"JDC" (space) message & send to 7575

خلیجی اتحاد کے مسائل

خلیج کا امن اور استحکام پوری دُنیا کے لئے عمومی طور پر اور پاکستان کے لئے خاص طور پر اہم ہے۔ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے پاکستانیوں کی تعداد تقریباً ستر (70) لاکھ ہے اور ان میں سے نصف سے زائد خلیجی ممالک میں کام کر رہے ہیں۔ ہمارا تیل خلیج سے آتا ہے ہمارے حرمین مقدسہ سعودی عرب میں ہیں۔ خلیجی ممالک کی اقتصادی حالت ہمارے لئے بے حد اہم ہے کیونکہ اقتصاد کا براہ راست تعلق زرمبادلہ کی ترسیلات اور تجارت سے ہے اور یہ بات بھی ہمارے لئے اہم ہے کہ ایران اور خلیجی ممالک کے درمیان طاقت کا توازن برقرار رہے توازن میں بگاڑ کئی دفعہ عسکری مہم جوئی کو مہمیز لگاتا ہے۔ شاہ ایران کے عہد تک سعودی عرب اور ایران میں دوستی تھی۔ انقلاب ایران کے بعد امریکہ اور مغربی ممالک خلیجی عربوں کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔ اب خطے میں امریکہ کی دلچسپی بتدریج کم ہو رہی ہے امریکہ اب جنوب مشرقی ایشیا کے خطے کو زیادہ اہمیت دے رہا ہے۔ ایٹمی معاہدے کے بعد ایران اور مغربی ممالک میں مخاصمت کم ہوئی ہے۔ ایران اور روس‘ شام میں یکساں ہدف کے لئے بھرپور کوشش کر رہے ہیں اور وہ ہدف ہے بشارالاسد کی حکومت کی بقا۔ شام میں امریکہ اب بیک فُٹ پر کھیل رہا ہے۔ بغداد میں موجود حکومت خاصی کمزور ہے اور تہران کے زیراثر ہے۔ خلیجی ممالک یمن کی لڑائی میں الجھے ہوئے ہیں اور یمن کے مسئلہ کا کوئی حل مستقبل قریب میں نظر نہیں آتا۔ تیل کی قیمتیں گری ہوئی ہیں۔ خلیجی ممالک کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔
ایران کے بارے میں خلیجی تعاون کونسل کے ممبر ممالک میں اختلاف رائے موجود ہے جب صدر عبدربہ منصور ہادی کی انٹرنیشنل طور پر تسلیم شدہ حکومت کو بچانے کے لیے یمن میں عسکری مداخلت کا فیصلہ کیا گیا تو سلطنت عمان نے عسکری کولیشن کا حصہ بننے سے انکار کیا۔ سلطان قابوس خلیج کے خطے میں ایک تجربہ کار حکمران تصور کئے جاتے ہیں ان کی خارجہ پالیسی میں ٹھہرائو اور تحمل نمایاں نظر آتے ہیں۔ سلطان قابوس ایک عرصے سے ایران عرب ٹکرائو کے خلاف ہیں وہ ایران اور خلیجی ممالک کے درمیان تعاون بڑھانا چاہتے ہیں تاکہ علاقے میں تنائو کی کیفیت ختم کی جائے۔ قطر کے ایران کے ساتھ قریبی اقتصادی تعلقات ہیں۔ دونوں ممالک مشترکہ گیس فیلڈ سے قدرتی گیس نکالتے ہیں لہٰذا قطر ایران کے خلاف خلیجی ممالک کی اقتصادی پابندیوں کے خلاف ہے۔ یو اے ای یعنی عرب امارات کی حکومت سعودی عرب سے یمن کے معاملے میں مکمل تعاون کر رہی ہے لیکن وہاں پرائیویٹ سیکٹر میں ایک اچھی خاصی لابی ہے جو ایران کے ساتھ بگاڑ کی مخالف ہے۔ دبئی کے کئی تاجر گروپ ایران کے ساتھ تجارتی مفادات رکھتے ہیں۔ یمن کی جنگ طوالت اختیار کر گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے زیر نگرانی سیاسی حل تلاش کرنے کے لئے کوششیں جاری ہیں۔ صدر منصور ہادی اور حوثی باغیوں کے مابین امن کے لئے بات چیت کے تین رائونڈ کویت میں ہو چکے ہیں۔ مگر اب تک کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا۔ یمن عرب دنیا کا غریب ترین ملک ہے۔ افغانستان اور یمن میں خاصی مماثلث ہے۔ دونوں قبائلی معاشرے ہیں۔ قبائلی لوگ عموماً حریت پسند ہوتے ہیں یمن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہاں غریب سے غریب شخص کے پاس تین ہتھیار ہوتے ہیں ایک بندوق‘ دوسرا پستول اور تیسرا خنجر۔ یمن کی فضائی حدود مکمل طور پر سعودی اور اماراتی ائیر فورس کے کنٹرول میں ہیں ایک اندازے کے مطابق جنگ کا ماہانہ خرچ چھ (6) ارب ڈالر ہے۔ اس وقت یمن کی جنگ میں خلیجی رول کو عالمی حمایت حاصل ہے وجہ یہ ہے کہ صدر منصور ہادی کی حکومت کو عالمی برادری تسلیم کرتی ہے اور خلیجی ممالک اس حکومت کو بحال کرنے کے لئے لڑ رہے ہیں لیکن اب تک وہ اپنے ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں حوثی باغی اپنے ہتھیار سرنڈر کرنے کا مطالبہ ماننے سے انکاری ہیں۔ یمن میں امن کے امکانات فی الحال نظر نہیں آ رہے اور اگر امن آ بھی جائے تو بھی یمن کی تعمیر نو کے لئے کھربوں ڈالر کی ضرورت ہو گی اور سب سے زیادہ بوجھ سعودی عرب کو ہی اٹھانا ہو گا۔
کوئی پانچ سال پہلے عرب سپرنگ اپنے جوبن پر تھا۔ مصر‘ تونس‘ لیبیا اور یمن کے حکمران عرب سپرنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آ گئے مگر خلیجی ممالک اور ان کے حکمران خاندان محفوظ رہے اس کی دو وجوہ تھیں پہلی وجہ جس کا میں ذاتی شاہد ہوں یہ تھی کہ خلیجی حکمران کہنے کو تو مطلق العنان ہیں لیکن اپنے عوام کی نبض پر ان کا ہاتھ ہمیشہ رہتا ہے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ تمام خلیجی ممالک کے پاس مالی وسائل کی کمی نہیں تھی ۔عرب سپرنگ کے زمانے میں تیل کی فی بیرل قیمت ایک سو بیس (120) ڈالر کو تجاوز کر گئی تھی۔ عرب سپرنگ میں وہ نوجوان پیش پیش تھے جو تعلیم یافتہ تھے لیکن ان کے پاس جاب نہیں تھی۔ خلیجی حکمرانوں نے فراخدلی کے ساتھ بیکار نوجوانوں کو بیکاری الائونس دینا شروع کر دیئے۔ عرب سپرنگ کے شعلوں نے شام‘ لیبیا اور یمن میں حکومت مخالف بغاوتوں کو خانہ جنگی میں تبدیل کر دیا لہٰذا خلیجی عوام نے امن اور استحکام کے راستے کو ترجیج دی۔
مگر اس وقت خلیجی ممالک کی مالی حالت پہلے جیسی نہیں رہی۔ تیل کی قیمتیں گر گئیں عام خیال ہے کہ اگلے دو سال تیل کی فی بیرل قیمت پچاس اور ساٹھ ڈالر کے درمیان رہے گی آج سے چند سال پہلے خلیجی ممالک اپنے بجٹ تخمینے سو ڈالر فی بیرل کی مفروضی قیمت پر بناتے تھے اب تیل سے ہونے والی آمدنی خاصی کم ہے اور ساتھ ہی یمن کی جنگ پر اٹھنے والے اخراجات ہیں جب تک تمام خلیجی حکمران ایران کے بارے میں یکسو نہیں ہو جاتے اور ایک پیج پر نہیں آتے خطے میں طاقت کا توازن ایران کے حق میں رہے گا۔ پہلے امریکہ اپنی طاقت کا وزن عربوں کے پلڑے میں ڈال دیتا تھا۔ اب صورتحال مختلف ہے۔
سازشی تھیوری مڈل ایسٹ میں بہت مقبول ہے۔ اکثر عرب اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ امریکہ اور یورپی ممالک عرب اور مسلمان ملکوں کے خلاف سازشوں میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ گہرے شکوک و شبہات کی حقیقی وجوہات بھی ہیں۔ پہلی عالمی جنگ میں انگریزوں نے عربوں کو پہلے ترکی کے خلاف کھڑا کیا اور پھر اسرائیل بنا کر عربوں کی کمر میں خنجر گھونپ دیا۔ کافی عرصہ عرب حکمران اس انتظار میں رہے کہ امریکہ مسئلہ فلسطین کو حل کرائے گا مگر ایسا نہ ہو سکا اور اب عربوں کو یقین ہو چکا ہے کہ امریکہ مڈل ایسٹ کے مسئلے کو حل کرنے میں مخلص نہیں۔ 
سازشی نظریہ پر یقین رکھنے والے ایک قدم آگے جاتے ہیں وہ ایک حدیث شریف کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ مسلمانوں اور کفار میں آخری جنگ شام میں ہوگی اور یہ وقت قیامت کے قریب ہو گا اس جنگ میں فتح مسلمانوں کی ہو گی۔ اب سازشی نظریہ والے یہ تاویل پیش کر رہے ہیں کہ داعش امریکہ نے خود بنائی ہے اور امریکہ نے ہی داعش کو ترغیب دی کہ وہ الرقہ میں اپنا دارالحکومت بنائے اور اب امریکہ صرف اس غرض سے داعش کو شکست دینے پر تلا ہوا ہے تاکہ نعوذباللہ حدیث شریف کو غلط ثابت کر کے مسلمانوں میں بے یقینی اور مایوسی پھیلائی جائے۔ میں سازشی نظریات پر یقین نہیں رکھتا مگر مندرجہ بالا رائے میں نے اپنے ایک عرب دوست سے سنی ہے۔ میرا خیال ہے کہ عربوں کو اب اپنے مخدوش حالات کی ذمہ داری امریکہ یا ایران پر ڈالنے کی بجائے خود اپنے گھر کی اصلاح احوال کرنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں