"JDC" (space) message & send to 7575

ذہین باپ‘ فطین بیٹا

پی آئی اے کے حادثے میں شہید ہونے والے مسافروں میں جنید جمشید کے علاوہ ایک ایسا شخص بھی تھا جو نوجوانی ہی میں ممتاز مقام حاصل کر چکا تھا۔ یہ شخص اسامہ احمد وڑائچ تھا جو اکتوبر 2015ء سے ڈپٹی کمشنر چترال تھا اس کی مختصر سی سروس اور ڈھیر سارے اچھے کام اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ وہ کوئی عام ڈی ایم جی افسر نہیں تھا۔ نیک گھرانے کی تربیت اُس کی عادات اور اعلیٰ کارکردگی سے جھلکتی تھی۔ 
پروفیسر فیض احمد، اسامہ کے والد ہیں۔ فیض سے میرا تعلق 1961ء سے ہے، جب ہم دونوں گورنمنٹ کالج لاہور میں فرسٹ ایئر میں داخل ہوئے۔ فیض نے اُس سال میٹرک میں پورے بورڈ میں ٹاپ کیا تھا، اُس وقت کے لاہور کے بورڈ میں پورا پنجاب اور بلوچستان شامل تھے۔ میٹرک میں اوّل پوزیشن لینے والے کو سب ہی احترام اور رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے فیض اور میں نہ صرف کالج میں اکٹھے تھے بلکہ چھ سال تک ہوسٹل میں بھی ساتھ رہے۔ فیض کی کئی عادات عام لڑکوں سے مختلف تھیں۔ دھیمے لہجے والا متحمل مزاج لڑکا کتابی کیڑا نہیں تھا لیکن دو تین گھنٹے باقاعدگی سے پورے انہماک سے مطالعہ اُس کی روٹین میں شامل تھا۔ طبیعت میں ٹھہرائو تھا میں نے کبھی فیض کو کسی سے لڑتے نہیں دیکھا اُس کے مُنہ سے کسی کی برائی نہیں سُنی۔
فیض کا تمام تعلیمی سفر شاندار رہا۔ ایف ایس سی میں پورے بورڈ میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ انجینئرنگ میں داخلہ بڑی آسانی سے ہو سکتا تھا مگر فیض کو ریاضیات میں اختصاص کی خواہش تھی۔ بی ایس سی اور ایم اے میں پھر اوّل پوزیشن پائی اور پی ایچ ڈی کے لیے مانچسٹر چلا گیا۔ 
چند سال بعد وہ بطور ڈاکٹر فیض احمد واپس لوٹا۔ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد، طرابلس یونیورسٹی لیبیا، جدّہ یونیورسٹی اور نسٹ یونیورسٹی اسلام آباد میں چار عشروں سے زائد پڑھایا۔ سائنس کے علاوہ لٹریچر کا شوق شروع سے تھا۔ مجھے یاد ہے ہم دونوں اتوار کے روز نیو ہوسٹل سے اکٹھے وائی ایم سی اے لاہور حلقۂ ارباب ذوق کی ہفتہ وار نشست اٹینڈ کرنے جاتے تھے۔ گرمیوں کی چھٹیاں ہوتیں تو خط و کتابت شروع ہو جاتی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک خط میں فیض نے مجھے لکھا کہ تُم مجھے آپ کر کے مخاطب نہ کیا کرو جمع کے صیغے سے دوری کا احساس ہوتا ہے لیکن فیض کی شخصیت ہی ایسی تھی کہ احترام کرنے کو دل چاہتا تھا۔ کالج سے نکلے تو ہمارے راستے علیحدہ ہو گئے۔ غالباً 1993ء میں ایک ملاقات ہوئی جسٹس افضل چیمہ مرحوم کے گھر کھانے کی دعوت تھی اور ہم دونوں مدعو تھے۔ فیض کی جج صاحب کے خاندان سے قریبی رشتہ داری تھی اور میری خاندانی نیاز مندی۔ فیض اُن دنوں جدّہ یونیورسٹی میں پڑھا رہا تھا۔ اگلی ملاقات اسلام آباد کے فاطمہ جناح پارک میں ہوئی جہاں فیض آج بھی باقاعدگی سے واک کرتا ہے۔ فیض نے مجھے بتایا کہ میرا بیٹا سعد فارن سروس میں ہے۔ تھوڑے عرصے بعد چھوٹا بھائی اسامہ پہلی ہی کوشش میں ڈی ایم جی میں آ گیا اور یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی، اس سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ اسامہ بھی اپنے والد کی طرح ذہین ہے۔
دو تین سال پہلے اسامہ کی شادی ہوئی تو مجھے دعوت نامہ ملا لیکن میں دیگر مصروفیات کی وجہ سے شادی میں شرکت نہ کر سکا۔ چند روز پہلے میں اسامہ کی تدفین کے وقت قبرستان میں اس کے والد کے ساتھ کھڑا تھا۔ صبر و تحمل کا پیکر فیض احمد بڑے نارمل طریقے سے باتیں کر رہا تھا درمیان میں خاموشی کے وقفے بھی آتے رہے اس حالت میں انسان کو یہ بھی نہیں سوجھتا کہ کیا بات کی جائے۔ فیض قبر کے پاس کھڑا ٹیلی فون کالز بھی اٹینڈ کرتا رہا۔ اتنے میں ایک سو ٹڈ بو ٹڈ بزرگ آئے اور انگریزی میں پوچھا کہ کیا آپ خالی تابوت دفنا رہے ہیں فیض نے جواب نفی میں دیا‘ اگلا سوال یہ ہوا کہ میتوں کی شناخت کس نے کی۔ فیض نے بڑے تحمل سے مفصل جواب دیا کہ شناخت کے لیے سابق آئی جی ذوالفقار چیمہ اور میرے سمدھی جائے حادثہ پر گئے تھے اور اس کام کے لیے دونوں بہترین شخص تھے۔ مجھے لگا کہ یہ دونوں سوال نامناسب اور بے وقت تھے۔ لیکن مجال ہے کہ فیض کے ماتھے پر شکن بھی آئی ہو۔ اللہ کی رضا پر راضی یہ درویش صفت انسان صبر کا پہاڑ معلوم ہوتا ہے۔
اسامہ احمد وڑائچ کی چھ سالہ مختصر سروس ساری کی ساری خیبر پختونخوا میں گزری۔ جنازے میں اتنے لوگ آئے کہ مجھے کار پارک کرنے میں آدھا گھنٹہ لگا۔ وزیراعلیٰ پرویز خٹک تدفین کے وقت موجود تھے۔ کے پی پولیس اور چترال سکائوٹس کے مشترکہ دستے نے سلامی دی۔ خیبر پختونخوا سے اسامہ کے کئی کولیگ آئے ہوئے تھے۔ میں نے اتنے بڑے جنازے کم دیکھے ہیں۔ فیض صاحب کے گھر پہنچے تو ہر شخص اسامہ کی تعریف کر رہا تھا اُس کے ساتھی افسر کہہ رہے تھے کہ وہ ہمارے لیے رول ماڈل تھا اور بزرگ فرما رہے تھے کہ اتنے تابع فرمان لڑکے ہم نے کم دیکھے ہیں۔
صوابی میں چھ ماہ کی ٹریننگ کے بعد اسامہ کو ایبٹ آباد میں اسسٹنٹ کمشنر لگایا گیا۔ پہاڑی مقام ہونے کی وجہ سے ایبٹ آباد میں ہموار جگہ کم ہے آبادی بہت بڑھ گئی ہے۔ تجاوزات بہت زیادہ ہیں۔ اسامہ نے جاتے ہی دیکھا کہ قیمتی سرکاری اراضی پر بااثر لوگ قابض ہیں اُس نے ان لوگوں کی ناراضگی کی پروا کئے بغیر تجاوزات کو ہٹایا اور اربوں روپے کی سرکاری زمین واگذار کرائی۔ ایبٹ آباد سے اسامہ کا تبادلہ پشاور بطور اے ڈی سی ہوا۔ پشاور کے ڈپٹی کمشنر ریاض محسود کو علم تھا کہ اسامہ ایک قابل اور مستعد افسر ہونے کے علاوہ تجاوزات ہٹانے کا تجربہ بھی رکھتا ہے۔ پشاور میں بھی تجاوزات تھے۔ ریاض محسود نے اپنی ہی لیڈر شپ میں ایک ٹیم تشکیل دی اسامہ کو اس نیک کام میں اپنا کلیدی ساتھی بنایا اور یہ پراجیکٹ خوش اسلوبی سے مکمل ہوا۔ ڈپٹی کمشنر پشاور، اسامہ کی بے شمار خوبیوں کے قائل ہیں ان کا کہنا ہے کہ گو اسامہ پختون نہیں تھا لیکن پختون روایات سے خوب واقف تھا۔ 
چترال میں بطور ڈپٹی کمشنر اسامہ کا قیام تیرہ چودہ ماہ رہا۔ اس مختصر عرصے میں اُس نے دریائے چترال کے کنارے پبلک پارک بنایا وہاں سولر روشنی کا انتظام کیا، یہ پارک پچاس دن کے ریکارڈ وقت میں مکمل ہوا۔ انٹرمیڈیٹ کے بعد پروفیشنل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے انٹری ٹیسٹ ہوتے ہیں اسامہ نے ان بچوں کی کوچنگ کے لیے اکیڈمی بنائی جہاں فیس صرف دو ہزار روپے ہے۔ چترال شہر میں ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے کا ایک ہسپتال خستہ حالت میں تھا۔ اسامہ نے مخیر حضرات سے درخواست کی کہ ہسپتال کے لیے مشینیں اور آلات عطیہ کریں۔ نقد عطیات لینے سے انکار کیا کہ اس طرح اس کی ایمانداری پر حرف آ سکتا تھا۔ سیلاب زدگان کی خوب مدد کی۔ کیلاش قبیلے کی اقلیت کو تحفظ فراہم کیا۔ ایک کہاوت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پسندیدہ لوگوں کو جلد اپنے پاس بلا لیتے ہیں اسامہ اُس کی بیوی آمنہ اور ننھی منی بیٹی مہ رُخ یقیناً اللہ کے پسندیدہ لوگ تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں