"JDC" (space) message & send to 7575

قائداعظم کا پاکستان اور ہم

قائداعظمؒ کا پاکستان وژن کیا تھا اور کیا ہمارا آج کا پاکستان قائد کے تصور کے مطابق ہے، یہ موضوع پرانا بھی ہے اور حساس بھی لیکن ساتھ ساتھ یہ اس قدر اہم ہے کہ اسے نظرانداز کر دیا جائے تو پاکستان کا قبلہ درست نہیں ہو سکتا۔ میں اس بات کا قائل ہوں کہ ہمارے ہاں قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ دونوں کے افکار کو نیا رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔ صدر ضیاء الحق کے زمانے کا واقعہ یاد آ رہا ہے۔ جنرل صاحب نے اقتدار میں آنے کے بعد دیکھا کہ مختلف سرکاری عمارتوں میں آویزاں تصویروں میں قائد سوٹ اور ٹائی زیب تن کئے ہوئے ہیں۔ چنانچہ حکم ہوا کہ ان کی شیروانی والی تصویر لگائی جائے اور آغاز نیشنل اسمبلی بلڈنگ سے کیا جائے۔ بزرگ اور معروف صحافی زیڈ اے سلہری سے نہ رہا گیا انہوں نے اداریہ لکھا جس کا عنوان تھا Let the Quaid remain as he was یعنی قائد کو ویسا ہی رہنے دیجئے جیسے کہ وہ اصل میں تھے۔ تب جا کر وہ نئی تصویر والا پراجیکٹ ختم ہوا۔
1906ء میں مسلم لیگ ڈھاکہ میں تشکیل پائی تو محمد علی جناح نے پارٹی جوائن نہیں کی۔ سر آغا خان مسلم لیگ کے پہلے صدر تھے اور وہ اس عہدہ پر سات سال رہے۔ اس زمانے میں قائداعظمؒ کا خیال تھا کہ یہ مسلمان نوابوں اور فیوڈل لارڈز کی پارٹی ہے جو انگریز حکمرانوں کی حمایت کی متلاشی ہے لیکن چند سال میں مسلم لیگ نے نشودنما پا کر عام مسلمانوں کی ہمدردی بھی حاصل کر لی ،خاص طور پر بنگال میں۔ غالباً 1913ء میں جناح صاحب نے مسلم لیگ میں شرکت اختیار کی لیکن وہ بیک وقت کانگریس کے ممبر بھی رہے اب ان کا مقصد ہندو مسلمان اتحاد کو فروغ دینا تھا۔ سروجنی نائیڈو نے بجاطور پر انہیں ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کہا۔ لکھنو پیکٹ اور اس کے چودہ نکات اس قصیر العمر اتحاد کا مظہر تھے۔ پیکٹ ختم ہوا تو جناح صاحب کو نئی تلخ حقیقتوں کا سامنا تھا۔ جب علامہ اقبال نے تصور پاکستان پیش کیا تو کانگرس والے حیران ہو گئے کہ سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا کہنے والا شاعر اب مسلمانوں کے علیحدہ وطن کا آئیڈیا پیش کر رہا ہے کئی سرکردہ مسلمان علماء اور سیاسی لیڈر کانگرس کا حصہ تھے ان میں مولانا آزاد اور حسین احمد مدنی پیش پیش تھے۔ ان لوگوں کا خیال تھا کہ پاکستان بننے سے مسلمانوں کی قوت بٹ جائے گی۔ جماعت اسلامی 1941ء میں تشکیل پائی۔ جماعت نے بھی پاکستان کے آئیڈیا کو فوری طور پر سپورٹ نہیں کیا۔ جماعت اسلامی کے لیڈر سید ابو الاعلیٰ مودودی کا خیال تھا کہ مغرب سے فارغ التحصیل مسلم لیگ کے لیڈر پاکستان میں اسلامی نظام نافذ نہیں کریں گے۔ ایرانی نژاد امریکی سکالر وبی نصر نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی ہے۔مجلس احرار مسلمانوں کی وہ جماعت تھی جس نے اپنا آزاد تشخص قائم کیا ہوا تھا یعنی یہ کانگرس اور مسلم لیگ دونوں سے علیحدہ رہ کر برٹش حکمرانوں سے آزادی کا خواب دیکھ رہی تھی۔ اسی مجلس احرار نے 1944ء میں قائداعظم سے کہا کہ آپ پاکستان میں شریعت کے نفاذ کا وعدہ کریں ہم آپ کو سپورٹ کریں گے قائداعظم نے ایسا وعدہ کرنے سے صاف انکار کر دیا۔
تو کیا نعوذ باللہ قائداعظم شریعت کے خلاف تھے ؟نہیں ہرگز نہیں۔ اس سوال کا جواب ہمیں قائداعظم کی گیارہ اگست 1947ء کی مشہور تقریر میں ملتا ہے بابائے قوم کے الفاظ تھے ''آپ سب آزاد ہیں آپ اپنے مندروں میں جا سکتے ہیں آپ اپنی مساجد میں جا سکتے ہیں یا پاکستان میں کسی بھی عبادت کی جگہ۔ بہرصورت پاکستان ایسی مذہبی ریاست نہیں ہو گی جہاں مذہبی راہب حکومت کریں‘‘ یہ الفاظ دو ٹوک ہیں۔ قائداعظم نے اپنی اسی تقریر میں ماضی کے انگلستان کا حوالہ دیا ہے جہاں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے۔ قائداعظم ایسا پاکستان ہرگز نہیں چاہتے تھے جہاں مسلمانوں کے مختلف مسالک کے لوگ مسلسل دست و گریباں والی صورتحال سے دوچار رہیں۔ پاکستان پچھلی تین دہائیوں میں جس کربناک صورتحال سے گزرا ہے اسے دیکھ کر قائد کی دور رس نگاہ کو سلام کرنے کو دل کرتا ہے ۔ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ کسی آل انڈیا شیعہ تنظیم نے انہیں اپنے اجتماع میں بطور چیف گیسٹ مدعو کیا قائداعظم نے معذرت کی اور ساتھ ہی کہا کہ میں تمام مسلمانوں کا لیڈر ہوں۔ 
انیسویں صدی برصغیر کے مسلمانوں کے لیے انحطاط کا دور تھا 1857ء کی جنگ آزادی کی ہزیمت نے انہیں پژمردہ کر دیا تھا۔ ایسی گھمبیر تاریخی صورت حال میں مسلمانوں نے دو طرح کے ردعمل ظاہر کئے ایک سوچ تھی کہ احیائے دین سے نشاۃ ثانیہ حاصل کی جائے۔ اس فکر نے دارالعلوم دیوبند کو جنم دیا۔ لیکن ماڈرن تعلیم سے فرار انگریز اور اس کی زبان سے نفرت بھی اس سوچ کا حصہ تھا دوسری جانب سرسید احمد خان جیسے زعماء آئے جن کے خیال میں عصری تعلیم اور جدید رویے مسلمانوں کی ترقی کے لیے ضروری تھے۔ علامہ اقبال اور قائداعظم سرسید کے قبیلہ کے لوگ ہیں اور عامتہ المسلمین نے اس قبیلہ کی حمایت کی اور قائداعظم کو اپنا مسیحا جانا۔
علامہ اقبال سے بھی یہ سوال پوچھا گیا تھا کہ پاکستان میں قانون سازی کیا علما کریں گے ان کا جواب تھا کہ قانون سازی کا حق منتخب نمائندوں کے پاس ہو گا ۔اس موضوع پر اقبال نے اپنے لیکچرز میں سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ علامہ رہنمائی کے لئے علماء کی کونسل کے حق میں ضرور تھے لیکن وہ اس علماء کونسل کو ویٹو کا حق تفویض کرنے کے سخت مخالف تھے۔
ضیاء الحق کے زمانے میں عجلت میں بنائے گئے قوانین کا حال ہم نے دیکھ لیا۔ مسلمانوں کے ایک مسلک نے اپنی زکوۃ ریاست کو دینے سے صاف انکار کر دیا اور ان کا یہ فیصلہ ان کی فقہ کے مطابق تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس ناکام تجربہ کے بعد بینک منیجر پوچھتے تھے کہ سر جی آپ نے کون سی فقہ لکھوانی ہے۔ جس معاشرے میںلوگ شاذونادر ہی ایمانداری سے شہادت دیں وہاں حدود آرڈیننس لایا گیا۔ توہین رسالت کا قانون بالکل ٹھیک ہے لیکن ہمارے ہاں اس کے استعمال پر ہمیشہ بحث و تمحیص ہوتی رہتی ہے۔ آزادی فکر پر پہرے بیٹھا دیئے گئے، ضیاء الحق کا پاکستان قائداعظم کے وژن سے بہت مختلف تھا۔ سندھ حکومت نے 2015ء میں فیصلہ کیا کہ قائداعظم کی گیارہ اگست کی تقریر کو درسی نصاب میں شامل کیا جائے پچھلے دنوں وزیراعظم نوازشریف نے کراچی میں ہندو کمیونٹی کے ایک فنکشن میں اسی تقریر کا حوالہ دیا۔ ''دیرآید درست آید ‘‘چلیں حکومت پاکستان نے اس تقریر کو قبول تو کیابھلے اس بات میں ستر سال لگ گئے۔

 

علامہ اقبال سے بھی یہ سوال پوچھا گیا تھا کہ 
پاکستان میں قانون سازی کیا علما کریں گے ان 
کا جواب تھا کہ قانون سازی کا حق منتخب 
نمائندوں کے پاس ہو گا ۔اس موضوع پر اقبال 
نے اپنے لیکچرز میں سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ 
علامہ رہنمائی کے لئے علماء کی کونسل کے حق میں 
ضرور تھے لیکن وہ اس علماء کونسل کو ویٹو کا حق 
تفویض کرنے کے سخت مخالف تھے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں