"JDC" (space) message & send to 7575

خالصتان کے امکانات

پچھلے دنوں خالصتان تحریک کے چند حامیوں نے انڈین پنجاب میں ایک جیل پر حملہ کیا اور ساتھیوں کو آزاد کرا لیا۔ ان قیدیوں میں تحریک کے ایک لیڈر ہرمیندر سنگھ منٹو بھی شامل تھے۔ انڈین حکومت نے منٹو کے بارے میں معلومات فراہم کرنے والے کے لیے خطیر انعام کا اعلان کیا‘ اور انہیں اگلے ہی روز دہلی کے قریب گرفتار کر لیا گیا۔ اس سے ظاہر ہوا کہ آزاد خالصتان کی تحریک انڈیا میں اب بھی زندہ ہے‘ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ تحریک اپنا ہدف حاصل کر پائے گی۔ 
کسی علیحدگی پسند تحریک کی کامیابی کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ آبادی کی اکثریت علیحدہ ہونے کی حامی ہو۔ جب 1946ء کے الیکشن میں مسلم لیگ نے واضح کامیابی حاصل کی تو ایک الگ ملک کے مطالبے کو بڑی تقویت ملی۔ علیحدگی کی کسی تحریک کی کامیابی کے لیے لازمی ہے کہ اسے اچھی خاصی بیرونی مدد حاصل ہو‘ مثلاً بنگلہ دیش کے بننے میں انڈیا کا اعلانیہ رول تھا اور پھر انڈیا کے اس رول کو مغربی میڈیا کی حمایت بھی حاصل ہو گئی۔ دورِ حاضر میں علیحدہ ہونے والے دو ملک ایسٹ تیمور اور جنوبی سوڈان ہیں۔ دونوں کو مغربی ممالک اور میڈیا کی حمایت حاصل تھی۔ ہم نے خود سابق سوویت یونین سے کئی ریاستوں کو علیحدہ ہوتے دیکھا ہے‘ لیکن ان ممالک کو‘ جن میں یو کرائن‘ جارجیا‘ ازبکستان بھی شامل ہیں‘ آزاد حیثیت بغیر کسی سیاسی یا عسکری جدوجہد کے ملی۔ ماسکو کو دو تین مسائل یکے بعد دیگرے پیش آئے اور یہ چیلنج شدید قسم کے تھے۔ افغانستان میں شکست‘ اقتصادی زبوں حالی اور گوربا چوف کی کمزور قیادت اتنے بڑے بوجھ تھے کہ سودیت یونین جیسی سپر پاور دھڑام سے نیچے آ گری۔
اور اب واپس آتے ہیں خالصتان کی طرف۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا تحریک کو سکھوںکی اکثریت کی سپورٹ حاصل ہے؟ جواب نفی میں ہے۔ سکھ محنتی اور مہم جو لوگ ہیں۔ وہ کینیڈا‘ امریکہ‘ برطانیہ‘ تھائی لینڈ اور دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ 1969ء میں لطیفہ مشہور ہوا تھا کہ نیل آرمسٹرانگ چاند پر اترا تو ایک سردار جی وہاں پہلے سے موجود تھے۔ 1947ء میں نہرو حکومت نے سوچی سمجھی سکیم کے تحت مغربی پنجاب سے آنے والے سکھ مہاجرین کو پورے انڈیا میں پراپرٹی الاٹ کرنے کے ذریعے منتشر کر دیا۔ انڈین حکومت کا خیال تھا کہ اس طرح سکھوں کی سیاسی قوت بھی بکھر جائے گی اور اس سے یہ فائدہ بھی ہوا کہ سکھ آج کل ممبئی‘ کولکتہ‘ مدراس ہر جگہ موجود ہیں۔ سکھ کمیونی انڈیا کے خوشحال لوگ ہیں۔ ان کی اکثریت ہندوستان کے اندر رہنا چاہتی ہے‘ جہاں اقتصادی مواقع وسیع ہیں‘ لہٰذا سکھ چھوٹے سے مشرقی پنجاب میں محدود ہونا نہیں چاہتے۔ اسی وجہ سے خالصتان تحریک خاصی کمزور پڑ گئی ہے۔
علیحدگی پسند تحریک کی کامیابی کے لیے دوسری شرط اچھی تگڑی بیرونی مدد ہوتی ہے۔ خالصتان کی تحریک کو یہ مدد حاصل نہیں۔ 1980ء کی دہائی میں اس تحریک میں کچھ جان آئی تھی۔ اس زمانے میں ڈاکٹر جگجیت سنگھ چوہان ایک مستعد لیڈر کی شکل میں سامنے آئے تھے۔ وہ جب بھی پاکستان آتے جنرل ضیا الحق سے ضرور ملتے۔ انڈیا کو یقین تھا کہ پاکستان خالصتان تحریک کی مدد کر رہا ہے‘ لیکن جنرل ضیاالحق بھی عالمی سیاست کے کھیل کو خوب جانتے تھے۔ 1981ء میں خالصتان کے حامیوں نے ایئر انڈیا کا جہاز ہائی جیک کیا اور لاہور لے آئے۔ پاک فوج کے کمانڈوز صفائی کے عملے کے روپ میں طیارے میں گئے اور کمال مہارت سے تمام ہائی جیکر گرفتار کر لیے۔ ایک مسافر بھی زخمی نہیں ہوا۔ تمام ہائی جیکرز کو پاکستانی عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی اور انڈیا نے پاکستانی حکومت کا شکریہ ادا کیا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی حکومت نے خالصتان کی تحریک کی کبھی کھل کر مدد نہیں کی‘ لیکن غالباً پاکستان کی سٹریٹیجک سوچ میں یہ بات کہیں نہ کہیں موجود تھی کہ اگر خالصتان آزاد ہو جائے یا انڈیا میں رہتے ہوئے اٹانومی حاصل کر لے تو سکھوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرکے مشرقی بارڈر کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت میں یہ بات عام ہوئی کہ پاکستانی حکام نے سکھ علیحدگی پسندوں کی معلومات انڈین حکومت کو دے دی ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان کے اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری اعتزاز احسن کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا۔ تاویل یہ پیش کی گئی کہ بینظیر بھٹو راجیو گاندھی اور ان کی حکومت سے تعلقات بہتر کرنا چاہتی تھیں۔ اعتزاز احسن اس خبر کی صحت سے آج بھی انکار کرتے ہیں۔ کیا صحیح تھا‘ اورکیا غلط اس کا فیصلہ تاریخ کرے گی۔ لیکن اگر فرض کر لیا جائے کہ الزام درست ہے تو بھی خالصتان تحریک میں 1989ء میں اتنی جان نہیں تھی کہ وہ اپنا آزادی کا ہدف حاصل کر سکتی۔ 1984ء کے بعد سکھوں کی تحریک میں اتنی جان نہیں تھی کہ وہ اپنا آزادی کا ہدف حاصل کر سکتی۔ 1984ء کے بعد سکھوں میں دہلی سرکار کے خلاف نفرت ضرور تھی لیکن عام سکھ خالصتان تحریک کے مسلح جتھوں سے بھی تنگ آیا ہوا تھا‘ جن کی وجہ سے اس کی زندگی اجیرن ہو گئی تھی۔ اور سچ پوچھئے تو اگر خالصتان موومنٹ آج پھر طاقت سے ابھرتی ہے تو پاکستان بوجوہ اس کی مدد نہیں کر سکے گا۔ 9/11 کے بعد کی دنیا کچھ اور ہے اور پھر پاکستان کے اپنے مسائل بھی ہیں۔ سب سے بڑھ کر آج کا پاکستان خطے میں امن کا خواہش مند ہے تاکہ اقتصادی ترقی ممکن ہو سکے۔
علاوہ ازیں 1991ء میں ماسکو کی سنٹرل حکومت خاصی کمزور ہو چکی تھی۔ وہ صورت حال آج کے انڈیا میں نظر نہیں آتی۔ پچھلے دو تین عشروں میں انڈیا نے بہت ترقی کی ہے۔ ایوب خان کے زمانے میں اقتصادی ترقی میں پاکستان انڈیا سے آگے تھا۔ آج ماہرین کا خیال ہے کہ انڈیا پاکستان سے دس سال آگے ہے۔ جب ملک خوشحال ہو تو علیحدگی پسند تحریکیں کمزور پڑ جاتی ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں اڑیسہ سے لے کر مقبوضہ کشمیر تک کئی تحریکیں انڈیا میں چل رہی ہیں لیکن یہ بات بھی محل نظر رہے کہ نئی دہلی سرکار کی علاقائی بغاوتوں سے نبرد آزما ہونے کی استطاعت بھی بڑھ گئی ہے۔
خالصتان کے ضمن میں یہ بات بھی ذہن نشین ہونی چاہئے کہ انڈین پنجاب کے تمام بڑے شہروں میں‘ جن میں امرتسر جالندھر لدھیانہ اور ہوشیار پور شامل ہیں‘ آبادی کی اکثریت ہندو دھرم سے تعلق رکھتی ہے۔ کامیاب تحریک کے لیے شہری آبادی کی سپورٹ ضروری ہوتی ہے اور شاید آپ کو علم ہو کہ ہندو اور سکھ آپس میں شادیاں بھی کرتے ہیں‘ گو کہ آج کے انڈیا میں سکھ اپنا علیحدہ تشخص قائم رکھنا چاہتے ہیں‘ لیکن ملک کے اندر رہ کر۔ وہ مشرقی پنجاب تک محدود نہیں ہونا چاہیں گے۔ جو سکھ مظاہرین ہمیں کبھی کبھار اقوام متحدہ کے ہیڈ آفس یا ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ لندن میں مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں‘ وہ اپنی کمیونٹی کی اکثریت کی نمائندگی نہیں کرتے۔
پاکستان میں ننکانہ صاحب‘ لاہور اور حسن ابدال میں سکھوں کے مقدس مقامات ہیں۔ ان کی دیکھ بھال ہماری حکومت کا فرض ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی خوش اخلاقی سے عام سکھ یاتری میں پاکستان کے لیے اچھے جذبات پیدا کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں