"JDC" (space) message & send to 7575

جنرل مشرف اور پاکستانی جمہوریت

جنرل مشرف نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کی موجودہ جمہوریت ہمارے ماحول اور ضروریات سے مطابقت نہیں رکھتی۔ ہمارے جمہوری نظام میں چیک اور بیلنس کی کمی ہے۔ جمہوریت کی ناکامیوں کا ازالہ کرنے کے لیے فوج کو مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ جنرل صاحب کی رائے مخصوص فوجی سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ جن لوگوں نے صدر ایوب خان کی کتاب 'فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘ پڑھی ہے انہیں یاد ہو گا کہ ایوب خان کے جمہوریت سے متعلق خیالات بھی جنرل مشرف کی رائے سے مشابہت رکھتے تھے۔
انسان کا وضع کردہ کوئی بھی سیاسی نظام کامل نہیں‘ مگر اب تک بنائے گئے تمام سیاسی سسٹم جمہوریت کے مقابلے میں ہیچ ہیں۔ غیر جمہوری معاشروں میں حکومتیں یا تو وراثت کے اصول پر تبدیل ہوتی ہیں یا پھر بندوق کے زور پر‘ مگر جمہوری معاشروں میں حکومت بیلٹ بکس کے ذریعے تبدیل ہوتی ہے۔ ہم نے ایسی ہی ایک حکومتی تبدیلی2013ء میں دیکھی‘ جو پاکستان میں جمہوریت کی کامیابی کی طرف ایک سنگ میل تھا۔ جمہوریت میں شور شرابہ بہت ہوتا ہے‘ جلسے جلوس بلکہ اپنے ہاں دیکھا جائے تو دھرنے بھی۔ جمہوریت کا پودا آسانی سے کسی غیر جمہوری ملک میں ٹرانسپلانٹ نہیں ہو سکتا۔ 2004ء میں امریکہ نے اعلان کیا تھا کہ مڈل ایسٹ اور شمالی افریقہ میں جمہوریت لانے کی بھرپور کوشش کی جائے گی‘ لیکن نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ جمہوریت چار پانچ سال بعد الیکشن کرا لینے کا ہی نام نہیں۔ جمہوریت رویّوں کا نام ہے۔ مخالف رائے کو تحمل سے سننے کا نام ہے۔ اجتماعی فیصلے اکثریتی رائے کی بنیاد پر کرنے کو جمہوریت کہتے ہیں۔
پاکستان میں جمہوریت نے ابھی لمبا سفر طے کرنا ہے۔ ہمارے ہاں دن رات جمہوریت کا راگ الاپنے والی سیاسی جماعتیں خود اپنے لیڈر جمہوری طریقے سے منتخب نہیں کرتیں‘ ماسوائے جماعت اسلامی کے۔ نتیجہ کیا ہے؟ اعتزاز احسن کے پائے کا لیڈر پہلے ذوالفقار علی بھٹو پھر بینظیر بھٹو اور پھر بلاول بھٹو کے آئے مؤدب کھڑا نظر آتا ہے۔ ہماری سیاسی جماعتیں چند خاندانوں کی موروثی غلام ہیں۔ ہر بڑا سیاسی لیڈر اپنے سجادہ نشین کا انتخاب خود کرتا ہے۔ تو کیا پھر پاکستان کو جمہوری نظام ترک کر دینا چاہیے؟ ہرگز نہیں! اس لیے کہ جمہوریت اپنی کمزور حالت میں بھی آمریت سے بہت بہتر ہے۔
مگر جمہوریت کے کچھ لوازمات بھی ہیں۔ سب سے پہلے شرح خواندگی اگر اچھی ہو تو جمہوریت کی کامیابی میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ عدلیہ آزاد ہو تاکہ فیصلے میرٹ کی بنیاد پر ہوں اور اقتصادی طور پر کمزور امیدوار بھی ڈٹ کر اپنا دفاع کر سکے۔ اگر عدلیہ آزاد نہیں ہو گی تو الیکشن بھی آزادانہ اور شفاف نہیں ہو سکیں گے۔ آزاد مگر ذمہ دار میڈیا جمہوریت کے لیے تیسری شرط ہے۔ میڈیا اور اعلیٰ عدلیہ دونوں حکومت پر چیک اور بیلنس رکھتے ہیں‘ اور آخری 
شرط ہے جاندار اور غیر جانبدار الیکشن کمشن۔
اور اب واپس آتے ہیں جنرل مشرف کے بیان کی جانب۔ موصوف فرماتے ہیں کہ جمہوریت میں چیک اینڈ بیلنس نہیں ہوتا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آمریت میں چیک اینڈ بیلنس اور بھی کم ہوتا ہے۔ مثلاً 2001ء میں 9/11 کے بعد اگر پاکستان میں فرد واحد کی حکومت نہ ہوتی‘ تو شاید امریکہ کو سہولتیں دینے سے متعلق ہمارے فیصلے مختلف ہوتے۔ 2003ء میں جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو ترکی سے ایئربیس مانگا تاکہ وہاں سے عراق پر بمباری کی جا سکے۔ ترک لیڈر طیب اردوان معاملہ پارلیمنٹ میں لے گئے‘ اور ترک پارلیمان نے امریکی درخواست کو قبول نہیں کیا۔ اس کے برعکس 2001ء میں جنرل مشرف نے سارے فیصلے خود کیے کیونکہ پارلیمنٹ کا وجود ہی نہیں تھا۔ پچھلے سال کی بات ہے پاکستانی افواج یمن بھیجنے کا سوال اٹھا تو معاملہ پارلیمنٹ میں گیا‘ اور ایک اچھا اجتماعی فیصلہ کیا گیا۔ 
جمہوریت عوام اور اشرافیہ میں ڈائیلاگ کا فورم مہیا کرتی ہے۔ عوام اور بیوروکریسی میں روزمرہ کا انٹرایکشن جمہوریت میں زیادہ آسانی سے ہوتا ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ آمر بھی طرح طرح کی جمہوریت ایجاد کرتے ہیں۔ کبھی کنونشن لیگ معرض وجود میں آتی ہے تو کبھی ق لیگ۔ کبھی بنیادی جمہوریت کا پیوند لگایا جاتا ہے تو کبھی ناظم کا ادارہ بنایا جاتا ہے۔ صدر ایوب نے مضبوط مرکز کا نعرہ لگایا۔ صدارتی سسٹم دیا مگر مرکز مضبوط کرتے کرتے وہ ملک کو کمزور کر گئے اور جب ہم نے 1971ء میں عوامی اکثریت کا فیصلہ قبول کرنے سے انکار کیا تو ملک دولخت ہو گیا۔
جنرل مشرف 2013ء کے الیکشن سے پہلے ملک واپس آئے تو ان کا خیال تھا کہ سوشل میڈیا پر ان کے لاکھوں حمایتی ایئرپورٹ پر ہار لے کر کھڑے ہوں گے‘ مگر کراچی ایئرپورٹ پر معاملہ الٹ تھا۔ الیکشن میں جنرل مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ کو صرف ایک سیٹ ملی۔ اس سے سمجھ آتی ہے کہ جنرل صاحب کو جمہوریت کیوں پسند نہیں۔
انڈیا اور پاکستان نے جمہوریت کی طرف سفر ایک ساتھ شروع کیا۔ انڈیا میں پنڈت نہرو نے جمہوریت کی ٹھوس بنیاد رکھ دی۔ بار بار الیکشن ہوئے‘ سیاسی جماعتیں فعال رہیں‘ سیاسی کلچر توانا ہوا۔ اس کے برعکس پاکستان میں قائد جلد انتقال فرما گئے۔ لیاقت علی خان اپنا حلقۂ نیابت کرنال میں چھوڑ آئے تھے۔ وہ عام انتخابات کرانے میں متذبذب رہے۔ پنجاب میں 1951ء میں الیکشن ہوا تو دولتانہ حکومت پر جھرلو پھیرنے کا الزام لگا۔ 1960ء میں بنیادی جمہوریت کا الیکشن ہوا‘ یعنی لنگڑی لولی جمہوریت لائی گئی۔ 1965ء کے آغاز میں محترمہ فاطمہ جناح صدارتی امیدوار بنیں تو ڈپٹی کمشنر ایس پی تھانیدار اور تحصیلدار تمام ایوب خان کی سپورٹ کر رہے تھے۔ اگر جنرل مشرف ایسی جمہوریت چاہتے ہیں تو ہم اس کے بغیر ہی بھلے۔
انڈیا میں الیکشن میں دھاندلی صرف مقبوضہ کشمیر کی حد تک ہوتی ہے۔ وہاں الیکشن کمشن تگڑا ہے۔ ہمارے ہاں فخرالدین ابراہیم جیسے ایماندار شخص کو چیف الیکشن کمشنر بنایا جاتا ہے‘ مگر ساتھ ہی ان کے پر کاٹ دیے جاتے ہیں۔ پانچوں کمشنرز کی پاورز برابر کر دی جاتی ہیں۔ ایسے میں ایک ایماندار چیف الیکشن کمشنر کیا کرتا؟ ضیاء الحق کا ریفرنڈم ہو یا پرویز مشرف کا‘ ذوالفقار علی بھٹو کا 1977ء کا الیکشن ہو یا کوئی اور‘ ہمارے سویلین اور فوجی لیڈر ایک بات پر متفق ہیں کہ الیکشن سے نتیجہ اپنی خواہش کے مطابق نکالنا ہے۔ تو پھر جمہوریت بے چاری کا کیا قصور جب ہماری نیتوں میں فتور ہی فتور ہو؟ جب میں یہ کہتا ہوں کہ جنرل مشرف کا بیان فوجی سوچ کا عکاس ہے تو میری مراد موجودہ فوجی قیادت نہیں۔ ہماری موجودہ عسکری قیادت بہت میچور ہے۔ انہیں سیاسی مداخلت کے مواقع ملے مگر ان کی تمام تر توجہ اپنے پیشہ ورانہ فرائض پر مرتکز رہی۔ اس صورت حال میں جب ہماری عسکری قیادت اتنی پختہ اور میچور ہو چکی ہے تو سیاسی قیادت کو بھی بہتر کارکردگی دکھانا ہو گی‘ الیکشن کمشن کو بھی پُرانے دھبے دھونا ہوں گے۔ تبھی پاکستان میں صحیح جمہوریت آئے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں