"JDC" (space) message & send to 7575

حلب سے موصل تک تباہی

حلب اور موصل میں کئی باتیں مشترک ہیں، دونوں شام اور عراق کے شمال میں ترکی کے قریب واقع ہیں۔ جنگ شروع ہونے سے پہلے دونوں شہروں کی آبادی پچیس پچیس لاکھ کے آس پاس تھی۔ حلب دمشق سے بڑا شہر اور تجارت کا مرکز تھا۔ موصل بغداد کے بعد عراق کا سب سے بڑا شہر تھا۔ دونوں شہر شاندار تاریخ رکھتے ہیں، دونوں کا محل وقوع بہت اہم ہے۔ دونوں شہروں میں اکثریت عرب مسلمانوں کی ہے، لیکن عرب کرسچیٔن بھی ایک زمانے سے موجود تھے۔ مسلمان اور کرسچیٔن باہم شیر و شکر تھے، بلکہ موصل میں تو ایک فرقہ یزیدی نام کا بھی رہتا ہے۔ اس فرقے کو بھی کوئی خطرہ نہ تھا؛ البتہ 2014ء میں داعش کے آنے کے بعد مغربی میڈیا نے یزیدیوں پر ہونے والے داعش کے مظالم کو خوب اچھالا ہے۔
آج حلب اور موصل دونوں تباہی کے دہانے پر ہیں بلکہ حلب کی تباہی تو ہو چکی ہے۔ اس وقت شہر میں صرف ڈھائی لاکھ لوگ موجود ہیں، اکثریت نقل مکانی کر چکی ہے۔ شام کے شہروں میں آبادی کا ایک بڑا حصہ بلند و بالا اپارٹمنٹ عمارتوں میں رہتا ہے۔ آج حلب کی تصویریں دیکھیں تو ان عمارتوں کے ٹوٹے پھوٹے ڈھانچے ہی نظر آتے ہیں۔ روس اور شام کی فضائیہ دونوں مل کر کئی مہینوں سے بمباری کر رہی ہیں۔ وجہ یہ تھی کہ شہر کے ایک حصے پر اپوزیشن کے عسکر کا قبضہ تھا۔ اس شہر پر بے شمار بیرل بم برسائے گئے، اس ہتھیار کی شکل ایک کنستر جیسی ہوتی ہے جس میں ڈائنامائٹ چھرے اور تیل تینوں شامل ہوتے ہیں۔ زمین پر گرتے ہی یہ بم اطراف میں آگ لگا دیتا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کا کہنا ہے کہ جنگ ایسی شدید رہی ہے کہ اس سال جولائی کے بعد عالمی تنظیم کا کوئی امدادی سامان شہر میں نہیں بھیجا جا سکا۔ 
موصل بغداد سے چار سوکلومیٹر شمال میں دریائے دجلہ کے کنارے پر واقع ہے۔ نینوا صوبے کا دارالحکومت ہے۔ اس شہر کو شمال کا موتی کہا جاتا تھا‘ جبکہ عراق کے کافی حصے صحرائی ہیں۔ موصل دریا پر واقع ہونے کے سبب سرسبز ہے۔ یہاں کی یونیورسٹی اور میڈیکل کالج مڈل ایسٹ میں مشہور تھے۔ اب یہ سب قصہ پارینہ ہو چکا۔ یونیورسٹی داعش کے قبضے کے بعد بند ہو گئی، میڈیکل کالج یوں تو کھلا ہے لیکن تعلیم و تدریس بہت پست معیار کی ہیں۔ داعش کے 2014ء کے قبضے کے بعد اس عظیم الشان شہر کا حال تقریباً ویسا ہی ہوا ہے جو طالبان کے قبضے کے بعد کابل کا ہوا تھا۔ 
پہلی جنگ عظیم تک عراق اور شام دونوں سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھے۔ برطانیہ اور فرانس جرمنی‘ اٹلی اور ترکی کے خلاف برسرپیکار تھے۔ 1916ء میں برطانیہ اور فرانس نے خفیہ معاہدہ کر کے مڈل ایسٹ کے حصے بخرے کئے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ برطانیہ نے عربوں کے ساتھ جو اصل وعدہ کیا تھا وہ یہ تھا کہ آپ ہماری ترکوں کے خلاف حمایت کریں اور ہم آپ کو مکمل آزادی دلائیں گے۔ 1916ء کے معاہدے کے مطابق عراق، اردن اور فلسطین انگریز کے کنٹرول میں گئے جبکہ شام اور لبنان فرانس کے مینڈیٹ میں آ گئے۔ یہ معاہدہ اس قدر خفیہ رکھا گیا کہ اخباروں میں اس کا ذکر ایک سال بعد آیا۔ دو برطانوی اور فرانسیسی سفارت کاروں نے بیٹھ کر شام اور عراق کے نقشے پر لکیر کھینچی اور یہ بارڈر کہلایا۔ 1918ء میں ترکی کو شکست ہوئی اور استعماری قوتیں مشرق وسطی پر قابض ہو گئیں۔ لارنس آف عریبیا کے عربوں کے ساتھ کئے گئے وعدے ہوا میں تحلیل ہو گئے۔ مغربی ممالک کی طرف سے عربوں کی پشت میں گھونپا گیا یہ خنجر آخری نہیں تھا، اس سے بھی کاری وار چند عشروں کے بعد اسرائیل کی صورت میں کیا گیا۔
جون 2014ء میں جب داعش نے عراق اور شام کے وسیع علاقے پر قبضہ کر لیا تو موصل اس نئی ''ریاست‘‘ کا سب سے بڑا شہر تھا، لیکن اس نئے ملک جسے آج تک کسی نے تسلیم نہیں کیا کا دارالحکومت شام کا شہر الرقہ (Al Raqqa) ہے۔ شمال مغرب میں داعش کا علاقہ حلب کے قرب و جوار تک پھیل گیا۔ جو کام القاعدہ نہ کر سکی تھی وہ داعش نے کر دکھایا یعنی اپنا رقبہ اور اپنی حکومت۔ تیل کی فروخت سے داعش کے مالی وسائل بھی حل ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ داعش کے علاقے سے بیشتر تیل ترکی سمگل ہوتا تھا۔
پچھلے چند ماہ سے داعش رُو بزوال ہے۔ داعش کی القاعدہ کی طرح بڑی غلطی یہ تھی کہ اس نے پوری دنیا سے ٹکر لے لی۔ امریکہ، روس، ترکی، ایران، حزب اللہ، شامی حکومت، ہمسایہ کرد آبادی سب ہی اس کے خلاف ہیں۔ اور پھر ابوبکر بغدادی کا یہ ایجنڈہ بھی ہے کہ وہ تمام عالم اسلام کے خلیفہ ہوںگے۔ لہٰذا خلیجی ریاستوں میں بھی خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ 
آج کل عالمی قوتیں موصل کے گرد گھیرا تنگ کر رہی ہیں۔ کہنے کو تو لیڈنگ رول عراقی فوج کا ہے، لیکن امریکی خفیہ ایجنسیاں اور سیشل فورس فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔ کرد ملیشیا بھی بڑی تعداد میں شامل ہے۔ عام خیال ہے کہ موصل کو دو تین ماہ میں داعش سے آزاد کرا لیا جائے گا۔ اس شہر کی آبادی بڑی مشکل میں ہے۔ اندازہ ہے کہ اس لڑائی کے دوران دس لاکھ سے زیادہ باسی موصل شہر چھوڑنے پر مجبور ہو جائیںگے۔ دوسرا خطرہ یہ ہے کہ داعش والے موصل میں شکست کے بعد شام کی طرف بھاگ جائیں گے۔ 1916ء میں مغربی استعمار کا کھینچا ہوا بارڈر اب عملاً ختم ہو چکا ہے۔ اب عراق اور شام کے بارڈرکی صورت حال وہی ہے جو ضرب عضب شروع ہونے سے پہلے پاک افغان سرحد کی تھی۔ حزب اللہ کے لیڈر حسن نصراللہ کا کہنا ہے کہ امریکی داعش والوں کو جان بوجھ کر شام بھیجیںگے۔ حزب اللہ خود شام میں بشار الاسد کی افواج کے شانہ بشانہ لڑ رہی ہے۔
حلب کے خوبصورت شہر کی تباہی ہو چکی۔ اس تباہی کے ذمہ دار بشارالاسد کی حکومت اور روسی بمباری ہے۔ کتنا شاندار شہر تھا جہاں آگاتھا کرسٹی نے لمبا قیام کرکے اپنا مشہور ناولMurder on the Orient express لکھا تھا۔ یہاں کا ہوٹل بارون (Hotel Baron) پورے مڈل ایسٹ میں مشہور تھا۔ آگاتھاکرسٹی اسی ہوٹل میں کئی ماہ قیام پذیر رہیں۔ 1911ء میں بننے والے اس ہوٹل میں سنٹرل ہیٹنگ (Central Heating) لگائی گئی تھی جو اس زمانے کی نئی چیز تھی۔ اب یہ ہوٹل خستہ حال ہے اور اس پر مہاجرین کا قبضہ ہے۔
مغربی دفاعی ایکسپرٹ یہ کہہ رہے ہیں کہ 2017ء میں داعش کو حتمی شکست ہوگی لیکن یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ داعش کو شکست تو ضرور ہوگی لیکن وہ ختم نہیں ہوگی۔ القاعدہ اور طالبان کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں