"JDC" (space) message & send to 7575

سفارت خانوں میں کرپشن

میں اپنے طویل تجربے کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ ہماری وزارتِ خارجہ دوسری وزارتوں کے مقابلے میں زیادہ محنتی ہے اور بیرونِ ملک سفارت خانوں میں ہمارے افسر نسبتاً ایماندار ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بیرون ملک افسروں کو اچھا خاصا فارن الائونس ملتا ہے اور ان افسروں کا ملنا ملانا بھی دیگر سفارت کاروں یا وزارتِ خارجہ کے افسروں سے ہوتا ہے۔ ماحول صاف ستھرا ہوتا ہے لہٰذا کرپشن کی ترغیب کم ہوتی ہے لیکن یہ کہنا کہ ہمارے سفارت خانے کرپشن سے سو فیصد پاک ہیں صحیح نہ ہو گا۔ 1974ء میں جب قاہرہ میں عربی سیکھ چکا تو مجھے بطور تھرڈ سیکرٹری دمشق بھیجا گیا۔ یہاں پاکستانیوں کی ایک قسم تھی جنہیں کھیپئے کہا جاتا تھا۔ یہ مڈل ایسٹ اور ترکی سے چیزیں یورپ لے جا کر بیچتے تھے اور یورپ سے خریدی ہوئی اشیا استنبول، انقرہ، حلب اور دمشق میں بیچتے تھے۔ بھٹو صاحب کا دور تھا۔ پاکستان میں پہلی مرتبہ پاسپورٹ کا حصول عوام کیلئے بے حد آسان ہو گیا تھا اور ویزہ حاصل کرنا بھی اتنا مشکل نہ تھا۔ ترکی میں پاکستانی بغیر کسی ویزہ کے داخل ہو سکتے تھے۔ ان میں سے چند ایک نے وہ گل کھلائے کہ پہلی مرتبہ پاکستان کا مڈل ایسٹ میں امیج منفی ہونا شروع ہو گیا۔
کھیپئے تو خیر چھوٹے موٹے سمگلر تھے ان میں سے چند ایک زیادہ ہوشیار اور مال دار بھی تھے۔ یہ لوگ جرمنی جا کر کار خریدتے اور ڈرائیو کرکے براستہ ترکی مڈل ایسٹ لے آتے تھے اور اچھے خاصے منافع پر بیچ دیتے تھے یعنی کئی ملکوں کی سیر بھی اور نفع بخش کاروبار بھی۔ بظاہر یہ کاروبار قانونی تھا ایک روز میں سفارت خانے میں اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ ایک پاکستانی آیا اور کہنے لگا کہ آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔ میرے پاس چونکہ پاسپورٹ ویزہ کا کام تھا لہٰذا یہ کسی حد تک میرا شناسا بھی تھا۔ جب ایک افسر قونصلر کام کرتا ہے تو اسے بھانت بھانت کے لوگوں سے واسطہ رہتا ہے۔ تو ضروری بات ان صاحب نے یہ کی کہ وہ جرمنی سے چند گاڑیاں لانا چاہتے ہیں اور اگر میں انہیں ایک خط دے دوں کہ گاڑیاں سرکاری ہیں تو ایک گاڑی میری ہو جائے گی۔ اللہ نے فوراً اخلاقی قوت دی اور میں نے انہیں فوری طور پر دفتر سے نکال دیا۔ وہ بے حد حیران تھے کہ یہ عجب سر پھرا افسر ہے۔ اپنے اس ایماندارانہ فیصلے کا کریڈٹ میں ہمیشہ اپنے والد مرحوم کو دیتا ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ 1972ء میں سی ایس ایس کا رزلٹ آیا تو میری پاکستان میں 14ویں پوزیشن تھی۔ پبلک سروس کمیشن والوں نے بتایا کہ فارن سروس اور پولیس سروس کے درمیان بارڈر لائن کیس ہے۔ میرے والد مرحوم دعائیں مانگنے لگے کہ پولیس میں نہ جائوں حالانکہ میرے جیسے دیہاتی بیک گرائونڈ والے شخص کیلئے عمر بھر کی جلا وطنی سے کہیں بہتر ہوتا کہ اپنے ملک میں پولیس کپتان اور آئی جی بنے۔ میں نے والد صاحب سے کہا کہ پولیس میں بھی ایماندار افسر ہیں۔ ان کا جواب تھا کہ پولیس سروس میں کبھی کبھار سہواً بھی ظلم سرزد ہو سکتا ہے۔ اس کہانی کو بیان کرنے کا مقصد اپنی فیملی کی نیکوکاری کی تشہیر نہیں بلکہ اس حقیقت کو اجاگر کرنا ہے کہ اخلاق کی اصل تربیت گاہ فیملی ہے۔
1984ء کا سال ہے۔ میری پوسٹنگ جدہ ہو جاتی ہے۔ یہاں ہزاروں بلکہ لاکھوں پاکستانی ہیں۔ سفارت خانہ روزانہ سینکڑوں پاسپورٹ اور درجنوں ویزے ایشو کرتا ہے۔ چند ایک پاسپورٹ مشکوک بھی ہیں۔ صدر ضیاء الحق نے برادر سعودی قیادت کے کہنے پر برما کے مسلمان باشندوں کو محدود مدت کے لئے پاکستانی پاسپورٹ دے دیے تھے۔ افواہ تھی کہ ان پاسپورٹوں کی تجدید کے لئے سفارت خانے کا عملہ پیسے بناتا ہے۔ یہ شکر ہے کہ جدہ میں میرے پاس پاسپورٹ کا کام نہیں تھا اور اس طرح میں کوئلے کی کان سے باہر رہا‘ لیکن یہ بھی حقیقت تھی کہ پاسپورٹ کے آفیسر انچارج جناب مدثر نور کی ایمانداری کی قسم کھائی جا سکتی تھی۔ بات یہ تھی کہ نیچے والے عملے میں سے چند لوگ پیسے بنا رہے تھے۔ آفیسر انچارج سینکڑوںپاسپورٹوں‘ ویزوں اور دیگر دستاویزات پر روزانہ دستخط کرتا تھا اس کے پاس اتنا وقت ہی نہیں تھا کہ ہر ڈاکومنٹ کو غور سے دیکھے۔
1985ء کے اوائل میں بریگیڈیئر امیر گلستان جنجوعہ بطور سفیر جدہ آئے۔ اس سے پہلے وہ ابوظہبی میں سفیر رہ چکے تھے اور گلف کے ماحول سے خوب آشنا تھے۔ یہ اپنی ایمانداری اور سخت گیری کیلئے مشہور تھے۔ روزانہ پاسپورٹ سیکشن کا ایک چکر ضرور لگاتے تھے۔ ایک دن وہ رائونڈ پر تھے کہ ایک نائب قاصد چائے کی ٹرے اٹھائے ہوئے ان کے پاس سے گزرا۔ پوچھا کس کیلئے 
چائے لے جا رہے ہو۔ جواب ملا: فلاں صاحب کیلئے۔ سفیر صاحب نے ٹرے کو زور سے ہاتھ مارا۔ سب پیالیاں ٹوٹ گئیں اور عملے کو کہا کہ تم لوگ یہاں کام کرنے آتے ہو نہ کہ چائے پینے۔ چند روز بعد پاسپورٹ سیکشن کے تمام مشکوک ملازمین کو نوکری چھوڑنے کے نوٹس مل گئے اور اس طرح سعودی عرب میں ہمارا قونصلر سیکشن بڑی حد تک کرپشن سے پاک ہو گیا۔ جنجوعہ صاحب کے بعد جناب ولی اللہ خان خویشگی بطور سفیر آئے، وہ بھی بے حد ایماندار تھے۔ دراصل خلیجی ممالک میں سفارت خانوں کے پاس سکول بھی تھے۔ سفیر حضرات کی ڈسپوزل پر کمیونٹی ویلفیئر فنڈ اور سرکاری عمارتوں کے فنڈ کی خطیر رقوم بھی ہوتی تھیں۔ کرپٹ لوگ پیسے بناتے تھے جبکہ ایماندار لوگ ان فنڈز کو قاعدے قانون کے مطابق صرف کرتے تھے۔
اور اب چلتے ہیں 1999ء کے یونان کی طرف۔ مارچ میں میری ایتھنز میں بطور سفیر پوسٹنگ ہوئی۔ وہاں پہنچے کہ دو تین ماہ کے اندر مجھے معلوم ہو گیا کہ یہاں میرے آنے سے پہلے خوب گھپلے ہوئے ہیں۔ مجھے یقین تھا کہ میرے آنے کے بعد یہ کام نہیں ہو گا۔ تمام افسروں اور سٹاف کو ایمانداری کی تلقین کے علاوہ میں پاسپورٹ سیکشن کا باقاعدگی سے رائونڈ لیتا اور عام لوگوں کو اپنا تعارف کرانے کے بعد کہتا کہ اگر انہیں سفارت خانہ کے سٹاف باکس افسر سے کوئی شکایت ہے تو مجھے بتائیں۔ اس سے یہ فائدہ تو ہوا کہ سٹاف کسی حد تک محتاط ہو گیا لیکن کرپشن کا کینسر اب بھی پوری طرح ختم نہیں ہوا تھا؛ البتہ سٹاف والوں کو میری ایمانداری پر یقین آ چکا تھا۔
ایک روز میں دفتر میں بیٹھا تھا کہ سٹاف کا ہی ایک آدمی آیا اور مجھے سفارت خانے کی ایشو کی ہوئی ایک رسید کی کاپی دی جو ایک روز پہلے کی تھی۔ اس سے کوئی جعل سازی عیاں نہ تھی اور بالکل عام رسیدوں کی طرح تھی۔ یونان میں ہر دو تین سال بعد (Legalisation) کا پراسیس چلتا تھا۔ وہاں اکثر پاکستانی اور انڈین غیر قانونی طور پر داخل ہوتے ہیں اور پھر کوشش ہوتی ہے کہ سفارت خانہ سے جلد از جلد پاسپورٹ مل جائے۔ لیکن قانون یہ کہتا ہے کہ گمشدہ پاسپورٹ کی پولیس رپورٹ ہو اور پُرانے کوائف مع تصویر متعلقہ پاسپورٹ دفتر سے تصدیق کرائے جائیں۔ یونانی حکومت ہر اس شخص سے والدہ کا سفارت خانہ سے تصدیق شدہ نام بھی مانگتی ہے۔ چند کرپٹ لوگوں نے ایسے سرٹیفکیٹ ایشو کرنے کے لئے جعلی رسید بکیں چھپوا لی تھیں۔ اس سارے کام کے پیسے حکومت کے خزانے میں جانے کی بجائے ان کی جیبوں میں جاتے تھے۔ لالچ بری بلا ہے۔ سفارت خانے کے کرپٹ لوگ‘ جن کی تعداد چار تھی‘ سوچ رہے تھے کہ اس ''پرچون‘‘ کام کا سفیر صاحب کو پتہ نہیں چلے گا۔ مجھے جونہی اس بات کی تصدیق ہوئی تو میرا بلڈ پریشر شوٹ کر گیا۔ سخت صدمہ ہوا۔ وہ تو روزانہ کی واک اور ٹینس مجھے بچا گئی، ورنہ ہسپتال میں ہوتا۔ پہلی فرصت میں اسلام آباد مع تحریری ثبوتوں کے خط لکھا۔ منسٹری نے بے حد سمجھدار باصلاحیت اور ایماندار افسر انکوائری کے لیے بھیجا۔ مجھ سے پہلے والے سفیر صاحب کی جبری ریٹائرمنٹ ہوئی کہ یہ سب گند ان کے زمانے میں شروع ہوا تھا۔ ایک افسر اور تین سٹاف ممبر نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ میرے باقی کے سال ایتھنز میں بڑے پُرسکون گزرے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں