی کشمیر میں بھیجنا چاہتا ہے۔ جب باہمی اعتماد کی اس قدر کمی ہو تو جوائنٹ انتظام کیسے چلتا۔ سچ پوچھیں تو مشرف کے چار نکات حقیقت پسندانہ نہیں تھے۔
اب آپ پوچھیں گے کہ موجودہ صورت حال میں پاکستان کو کیا کرنا چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ آزاد کشمیر سے کئی نوجوان اپنے بھائیوں کی ہمدردی میں لائن آف کنٹرول کے پار جانا چاہیں۔ ہمیں ہر صورت میں ایسی خواہش کی تکمیل کو ناکام بنانا چاہیے۔ مقبوضہ کشمیر میں انڈین بربریت کے خلاف احتجاجی لہر کو مقامی تحریک ہی رہنا چاہیے۔ البتہ پاکستان کو انٹرنیشنل سطح پر کشمیریوں کی سفارتی اخلاقی اور سیاسی مدد کو فعال بنانا چاہیے۔ اپنے سفارت خانوں کو متحرک کرنا چاہیے۔ موجودہ تحریک شروع ہوئی تو برہان مظفر وانی شہید ہو کر بائیس سال کی عمر میں بہت بڑا رتبہ حاصل کر گیا۔ وزیر اعظم کی طرف سے مذمتی بیان آنے میں کچھ دن لگے۔ فارن سیکرٹری نے انڈین ہائی کمشنر کو بلا کر کہا کہ انڈین حکومت واقعے کی تحقیق کرے یہ کوئی دانش مندانہ ڈیمانڈ نہ تھی۔ غاصب انڈین گورنمنٹ واقعے کی غیر جانب دار تحقیق کیسے کر سکتی ہے؟ ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا ہو گا کہ کشمیر کا مسئلہ دینی پرابلم نہیں۔ ریفرنڈم میں وہاں رہنے والے ہندو اور سکھ بھی حق خود ارادیت کا آزادی سے اور مکمل طور پر استعمال کریں گے اور ان کے اس حق کی پاکستان کو حمایت کرنا ہو گی۔ میرے ذہن میں ذرہ بھر شک نہیں کہ کشمیر کمیٹی کو ہیڈ کرنے کے لیے مولانا فضل الرحمن مناسب شخص نہیں۔ وہ بہت زیرک سیاست دان ہیں لیکن مغربی حکومتوں اور میڈیا کو قائل نہیں کر سکتے۔ اس کام کے لیے سینیٹر مشاہد حسین سید جیسے فعال شخص کی ضرورت ہے جو مغربی زبان‘محاوروں اور سیاسی رویوں سے خوب واقف ہو۔
کشمیری بھائی اکثر گلہ شکوہ کرتے ہیں کہ آزاد کشمیر کی انتظامیہ اسلام آباد کے کنٹرول میں ہے۔ چیف سیکرٹری اور آئی جی یہاں سے جاتے ہیں۔ اہم فیصلے کشمیر کونسل کرتی ہے۔ اسلام آباد میں جو بھی حکومت ہو وہاں کے انتخابی نتائج اپنی پسند کے حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کرتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ آزاد کشمیر کو آپریشنل اٹانومی دیں۔ انہیں اپنے افسر خود لگانے دیں۔ 
کالم ختم کرنے سے پہلے میں آزاد کشمیر کی نئی حکومت کے اس فیصلے کی بھرپور ستائش کرنا چاہتا ہوں کہ اس نے مسعود خان جیسے منجھے ہوئے سفارت کار کو آزاد جموں کشمیر کی صدارت کے لیے نامزد کیا ہے۔ مسعود خان اس عہدے کے لیے آئیڈیل چوائس ہیں۔ وہ مغربی میڈیا اور حکومتوں کو کشمیری کاز سمجھانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ میری آخری سفارش یہ ہو گی کہ آزاد کشمیر اور پاکستان کے جنرل الیکشن ایک ساتھ ہوں تا کہ کشمیری بھائی مکمل آزادی سے اپنے نمائندے منتخب کر سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں